Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, August 9, 2020

چین ‏کی ‏توسیع ‏پسندانہ ‏پالیسی۔


از/ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ و جھاڑکھنڈ 
                  صداٸے وقت 
              ============
چین چاہے جو کہے، حقیقت یہ ہے کہ چین کا ستائیس(27) ملکوں سے ان دنوں تنازعہ چل رہا ہے، اس نے چھ ملکوں پر اپنا قبضہ جما رکھا ہے،یا کم از کم اسے اپنا بتاتا ہے، ان چھ ملکوں میں مشرقی ترکستان، تبت، انرمنگولیا، تائیوان، ہانگ کانگ اور مکاؤ ہے، جس کا کل رقبہ1423809کلو میٹر سے زیادہ ہے، یہ چین کے موجودہ رقبہ کا تقریبا تینتالیس فیصد ہے، دنیا کے ستائیس ملکوں نے چین کی اس توسیع پسندانہ پالیسی کے خلاف اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن میں جانے کا فیصلہ کیا ہے، امریکہ اور برطانیہ کی اپیل پر اس موضوع پر اقوام متحدہ میں غیر رسمی گفتگو ہوچکی ہے، لیکن بات ابھی آگے نہیں بڑھی ہے۔
 موجودہ دور میں دوسرے ملکوں کی زمین کا ہڑپ کر لینا آسان نہیں ہے، اس لیے چین علاقہ میں اپنے اثرات بڑھانے کے لیے اپنی تجارت کی توسیع اور غریب ملکوں کودیے گئے قرض کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے، ایک رپورٹ کے مطابق چین نے جاپان کو تہتر ہزار کروڑ، پاکستان، ہانگ کانگ، تائیوان، سری لنکا میں ستائیس ستائیس(27) ہزار کروڑ، فلپین میں 1,14/ ہزار کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے، اس کے عوض چین نے سری لنکا سے ہن بن ٹوٹا بندرگاہ ننانوے سال کے لیز پر لے لیا ہے، اس کے علاوہ سری لنکا کے ایئرپورٹ، کول پاور پلانٹ، اور کئی بڑے پروجکٹ میں اس نے سرمایہ لگا رکھا ہے، قرض کے عوض سود کی شرح چین کے ذریعہ اس قدر زیادہ ہے کہ سری لنکا کے لیے اس کا چکانا ممکن نہیں ہے، اس لیے چین اس کے بدلے وہاں کے کئی وسائل پر مالکانہ حق چاہتا ہے۔
 یہی حال پاکستان کا ہے، وہ پوری طرح چین کے قرض جال میں پھنس چکا ہے، چین پاکستان کے گوادربندرگاہ سے سمندر کے راستے چین کے انجی یانگ تک پہونچنے کے لیے اکونومک کاری ڈور بنانا چاہتا ہے، یہ بڑا پروجکٹ ہے، چوبیس سو بیالیس (2442) کلو میٹر لمبے کاری ڈور کے ذریعہ چین کچا تیل، گیس اوردوسری چیزوں کی ٹرانسپورٹنگ پاکستان سے بآسانی کرنا چاہتا ہے، اس کے لیے چین پاکستان کو 3,45/ لاکھ کڑوڑ روپے دے گا، اس کی خواہش ہے کہ وہ پاکستان کے گوادر میں اپنے پانچ لاکھ شہریوں کے لیے ایک کالونی بھی بنائے۔
چین کے جنوبی سمندر کے حوالہ سے اس کا تنازعہ جاپان، ملیشیا، فلپائن سمیت نصف درجن ملکوں سے چل رہا ہے، آسیان کے کئی ملک بھی چین کی مخالفت میں ہیں۔اس کی نظر اب کروبین، لیٹن امریکی ملکوں پر ہے، اس کی خواہش ہے کہ ان ملکوں میں وہ اپنے اثرات اس قدر بڑھالے کہ امریکہ کی بالا دستی یہاں سے ختم ہو سکے، 2010ء سے پہلے ان ملکوں میں چین کی سرمایہ کاری پینتیس(35) ہزار کروڑ روپے کی تھی، لیکن گذشتہ دس سالوں میں یہ پانچ گنا بڑھ کر1,87/ لاکھ کروڑ کی ہو گئی ہے، اکانومک کمیشن فارلیٹن امریکہ اینڈ کروبین کے مطابق اس علاقہ میں پہلے پینسٹھ (65) فی صد سرمایہ کاری امریکہ اور یورپی ممالک کی تھی، جس میں تنہا امریکہ کی سرمایہ کاری اٹھائیس (28) فی صدی تھی، لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ گذشتہ تین سالوں سے اکیلے بیالیس(42) فی صد سرمایہ کاری چین کر رہا ہے، اس وجہ سے امریکہ اور یورپی ممالک کا دبدبہ ان علاقوں میں کمزور پڑا ہے، چین نے قبضہ کرکے بعض علاقوں کو اپنے ملک میں شامل کرنے کی مہم تیزکر رکھی ہے۔
