Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, August 11, 2020

شوہروں ‏پر ‏تشدد ‏کا ‏بڑھتا ‏سلسلہ۔


 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
                 صداٸے وقت 
            ==============
اب تک ہندوستان میں عورتوں پر تشدد کا چرچا عام تھا اور مختلف سمیناروں میں خواتین کے حقوق پر گفتگو ہوا کرتی تھی، اور بات یہاں پر ختم ہوتی تھی کہ گھر میں عورتوں کو شوہر، ساس اور سسرال والوں کے ذریعہ جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے جو انتہائی غلط ہے۔ علی گڑھ کے ایک فقہی سیمینار میں ایک بڑے عالم نے یہ بات اٹھائی کہ عورتوں کے ذریعہ مردوں پر کیے جا رہے تشدد پر بھی بحث ہونی چاہئے، تو میرے لیے یہ حیرت کی بات تھی، پھر شارجہ کے ایک فقہی سیمینار میں کویت کے ہند نژاد ایک بڑے عالم نے یہ بات کہی اور انہوں نے اپنے چشم دید کئی واقعات سنائے،تو میری حیرت کی انتہا نہیں رہی، پھر جب میرابرطانیہ جانا ہوا تو میں نے خود بھی بعض مسلم گھرانوں میں بیویوں کے ذریعہ مردوں پر کیے جانے والے تشدد کو اپنی آنکھوں سے دیکھا،تو مجھے یقین ہو گیا کہ خواتین کو شرعی حدود وقیود سے آگے بڑھ کر آزادی دینے کی سزا مردوں کو ملنے لگی ہے، اور یہ کہ پانی سر سے اونچا ہوتا جا رہا ہے۔
 ہندوستان میں بیویوں کے ذریعہ شوہروں پر کیے جانے والے مظالم کی روداد کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے، ذہنی تعزیر اور دماغی ٹینش بیویوں کے ذریعے شوہروں کو بہت پہلے سے دیا جاتا رہا ہے، البتہ پہلے یہاں  صرف خواتین کو جسمانی تشدد سے بچانے کے لیے قانون اور ہیلپ لائن تھا، اب مردوں کو بھی تشدد سے بچانے کے لیے، ہیلپ لائن بنایا گیا ہے، بعض تنظیمیں بھی مردوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے تشکیل پاگئی ہیں، مردوں کے لیے بنائی گئی ہیلپ لائن کی رپورٹ کے مطابق ایک ماہ میں پورے ملک سے اس کے پاس خواتین کے ذریعہ مردوں پر  کیے جانے والے تشدد کے حوالہ سے چھیانوے ہزار آٹھ سو چونتیس شکایتیں موصول ہوئیں، دہلی اس معاملے میں سب سے آگے ہے، صرف وہاں سے دس ہزار نواسی لوگوں نے کال کیا، دوسرا نمبر مہاراشٹرکا ہے، جن صوبوں کے اعداد وشمار دستیاب ہیں، اس کے مطابق 24/ مارچ سے 24/ اپریل2020ء کے درمیان دہلی میں 23.11فیصد، مہاراشٹرا میں 20.27، مدھیہ پردیش میں 18.12، اتر پر دیش 51.95، راجستھان 17.8، گجرات 16.11، پنجاب 14.88 اور مغربی بنگال میں 12.76فی صد بیویوں کے ذریعہ شوہروں پر ہونے والے تشدد میں اضافہ درج ہوا ہے۔ جو شکایتیں درج کرائی گئیں،ان میں بتایا گیا کہ ان کی بیویوں نے برتن سے مارا، جھاڑو سے پٹائی کی،بال کھینچا، ناخن سے کھرونچے لگائے اور دانت کاٹ کرزخمی کر دیا، شکایت کنندہ کی عمر کے جائزہ سے پتہ چلتا ہے کہ ایسے واقعات پچیس سے پینتالیس سال تک کے شوہروں کے ساتھ زیادہ ہو رہے ہیں، اور لاک ڈاؤن کے زمانہ میں اس تشدد میں ستائیس فی صد کا اضافہ ہو اہے، اندور میں مردوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم ”راشٹریہ پروش آیوگ سمنوے سمیتی“ کا کہنا ہے کہ ملک میں جتنے قانون ہیں وہ مردوں کے ذریعہ بیوی اور بہو پر تشدد کے خلاف بنائے گئے ہیں، ایسے میں شوہر جب بیوی کی شکایت لے کر تھانہ جاتا ہے تو مقدمہ درج نہیں ہوتا اور پولیس والے کہتے ہیں کہ کس قانون کے تحت مقدمہ درج کریں اور کون سی دفعہ لگائیں۔
اس صورت حال کا سیدھا اثر خانگی زندگی پر پڑ رہا ہے،ہر وقت کی کلِ کلِ سے بچوں میں بھی وہی نفسیات پر وان چڑھ رہی ہے، واقعہ یہ ہے کہ پہلے مردوں نے ہی عورتوں کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کی، بعض موقعوں سے ان کو زد وکوب کیا، ان کی سات پشتوں کو گالیاں دیں، انہوں نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بیویوں کے ساتھ حسن سلوک نہیں کیا، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب وہ تُرکی بہ تُرکی جواب دینے پراتر آتی ہیں اور اپنے اوپر کیے جا رہے ظلم کا بدلہ لینے کے لیے جو کچھ بن پڑ رہا ہے کر رہی ہیں۔
اگر لوگ زن وشوہر کے تعلقات کو خوشگوار رکھنے کے لیے اسلامی اصولوں کا پاس ولحاظ رکھنے لگیں، عورتوں کی فطری کمزوریوں کو نظر انداز کرنے کا مزاج بنائیں اور گھر کو پر سکون بنانے اور باقی رکھنے کی نبوی تعلیمات کو اپنی زندگی میں اتار لیں تو یہ صورت حال اب بھی اس قدر بے قابو نہیں ہوئی ہے کہ نہ بدلے، والدین اپنی لڑکیوں کی تربیت میں شوہر اور سسرال کے سلسلے میں مثبت رویہ اور خوشگوار زندگی گذارنے کا مزاج بنادیں تو گھر آج بھی سکون کا گہوارہ بن سکتا ہے، قرآن کریم میں ازدواجی رشتے کو اللہ رب العزت نے اپنی نشانی اور محبت والفت اور پر سکون زندگی کا پیش خیمہ قرار دیا ہے، اللہ کی اس نشانی کا مشاہدہ ہم لوگ کرتے رہے ہیں، ہماری ذمہ داری ہے کہ میاں بیوی مل کر خانگی زندگی کا نظام ایسا بنائیں کہ ہر گھر ٹینشن فری زون ہو، یہ ہماری سماجی ضرورت بھی ہے اور شریعت کو مطلوب بھی۔