Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, September 17, 2020

اپنے ‏حقوق ‏کی ‏بازیابی ‏کے ‏لٸے ‏تحریک ‏”شاہین ‏باغ”کو ‏زندہ ‏رکھنا ‏ہوگا۔


از / سرفراز احمد قاسمی(حیدرآباد)
  برائے رابطہ:  8099695186
                 صداٸے وقت 
            ============
  ملک بھر کی ریاستی  اسمبلی اور پارلیمنٹ کامانسون اجلاس شروع ہوچکاہے،کرونا کےکیس 50 لاکھ کے قریب پہونچ چکےہیں  اور لاک ڈاؤن کےسائے میں یہ اجلاس ہورہاہے،تیس ارکانِ پارلیمنٹ کی کورونا رپورٹ پازیٹو آئی ہے،یہ اجلاس اسلئے بھی اہم ہےکہ اس  باربہت کچھ بدلاہواہے،ایوان سےوقفہ سوالات کاسیشن اس سال ختم کردیاگیا ہے، کروڑ وں لوگ بیروزگار ہیں،بھوک سےلاکھوں لوگوں کی جان اب تک جاچکی ہے،ملکی کی جی ڈی پی آخری سطح پر پہونچ چکی ہے،سرحد پرچین اورنیپال بری نظرڈالے ہواہے،کشمیرمیں لوگوں کی زندگیاں دن بہ دن اجیرن ہورہی ہیں،لوگوں کےاوپر خوف ودہشت کاسایہ ہے،مہنگائی بڑھتی جارہی ہے،لوگوں کے پاس پیسے نہیں ہیں،ہزاروں لوگوں کا کاروبار برباد ہوچکاہے،کسان خودکشی  کررہے ہیں ،ڈیزل اورپٹرول کی قیمت روزبڑھ رہی ہے،ملک کا سفرجاری ہے لیکن ایک ایسے راستے کی جانب جہاں سے نکلنا بہت آسان نہیں ہے،وہاں پہونچنے کے بعد واپسی کاکوئی راستہ نہیں،گھپ اندھیراہے،ایسے میں ملک کا کیا ہوگا؟ یہ ملک اپنا سنہرا مستقبل کیسے طےکرےگا؟یہ سوال آپ کے ذہن میں بھی ہوگا؟ ملک کاایک باوقار شہری ہونےکی حیثیت سے یہ سوال آپ کے ذہن میں ضرور ہونا چاہئے،لیکن ان سوالوں کا جواب کون دےگا؟آخر ملک کواس راہ پر لےجانے کا ذمہ دار کون ہے؟ وہ کون ہےجوملک کوٹکڑے ٹکڑے اوربرباد کرناچاہتاہے؟اگر ہم نے
 ان  سوالوں پرابھی غور نہیں کیا اورملک کوایسے ہی برباد کرنے چھوڑدیا تو پھر یاد رکھئے کہ اس ملک کی تباہی وبربادی کی ذمہ داری ہم پر بھی عائد ہوگی،اور پھر ہم ان ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار نہیں کرسکتے،دہلی میں فساد کے نام پر حیوانیت کا جوننگا ناچ ناچا گیا،اور دوسرا گجرات بنایا گیا یہ سب اچانک نہیں ہوا،بلکہ ایک منظم پلان کے تحت دہلی کو دوسرا گجرات بنانے کی پوری کوشش کی گئی،یہ سلسلہ ابھی ختم نہیں ہواہے،اب اسکی آڑ میں بے قصور مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے سلاخوں کے پیچھ ڈالا جارہاہے،یہ کتنی عجیب بات ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ہی یہ فساد برپاکیاگیا،درجنوں لوگوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا، مسلمانوں کے کاروبار اور گھربارکو لوٹاگیا،عزت وآبرو کو پامال کیاگیا اوراب مجرم بھی مسلمان ہی بنائے جارہےہیں،اسی جرم میں ابھی ایک روز قبل ڈاکٹر قاسم رسول الیاس کے صاحب زادے،عمرخالد جو جے این یو کے اسٹوڈینٹ ہیں انکو گرفتار کیاگیا اورعدالت نےدس دن کی پولس ریمانڈ پر  انھیں بھیج دیاہے،عمر خالد کی پہ پہلی گرفتاری نہیں ہے،بلکہ جب سے ملک میں لاک ڈاؤن شروع ہواہے تب سے ہزاروں نوجوانوں کواب تک جھوٹے الزام میں گرفتار کرکے جیل رسید کردیاگیاہے،شرجیل امام، خالد سیفی، اور دیگر بہت سے نوجوانوں کوجھوٹا الزام لگاکر جیلوں میں ٹھونس دیاگیاہے،خالد سیفی کی بیوی اور عمر خالد کی والدہ آج دہلی پریس کلب میں انصاف کی گہار لگارہی ہیں، کیا آپ جانتے ہیں کہ آخر چن چن کر مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں کیوں ہورہی ہیں انہیں پس دیوار زنداں کیوں کیاجارہاہے؟کیاہے انکا جرم ؟