2005تا2010 کے درمیان چین کی سرمایہ کاری انسٹھ ملکوں میں تھی، اس کے بعد مزید چھیاسٹھ (66) ملکوں میں اس نے اپنا جال پھیلایا ہے،جہاں تک ہندوستان میں سرمایہ کاری کی بات ہے توسودیشی تحریک اور خود کفیل ہندوستان کی منصوبہ بندی کے دوران ہمارے کاروبار اور تجارت کا بڑا انحصار چینی مصنوعات پر رہا ہے،اور اس وقت ہندوستان چینی مصنوعات کی بڑی منڈی ہے،سستے ہونے کی وجہ سے چینی سامانوں کی سپلائی یہاں زیادہ ہے،31/مارچ 2020ء کو ختم ہونے والے مالی سال کے ابتدائی گیارہ مہینوں میں ہندوستان سے چین کا کاروبار 3,57لاکھ کروڑ روپے یعنی سینتالیس ارب ڈالر کا تھا،امریکن انٹر پرائزز اینڈ دی ہیری ٹیج فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق چین کی پینتیس سے زائد ایسی کمپنیاں ہیں جس نے 2008ء سے 2019ء کے بیچ دس کروڑ ڈالر سے زیادہ کی ہندوستان میں سرمایہ کاری کی ہے،ان میں علی بابا نے سترہ سو باون کروڑ، من میڈلکس نے نو ہزار ایک سو بیس کروڑ، سنگشن اسٹیل نے 8,816کڑوڑ ،سی ٹرپ نے 8294 کڑوڑ،فوسان نے 8208 کڑوڑ،بی بی کے ای نے بیالیس سو چھپن کڑوڑ،شنگھائ اوٹو نے چھبیس سو ساٹھ کروڑ کی سرمایہ کاری کی جو قابل ذکر ہے۔فوسو گروپ بنگلورو کی رئیل اسٹیٹ کمپنی میں اکاون فیصدی حصہ داری کی خریداری کا معاملہ آخری مرحلہ میں ہے،اس وقت صورت حال یہ ہے کہ کار،ٹیمپو،اور بائیک کے ستر فیصدی پرزے ہمارے یہاں چین سے ہی آتے ہیں،دوا سازی کے لئے پچھتر فیصد خام مال اور اینٹی بائیوٹکس دوائیوں کے لئے اٹھتر فیصد اجزاء ہم چین سے ہی منگاتے ہیں،ہماری پلاسٹک صنعت کا تقریباً پورا انحصار چین پر ہے،بارہ فیصد اسٹیل ہمیں چین فراہم کراتا ہے،ٹی وی،موبائل فون،اور الکٹرانک سامان ستر سے چھتر فیصد ہمارے مارکیٹ میں چین سے ہی آتا ہے،تیس فیصد فرنیچر اور اسی فیصد پلاسٹک کے کھلونے بھی ہم چین سے ہی برآمد کرتے ہیں،سرمایہ کاری کے یہ اعداد وشمار اور ہماری مارکیٹ پر چینی مارکیٹ کی اس تفصیلات سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ اقتصادی میدان میں ہم چین کے دست نگر ہوکر رہ گئے ہیں،سو سے زیادہ چینی ایپس ہندوستان میں استعمال ہوتے رہے ہیں ان میں پنچانوے ایپس پر پابندی،بعض معاہدات کی کالعدمی  اور چند مصنوعات کی بائیکاٹ کے باوجود چین اقتصادی طور پر اب بھی ہمارے ملک میں گھسا ہوا ہے وہ تجارت کے راستہ سے بھی اپنا دائرہ کار بڑھاتا ہے اور ہماری سرحدوں میں گھس پیٹھ کرکے ملک کی سالمیت کے لئے خطرات پیدا کرتا رہا ہے،میجر سطح کی پانچ دور کی میٹنگوں کے باوجود لائن آف کنٹرول (سرحد)کی حالت جوں کی توں بنی ہوئی ہے اور چین اپنی توسیع پسندانہ پالیسی سے باز آنے کو تیار نہیں ہے, اس تفصیل کا حاصل یہ ہے کہ چین توسیع پسندانہ نظریات کا حامل ہے وہ اپنی فوجی، معاشی طاقت اور اقوام متحدہ میں ویٹو کی سہولت کی وجہ سے بہت سے ملکوں میں بالواسطہ یا بلا واسطہ اپنی توسیع پسندانہ پالیسی پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کر رہا ہے،گلوان گھاٹی پر حملہ اس کی اسی توسیع پسندانہ پالیسی کا حصہ ہے، وہ لداخ، اروناچل پردیش اورسکم میں بھی آئے دن گھس پیٹھ کرتا رہتا ہے، سابق صدر جمہوریہ اور سائنس داں عبد الکلام نے کہا تھا کہ کمزوری کے ساتھ امن قائم نہیں ہو سکتا، طاقت ور ہونا قیام امن کے لیے پہلی شرط ہے، اور ہندوستان چاہے تو اپنی شرط پر قیام امن کے لیے سامنے والے کو مجبور کرسکتا ہے۔