Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, September 27, 2020

ایس ‏آٸی ‏ایم ‏پر ‏بلا ‏جواز ‏پابندی ‏کے ‏19 ‏سال ‏پورے۔



 ۲۷ ستمبر ۲۰۰۱ کو لگی تھی پابندی ۔۔جانئے اس تنظیم کی مختصر اور اہم تاریخ۔*آخر ساری تنظیموں کو چھوڑ کیوں اسی پر پابندی لگائی گئی۔ *پابندی کے پیچھے انڈیا کی پشت پناہی کون کر رہا تھا۔ایسی تنظیم جس سے کفر کے ایوانوں میں ہلچل مچ گئی تھی۔
از /شاہد بدر فلاحی۔/صداٸے وقت /27 ستمبر 2020.
==============================

 بسم اللہ الر رحمن الرحیم

اسٹوڈینٹس اسلامک مومنٹ آف انڈیا پر بلاجواز پابندی کے 19 سال ۔۔
انصاف کو آواز دو انصاف کہاں ہے ۔۔
ڈاکٹرشاہدبدرفلاحی
ہندوستان کی پہلی مسلم طلبہ و نوجوانوں کی ملک گیر تنظیم ایس ۔آئی۔ ایم جسکا قیام 25 اپریل 1977 علیگڑھ مسلم یونیورسٹی علیگڑھ اسٹریچی ہال میں ہوا تھا۔۔اس تنظیم کے نصب العین و طریقہ کار میں ایسی جاذبیت تھی کہ بہت ہی کم عرصہ میں یہ ملک کے حساس و بیدار مسلم نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن بن گئی اللہ اور اس کے رسول محمد ﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں پورے انسانی سماج تعمیر کے ذریعہ رضائے الہی حصول اسکا نصب العین تھا مسلکی ، گروہی ، لسانی عصبیت کے ماحول میں خالص کتاب و سنت کے روشنی میں ہی اس نے اپنا طریقے کار وضع کیا تھا ۔۔ دیوبندی ، بریلوی ، اہل حدیث سب اسکے ممبر ہوتے تھے اور باہم شیر و شکر ہو کر کام کرتے تھے ۔ ایس ۔ آئی ۔ ایم کی پچیس سال جدوجہد کی تاریخ گواہ ہے۔۔
طلبہ و نوجوانوں کے اندر ملت کا درد پیدا کرنا انکی سوچ میں وسعت و بلندی پیدا کرنا کہ وہ زندگی کے ہر میدان میں اسلام کے داعی و مجاہد بن کر رہیں صرف اللہ کے ڈر سے برائیوں سے دو رہیں اور صرف اللہ کی رضا کے لئے کام کریں اللہ کی زمین کو کفر و شرک کی آلائشوں سے پاک کرنے اور دین فطرت یعنی اسلام کو غالب و نافذ کرنے کیلئے اپنا وقت ، سرمایا حتی کی جان لگا دیں ۔۔۔ یہی مشن یہی عزم یہی راہ تھی جس پر یہ سیل جنوں جاری و ساری تھا ۔ کفر کے پرستاروں کو روشنی سے نفرت ہوتی وہ شمع اسلامی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دینے کے درپے ہوتے ہیں کہ یہی کفر کا شیوہ رہا ہے ۔۔غلط پروپگنڈے ۔ منفی تشہیر کے ذریعہ اس تنظیم کے خلاف ماحول خراب کیا جانے لگا بو جہل و بو لہبی جماعتیں اس گروہ کے پیچھے پڑ گئیں کہ اچانک سے عالمی سطح پر ایک حادثہ ہوا 11 ستمبر 2001 ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے جڑواں ٹاؤر کے زمین بوس ہونے کی خبر ہم نے بھی اخباروں میں پڑھی امریکہ نے اسکا سارا الزام اسلام کے سر منڈھ دیا  war against islam
  کا نعرہ دیا ۔۔ ہمارے ملک کی حکومت نے امریکہ کی چاپلوسی میں اس حادثہ کے سولہیوں دن بلاجواز بلا ثبوت 27 ستمبر 2001 آیس ۔ آئی ۔ ایم پر پابندی لگا دی UAPA قانون کے تحت جب کسی تنظیم پر پابندی لگائی جاتی ہے تو اس کا قانون کی رو سے اس تنظیم کو چوبیس گھنٹے کا موقع دیا جاتا ہے لیکن یہاں ایسا نہیں ہوا پابندی 27 ستمبر 2001 کو شام چار بجے لگائی گئی اور اسی رات 12:40 منٹ پر ہمیں ہمارے آفس سے ڈھکیلتے گھسیٹتے مغلظات بکتے کھینچ نکالا گیا اور ہمیں جیل میں ٹھونس دیا گیا جب 90 دن کے بعد ہماری چارج شیٹ آئی تب ہم نے یہ جانا کی پولیس کے بقول ایس ۔ آئی ۔ ایم پر پابندی عائد ہو چکی تھی اور اسکے بعد بھی "شاہدبدر اپنے آفس ذاکر نگر میں  اشتعال انگیز تقریر کررہا تھا اسے اس بین کا نوٹس بھی دکھایا گیا اسکے بعد بھی وہ اشتعال انگیز تقریر جاری رکھے ہوئے تھا سن نے والوں کا ایک بڑا مجمع تھا تقریباً پانچ ہزار لوگ شریک تھے مجبوراً ہمیں گرفتار کرنا پڑا" اس تقریر کو سننے والے یہ بارہ پولیس کے افراد ہی گواہ ہیں ۔۔ حیرت ہے کہ اس دن میرے چھوٹے سے آفس میں یہ وسعت کہاں سے آگئی کہ اس میں اسٹیج بھی لگ گیا اور ہزاروں کا مجمع بھی اسی میں سما گیا۔۔ایس آئی ایم پر پابندی تو 27 ستمبر شام چار بجے لگائی گئی لیکن ہندوستان بھر میں ایس آئی ایم کے تمام دفاتر پر 26 ستمبر کی رات میں ہی رفقاء کو گرفتار کرکے آفسیز کو مقفل کردیا گیا یہ پوری کاروائی غیر قانونی ہے یہ حکموتی جبر کی بدترین مثال ہے ہم نے اس بے جا پابندی کے خلاف قانونی لڑائی شروع کی یہ لڑائی ہنوز جاری ہے ۔
UAPA کے تحت کسی تنظیم پر پابندی صرف دوسال کیلئے ہی لگائی جا سکتی ہے پابندی لگائے جانے کے بعد حکومت ایک ٹریبنل بناتی ہے ایک جج کو متعین کیا جاتا ہے اور اسے چھ ماہ کی مدت دی جاتی ہے ٹریبنل کے سامنے حکومت اور ممنوعہ تنظیم کے ذمداران اپنی باتیں رکھتے ہیں اور جج کو فریقین کی باتوں کو سننے کے بعد فیصلہ سنانا ہوتا ہے جج کے فیصلے سے دونوں فریق میں سے جسکو بھی اتفاق نہیں ہوتا وہ اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ جاسکتا ہے ۔
ٹریبنل کے فیصلہ کے خلاف ہم سپریم کورٹ گئے معاملہ زیر التوای رہا کہ بین کی دو سالہ مدت پوری ہوگئی اور حکومت نے پھر سے 25 ستمبر 2003 کو پابندی لگا دی پھر سے ٹریبنل وہی چھ ماہ کی عدالتی بھاگ دوڑ ٹریبنل کے فیصلہ کے خلاف پھر سپریم کورٹ ۔سپریم کورٹ کے پاس ہمارے مقدمہ کے سماعت کیلئے وقت نہیں تھا کہ پھر دوسالہ مدت پوری ہوگئی اور حکومت نے تیسری بار پابندی لگا دی ۔ اس بار حکومت کانگریس کی تھی کانگریس نے پچھلے بین کے تسلسل کو کو باقی نہیں رکھا ایک تذب ذب کا ماحول تھا کہ ہماری تنظیم پر پابندی ہے یا نہیں ہے ہمیں مختلف ذرائع سے گمراہ کیا جاتا رہا کی ایس آئی ایم پر پابندی اب ہمیشہ ہمیش کیلئے عائد کی جاچکی ہے اسی لئے گورمنٹ نے بین کا کوئی نوٹیفیکیشن نہیں ہے ہمیں دھوکہ میں رکھا گیا اسمیں ہمارے سنیئر وکیل کا بھی خاصہ اہم رول رہا ہے کانگریس گورمنٹ نے 8 فروری 2006 کو فی الفور پابندی عائد کردی یعنی چار مہینےے چودھ دن ہم پر پابندی نہیں تھی اور ہمارے وکیل نے ہمیں دھوکہ دیا جو لوگ ایس آئی ایم پر ہمیشہ ہمیش کی پابندی کا راگ الاپ رہے تھے اس نئی پابندی کے لگ جانے سے انکی بات غلط ثابت ہوئی پھر پابندی کا وہی پرانا چکر چل پڑا 4 فروری 2008 کو دو سال کے مدت پوری ہوتے ہی پھر سے پابندی عائد کردی گئی اور پھر وہی ٹریبونل اور وہی بھاگ دوڑ لیکن اس بار ٹریبونل جج جسٹس گیتا متل نے 6 اگست 2008 اپنا فیصلہ سناتے ہوئے یہ کہا کہ ایس آئی ایم کے خلاف اب تک کوئی ثبوت نہیں ملا ہے اسلئے اس تنظیم سے پابندی ہٹائی جاتی ہے ۔۔۔ ایسا ہندوستان کی تاریخ میں  دو ہی بار ہوا ہے کہ ٹریبنول جج نے فیصلہ حکومت کے خلاف سنایا ہو پہلی بار 1993 میں ٹریبونل جج نے آر ایس ایس سے یہ کہتے ہوئے پابندی ہٹا دی کہ اسکے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے اس وقت مرکز میں کانگریس کی حکومت تھی کانگریس حکومت نے ٹریبونل جج کے فیصلہ کو خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کرلیا اور آر ایس ایس سے پابندی ہٹ گئی اور دوسری بار اگست 2008 میں ہوا کہ جسٹس گیتا متل نے ایس آئی ایم سے پابندی یہ کہتے ہوئے ہٹا دی کی اسکے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے اتفاق سے اس بار بھی مرکز میں حکومت کانگریس کی تھی لیکن اس بار کانگریس حکومت اس فیصلہ کو سنکر باولی ہو گئی سارے اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ جاکر محض سولہ گھنٹے کے اندر اندر حکم امتناعی لیکر آگئی اور سپریم کورٹ نے بھی ہمارا موقف سنے بغیر یکطرفہ فیصلہ دے دیا جو عدل کے تقاضے کو پامال کرنے والا تھا یوں ایس آئی ایم پر حکم امتناعی کے ذریعہ Ban باقی رہا  اور فروری 2010 کو پھر سے دوسال کیلئے پابندی عائد کردی گئی پھر سے ٹربیونل اسکے بعد سپریم کورٹ اور اسی بھاگ دوڑ میں دوسال کی مدت پھر پوری ہوگئی فروری 2012 میں حکومت نے تنظیم پر پھر سے پابندی عائد کردی حکومت نے یہ محسوس کیا کہ دو سال کی مدت کم پڑ جاتی ہے اسلئے UAPA اس قانون میں تبدیلی کرکے یہ قانون بنایا کہ اب UAPA کے تحت جس کسی پر بھی پابندی لگائی جائے گی وہ مدت پانچ سال کی ہوگی اس نئے ترمیم شدہ قانون کے ذریعہ یکم فروری 2014 ایس آئی ایم پر پانچ سال کیلئے پابندی عائد کردی گئی یہاں تک کا کارنامہ تو کانگریس حکومت نے انجام دیا وہ پانچ سالہ پابندی کی مدت 31 جنوری 2019 کو پوری ہوگئی اسکے بعد مودی حکومت نے ایس آئی ایم پانچ سال کیلئے پابندی عائد کردی یوں ایس آئی ایم پر آٹھیوں بار پابندی عائد کی گئی ایس آئی ایم پر بی جے پی حکومت کو پابندی لگانے کا موقع تین بار ہاتھ آیا اور کانگریس کو ایس آئی ایم پر پابندی لگانے کا موقع پانچ بار ملا ایس آئی ایم پر پابندی لگانے کے معاملہ میں کانگریس کا ہاتھ بی جے پی کے ہاتھ سے لمبا ثابت ہوا لیکن اس پانچ سالہ بین کی مدت میں سپریم کورٹ کو اس مسلئہ کو سننے کا موقع نہیں ملا گویا Banکی یہ پانچ سالہ مدت بھی کم پڑی رہی ہے ہو سکتا ہے حکومت UAPA تبدیلی کرتے ہوئے آئیندہ بین کی مدت کو 50 سال کیلئے کردے ۔۔عدلیہ بالکل خاموش۔۔۔۔۔ ہم حکومتی جبر کا شکار بھاگ کر انصاف کیلئے سپریم کورٹ جاتے ہیں لیکن وہاں صرف خاموشی ۔ کوئی بتائے کہ ایس آئی ایم سے پابندی ہٹائے جانے کیلئے ہم کہاں جائیں۔۔۔۔؟؟