انکا جرم صرف یہ ہے کہ انھوں نے بھارت کی ظالم وجابر حکومت کوللکارا،انکی ناانصافی کے خلاف آواز بلندکی،ملک کے کروڑوں مسلمان جو مایوسی کے دور سے گزر رہےتھے انکےاندر امید کی کرن پیداکی، ہمت وحوصلہ عطاکیا،انھوں نے اپنی قوم کو یہ بتایا کہ اگربھارت جمہوری ملک ہے تو ہمیں یہاں اپنے بنیادی حقوق ملنا چاہئے،اور جہاں حق ملتا نہیں وہاں حقوق مانگے نہیں جاتے بلکہ چھین کر لیاجاتاہے اور اسکے لئے جمہوری طریقہ اپنایاجاتاہے،ملک کی ممتاز یونیورسٹی جامعہ ملیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے شروع ہونے والا یہ  احتجاجی مظاہرہ  ایک تحریک کی  شکل میں تبدیل ہوگیا،جو دسمبر 2019 میں شروع ہوا تھا،اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریک  پورے ملک میں پھیل گئی،جسکو "تحریک شاہین باغ" کہا
 جاتاہے، تقریبا چار ماہ چلنے والی اس طویل تحریک نے حکومت کےایوانوں میں لرزہ پیدا کردیاتھا،یہ تحریک جسے شاید دنیا کی سب سے بڑی تحریک ہونے کااعزاز حاصل ہے اگریہ کامیاب ہوجاتی تو ملک میں انقلاب ضرور آتا، لیکن ایک سازش کے تحت، منظم پلان کے ذریعے کرونا کی آڑ میں زبردستی اس تحریک کو اپریل کے مہینے میں ختم کروادیاگیا،اس تحریک نے لوگوں کے اندر عجیب قوت پیدا کردی،100 دنوں سے زائد چلنے والی یہ پرامن اور بےمثال تحریک سے گھبراکر اس سنگھی حکومت  نے دہلی کو دوسرا گجرات بنانے کا خفیہ پلان کرلیا،اور پھر پوری دنیا نے یہ  تماشا  دیکھا کہ حکومت اپنے مکروہ عزائم کس طرح پورے کرتی ہے،تاریخ کامطالعہ کیا جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ دنیا میں بہت سی تحریکیں اٹھیں کبھی بعض وجوہات کی بناء پر کچھ ناکام بھی ہوئی  اور کبھی کامیابی نے اسکی قدم بوسی کی،ایسی بہت سی تحریکیں تاریخ کی  کتابوں میں آپ کومل جائیں گی،زندہ قومیں اپنی جدوجہد ہمیشہ جاری رکھتی ہیں جب تک وہ اپنے مشن میں کامیاب نہ ہو جائیں،ایک ایسے وقت میں جبکہ حکومت میں بیٹھے کچھ فرقہ پرست لوگ اورملک کی سنگھی حکومت مسلمانوں کےلئے ملک کی زمین تنگ کررہی ہے، ایسے میں اب ہمارے اوپر لازم ہے کہ ہم ملک کے تحفظ اور اپنے حقوق کی بازیابی کےلئے تحریک شاہین باغ کو زندہ رکھیں،اور جمہوری طریقے سے ہم اپنا حق حاصل کریں، ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ ہمارے حقوق پلیٹ میں سجاکر ہمیں کوئی پیش نہیں کرسکتا،1974 کی بات ہے اسی ہندوستان میں ریاست بہار میں اسوقت جب کانگریس  کی حکومت تھی،عبدالغفور وزیراعلیٰ تھے،پٹنہ یونیورسٹی اور دیگر تعلیمی اداروں میں حکومت کے خلاف ایک تحریک شروع ہوئی،یہ تحریک اپنے مطالبات کےحل کےلئے شروع کی گئی تھی،اسکو مضبوط اور متحرک بنانے کےلئے طلبہ کی ایک یونین بنائی گئی،لالو یادو کو اسکی صدارت سونپی گئی،اس میں کچھ اور لوگوں کو بھی شامل کیاگیا جن میں،محمد شہاب الدین مرحوم،رام