Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, September 9, 2020

حکمت ‏، ‏ساٸنس ‏اور ‏اسلاف ‏کی ‏میراث۔۔۔۔۔۔۔۔



از  / عمر فراھی ۔۔/ صداٸے وقت
==============================
زندگی زندہ لوگوں میں ہوتی ہے اور زندہ لوگ ہی لوگوں کی نگہبانی کر سکتے ہیں پھر بھی اہل دانش کا خیال ہے کہ موت زندگی کی نگہبان ہے زندگی نہیں !
جگر مرادآبادی بادی نے اسی تناظر میں کہا ہے کہ 
یہ مصرع کاش نقش ہر در و دیوار ہو جائے
جسے جینا ہو مرنے کیلئے تیار ہو جائے
یہ حکیمانہ  باتیں ہیں ۔حکمت کی زبان میں اہل دانش کا یہ نظریہ سو فیصد درست بھی ہے۔کچھ لوگ ہمارے درمیان سے فوت ہو کر چلے جاتے ہیں پھر بھی قرآن کہتا ہے انہیں مردہ مت کہو ۔یہ اسلوب اکثر آسمانی کتابوں میں ہی ملتا ہے لیکن جدید ترقی اور سائنس کی زبان میں عام طور پر  لوگوں کے ذہن میں یہ تصور ہے کہ جو دکھائی دے وہی حقیقت ہے ۔یعنی ٹکنالوجی اورانجینیرنگ ہی سائینس ہے چاہے وہ بایو میڈیکل ,میکانکل الیکٹریکل اگریکلچر یا سول تعمیراتی ٹیکنالوجی وغیرہ وغیرہ جیسے شعبے جسے دیکھ کر ہر آنکھ اور دماغ والا انسان حیرت کا اظہار کرنے لگے ۔جبکہ حقیقت یہ نہیں ہے ۔سائینس عام رہن سہن کے اوقات اور معاشرے میں بھی شامل ہے اور اس کا استعمال ہر وہ شخص جو عقل رکھتا ہے کسی نہ کسی طرح کرتا ہے اور اکثر یہ سائینس دکھائی بھی نہیں دیتی ۔آپ اسے سوشل سائنس بھی کہہ سکتے ہیں ۔خاص طور سے انسان روز مرہ کے حالات میں جو بھی کام کرنے کا فیصلہ کرتا ہے اس فیصلے کا اچھا یا خراب جو نتیجہ سامنے آتا ہے وہ بھی سائینس ہی ہے ۔قرآنی اسلوب میں ہم اسے حکمت کہہ سکتے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں سائینس ہی حکمت ہے اور حکمت ہی سائینس ہے ۔اس کا مطلب اللہ نے دنیا کے ہر انسان کو حکیم اور سائینسداں بنا کر بھیجا ہے ۔بلکہ انسان ہی نہیں ہر چرند پرند بھی اپنی صلاحیت کے مطابق سائینٹسٹ ہیں ۔بلکہ کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بہت ہی بلندی پر کھجوروں کے درختوں پر بہت ہی چھوٹا سا پرندہ جسے کہیں پر بیا کہتے ہیں کہیں پر گوریا یہ پرندہ گھاس پھوس سے جس ٹکنک سے اپنا خوبصورت گھونسلہ بناتا ہے اس کی اس طرز تعمیر سے عقل حیران رہ جاتی ہے ۔وہ بھی اپنے میدان کا سانسداں ہی ہے ۔اب جدید سائینس دانوں نے فریڈم ٹاور اور برج خلیفہ بنا دیا ہے ورنہ کسی زمانے میں جب حضرت آدم علیہ السلام کے لڑکے قابیل نے ہابیل کا قتل کیا اور اس کی لاش کو چھپانے کیلئے ادھر ادھر بھٹکنے لگا تو اس کے ذہن میں اسے دفن کرنے کا طریقہ ایک کوے سے آیا ۔اب یہ رواج عام ہو گئی تو لوگ اسے علم کہہ سکتے ہیں مگر جب تک جو علم انسان کے علم میں نہیں آتا یا جو علم چھپا ہوتا ہے اور اسے بہت ہی غور و فکر سے باہر لایا جائے وہی حکمت ہے ۔یہاں دو مثالیں اور بھی دینا چاہوں گا ۔ایک تو زمین اور پانی سے نکلنے والی معدنیات اور رزق ہیں خواہ وہ سونا چاندی تانبا شیشہ لوہا یا موتی اور پٹرول وغیرہ  ہی کیوں نہ ہو ۔علم یہ ہے کہ انسان کو اس زمین پہاڑ یا سمندر کی سطح اور کے خطے کا پتہ چل جائے جہاں سے یہ معدنیات نکلتی ہیں اور حکمت یہ ہے کہ کس طرح تہہ  بہ تہہ  کئی پردوں سے نکال کر اسے استعمال کے قابل بنایا جائے۔اسی طرح دوددھ کی بھی مثال دی جاسکتی ہے ۔دودھ کی بنیادی معلومات تو ہر انسان کو اس کے پیدا ہوتے ہی معلوم ہو جاتی ہے لیکن اس دودھ کو دہی پنیر اور گھی کی شکل میں اور بھی قیمتی اور منافع بخش بنایا جاسکتا ہے اسے حکمت اور سائنس کہتے ہیں ۔پانی کے ذخیرے دنیا میں ہر جگہ موجود ہیں مگر کسے پتہ تھا کہ ایک دن اسی پانی سے انسان توانائی کی شکل میں بجلی پیدا کر لے گا ۔