ولاس پاسوان اور بی جےپی کے سشیل کمارمودی وغیرہ شامل تھے،اس تنظیم کا نام "بہار چھاتر سنگھرش سمیتی"رکھاگیا،بعد میں اسی کو وسعت دیکر جئے پرکاش نارائن کی قیادت میں اسے قومی تحریک کی شکل دیدی گئی،اور پھراسے" سمپورن کرانتی "کے نام سے موسوم کردیاگیا،اس تحریک کواتنا مضبوط کردیاگیا کہ اسکے ذریعے نہ صرف بہار حکومت کو اکھاڑ پھینکا گیا بلکہ اسکی آندھی نے اسوقت بھارت  کی سب سے مضبوط لیڈر اورخاتون آہن کہلانے والی اندرا گاندھی کی حکومت کو بھی زوال پزیر کردیا،اورپھر بلآخر اندرا گاندھی کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا،اس تحریک سے ہمیں سبق لیکر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے،عزم مستحکم،ثابت قدمی اور جہد مسلسل کے ذریعہ ہمیں اپنی لڑائی کوجاری رکھنا ہوگا،تحریک شاہین باغ نے گھٹا ٹوپ اندھیرےمیں میں امید کی ایک نئی کرن پیداکی ہے،نیا  ولولہ اور جوش عطاکیاہے،شاہین باغ تحریک نے ہمیں بہت کچھ سکھایاہے،آئیے پھرسے اسے تازہ کریں،اس عزم کے ساتھ کہ جب تک ہمیں ہمارے حقوق  نہیں دئیے جاتے،ہمارے مطالبات کو تسلیم نہیں کیاجاتا،ہمارے عدل وانصاف نہیں کیاجاتا ہماری تحریک جاری رہنی چاہئے،سی اے اے اوراین آرسی لاکر تم ہمیں ہرگز خوف زدہ اور دونمبر کا شہری نہیں بناسکتے،قیادتیں ہمیشہ جدوجہداورقربانیوں کےذریعے ہی  پیدا ہوتی ہیں،جوقیادت جدوجہد اورقربانی،جانفشانی اورجہد مسلسل کی  وجہ سے وجود  میں آتی ہیں،یہی کارگر ہوتی ہیں اور قوم کی  نیا پار لگانے کی  صلاحیت رکھتی ہیں،آج مسلم لیڈران کے ساتھ بھی متعصبانہ رویہ اختیار کیاجارہا ہے،چاہے وہ ڈاکٹر کفیل خان ہوں،اعظم خان ہوں،مختارانصاری اور عتیق احمد ہوں یاپھر پورے ملک سے گرفتار کئے جارہے ہزاروں مسلم نوجوانوں کا مسئلہ ہو،جنکو جھوٹے اور غلط الزام کے تحت جیلوں میں بھرا جارہاہے،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ سمیت ملک کی دیگر یونیورسٹیوں سے چن چن کر مسلم نوجوانوں کوگرفتار کیاجارہاہے اور انکے خلاف یواے پی اے تحت شکنجہ کسا جارہاہے، یوپی کی سنگھی اور فرقہ پرست یوگی حکومت ان دنوں چن چن کر انتقامی کارروائی انجام دے رہی ہے،جسکی لپیٹ میں وہ لوگ بھی ہیں جنھوں نے تحریک شاہین باغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیاتھا اورلکھنؤ وغیرہ میں سی اے اے اوراین آرسی کے خلاف احتجاجی مظاہرے میں اہم کردار اداکیاتھا،یوپی حکومت نے اسپیشل فورس بھی تشکیل دی ہے،جوبغیر کسی نوٹس کے جب چاہے اور جسکوچاہے گھرمیں گھس کرگرفتارکرسکتی ہے اور کارروائی کرسکتی ہے،سابق رکن پارلیمنٹ عتیق احمد جو یوپی کے الہ آباد سے تعلق رکھتے ہیں،انکی پچیس کروڑ روپئے کی پراپرٹی یوپی پولس نے ضبط کرلیاہے،
ایسے ہی یوپی کے سابق رکن اسمبلی مختار انصاری کے خلاف لگاتار کارروائی کرتے ہوئے انکی املاک کو ضبط کرنے اورعمارت کومسمار کرنے کاسلسلہ جاری ہے،لکھنؤ میں مختار انصاری کی دو منزلہ عمارت جو تقریباً 8000 ہزار اسکوائر فٹ پرمشتمل تھی اسکو منہدم کردیاگیا،انتظامیہ کاالزام ہے کہ اس عمارت کوغیر قانونی طور پرتعمیر کیاگیاتھا،میڈیا رپورٹ کے مطابق کے مطابق پولس انتظامیہ سمیت دوسو سے زیادہ پولس اہلکاروں نے 20سے زیادہ جے سی بی مشینوں کی مددسے انہدامی کارروائی انجام دی،یوگی حکومت کے مطابق عمارت کے تعمیر ہونے سے لیکر زمیں دوز کرنے تک کانہ صرف یہ کہ کرایہ وصول کیاجائےگا بلکہ اسکو منہدم کرنے میں جوخرچ آیاہے اسکی بھی وصولی کی جائےگی،اتناہی نہیں انکی انکی بیوی اورسالےوغیرہ پرگنگیسٹرایکٹ کامقدمہ بھی درج کیاگیاہے،کیا یہ فرقہ پرستی نہیں ہے؟ کیا یہ تغلقی فرمان نہیں ہے؟ کیایہ مسلم دشمنی نہیں ہے؟ کیااب بھی ہم خاموش  تماشائی بنے رہیں گے؟ رکن پارلیمنٹ اعظم خان فیملی سمیت جیل میں ہیں انکی تعمیر کردہ ملک کی ایک ممتاز دانش گاہ"جوہر یونیورسٹی کو تہس نہس کردیاگیا،دہلی میں ڈاکٹر ظفرالاسلام کے خلاف جھوٹا مقدمہ دائر کیاگیا،اورانہیں ابھی تک پریشان کیاجارہاہے،
کیاآپ نہیں سوچتے کہ آخر یہ ملک کس رخ پر جارہاہے؟مسلمانوں کی شناخت کومٹایاجارہاہے،ایسے وقت میں اب ہمارے لئے کونسا دوسراراستہ باقی بچتاہے؟عدلیہ سمیت میڈیا،مقنہ اور ملک کےدیگر اہم ادارے سب مسلم دشمن ہوچکے ہیں،کل عدالت عظمی نے سدرشن نیوز چینل ایک پروگرام لگادی جومسلم مخالف تھا، یہ ایک اچھا فیصلہ سنایاگیا لیکن سوال یہ ہے کہ اس چینل کوجوکام کرنا تھاوہ کرچکا،اب اس فیصلہ سےکیاحاصل ہوگا؟اس نے ابتک جو ملک میں نفرت کی فضا ہموار کی اسکا کیاہوگا؟ایسے  حساس مسائل پر عدالت عظمی پہلے کیوں غور نہیں کرتی،گذشتہ کئی ماہ سے ملک کامیڈیا مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلارہاہے،کیوں اس پراب تک خاموشی اختیارکی گئی؟سدرشن نیوز چینل کا جومقصد تھاوہ تو پوراہوچکا کیونکہ وہ اس مسلم مخالف پروگرام کاکافی حصہ دکھا چکاہے،کچھ ایپی سوڈ باقی ہیں،کتاب میں کیاچیز ہے اسکو جاننے کےلئے پوری کتاب پڑھنے کی ضرورت نہیں ہوتی،اخبار میں کیاہے اسکےلئے صرف اخبار کااداریہ پڑھ لینا کافی ہوتاہے اوراس کتاب کا مقدمہ پڑھ لینا کافی ہوتاہے،ایسے ہی یہ چینل کیاچاہ رہاتھا اسے نے جوابتک اپنا پروگرام نشر کیا اس میں اسکا مقصد پورا ہوگیا،اب روک لگانے کا کیافائدہ ہوگا؟ اصل سوال یہ ہے،
بہر حال ملک کے مسلمانوں کےلئے یہ وقت انتہائی نازک ہے،اورہمیں مصلحت کوشی کی چادر اتارکر اپنی بقاء وتحفظ کےلئے اور حقوق کی بازیابی کےلئے جدوجہد کرنا ہوگا،اگر ہم نے پھر بھی بےحسی اور خاموشی کامظاہرہ کیاتو انجام بہت براہوگا،خدانہ کرے ایساہو،اسلئے ایک زندہ اور باضمیر قوم ہونے کاثبوت پیش کرتے ہوئے اپنے حقوق کی بازیابی کےلئےتحریک شاہین کوزندہ اور ملک میں ایک نئے انقلاب کی راہ ہموار کریں،ورنہ توہمیں ایسے ہی کبھی ٹاڈا،پوٹا اور کبھی یواے پی اےاورسی اےاے و این آرسی جیسے کالے قوانین کے ذریعہ ہم پرظلم وستم کاپہاڑ توڑا جاتارہےگا۔اور ہم مردہ لاش کی طرح خاموش تماشائی بنےرہیں گے پھر ہماری آواز اورفریاد سننے والا کوئی نہ ہوگا۔شاید ڈاکٹر راحت اندوری مرحوم نے قوم کو یہی پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ 
ساتھ چلنا ہے تو تلوار اٹھا میری طرح 
مجھ سے بزدل کی حمایت نہیں ہونے والی

(مضمون نگار کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)
sarfararazahmedqasmi@gmail.com