غرض کہ سائینس کے اپنے دائرے بہت وسیع ہو چکے ہیں ۔لوہے سے آدمی نما روبوٹ اور مشینیں تیار ہو رہی ہیں۔اسے بھی حکمت اور سائنس کہتے ہیں ۔اس لئے عام کسان پیشہ افراد کو سانسداں نہیں کہا جاتا ورنہ ابھی دو سو سال پہلے تک جب کل یگ اپنے عروج پر نہیں تھا یہ عام زراعت پیشہ کسان ہی سائنٹسٹ تھا ۔سچائی یہ ہے کہ جدید سائنس جو ہم کتابوں میں پڑھتے ہیں قدیم انسانوں کے غیر تحریری مشاہدوں کا ذخیرہ ہے۔قرآن میں اللہ تعلی نے بارہا اپنے انبیاء کرام کے بارے میں کہتا ہے کہ ہم نے انہیں علم اور حکمت عطا کیا ۔حضرت نوح کا کشتی بنا کر پانی پر اتارنا , ذولقرنین کا لوہے اور تانبے سے دیوار تعمیر کرنا اور پھر حضرت یوسف ،حضرت داؤد اور سلیمان علیہ السلام کے قصوں میں جو باتیں ہیں وہ سائینس اور حکمت نہیں تو کیا ہیں ۔اسی قرآن میں یہود و مشرکین اور کفار کی سازشوں کا تذکرہ بھی ہے ۔آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ حکمت اور سائنس کا ہی دوسرا نام سازش ہے جسے ہم قرآن کی زبان میں مکر بھی کہتے ۔یہ سازش بھی کسی کے ساتھ وہی کرسکتا ہے جو ماضی اور حال سے باخبر ہو ۔اسے اور بھی تشریح کیا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح حکمت اور سائنس کیلئے ٹھوس علم مطالعے اور کا ہونا لازمی ہے یعنی جس کے پاس جتنا زیادہ علم ہوگا وہ اتنا ہی بڑا مکار بھی ہوگا اسی طرح سازشیں کرنے کیلئے سیاسی علوم اور اقتدار پر غالب ہونا لازمی ہے یا جن قوموں نے سیاسی حالات پر جتنا زیادہ واقفیت حاصل کی اپنی انٹلیجنس اور مکاری کا استعمال کیا انہیں کا اقتدار بھی غالب  رہا ۔اس کی سب سے بڑی مثال اسرائیل ہے ۔اگر آپ سے کوئی پوچھے کہ  عرب ممالک میں سے کسی ایک ملک کی انٹلیجنس کا نام بتائیں تو شاید آپ نہیں بتا بتائیں گے ۔لیکن اسرائیل کی انٹلیجنس کے بارے میں اکثریت کو پتہ ہے کہ اس کا نام "موساد" ہے ۔ہندوستان کے مقابلے میں پاکستان ہمارے ایک صوبے کے برابر ہے لیکن سب جانتے ہیں کہ آئی ایس آئی کون ہے ۔پاکستان کا ذکر اس لئے کیا کہ یہ ملک اپنی انٹلیجنس کی وجہ سے قائم رہا ورنہ بھارت نے اسے کبھی کا نگل لیاہوتا۔ آج ہندوستان کے اقتدار پر ایک بہت ہی معمولی شخص اقتدار کے اعلی عہدے پر فائز ہے تو کیوں ۔کیوں کہ اس کی تربیت آرایس ایس نے کی ہے ۔آر ایس کون ہے ۔آرایس ایس ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جو حکومت کے باہر رہ کر انٹلیجنس کا کام کرتی ہے اور اس نے ہندوستان کے ماضی اور حال کی سیاست پر گہری نظر رکھی ہوئی ہے ۔اس کے لوگ جسے آپ ہیڈگوار اور گولوالکر کہتے ہیں انہیں اپنے گمشدہ خزانے کا علم ہو چکا ہے جبکہ یہ بات مومنوں کیلئے کہی گئی تھی کہ حکمت مومن کا گمشدہ خزانہ ہے ۔اور یہ حکمت سائینس ہی نہیں سیاست بھی ہے ۔
اس کے برعکس یہ بات بھی بتانے کی ضرورت نہیں کہ جس طرح عالم اسلام کا مسلمان  یہودیوں کی سازش کا رونا روتا ہے اسی طرح ہندوستان کا مسلمان آرایس کی سازش کا ۔مسئلہ نصب العین کا ہے ۔مسلمان بارہ سو سالوں تک گھوڑے دوڑا کر تھک چکا ہے ۔پچھلے کئی سالوں سے وہ اپنے سلف و صالحین کے حق اور ناحق پر ہونے کی بحث کر رہے ہیں ۔پندرہ سو سال ہو گئے ابھی اس کی نماز ہی درست نہیں ہوئی ۔حضرت حسین یزید اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم کے حق اور ناحق کا فیصلہ بھی ہونا باقی ہے ۔ بحث تو ان کی اس اصل میراث پر ہونا چاہئےجس کی وجہ سے ہم کبھی سرخروع ہوئے اور اہل ایمان میں سے کہلانے کے لائق ہیں مگر جب ہم نے اس میراث کو گنوا دی تو ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا !