Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, September 12, 2020

بچوں ‏کی ‏ذہنی ‏استعداد ‏کیسے ‏بڑھاٸیں۔۔۔۔ام ‏ھشام۔


  تحریر /ام ھشام،ممبئی۔/صداٸے وقت 
==============================
‌  سبھی والدین اپنے بچوں کو زیادہ سے زیادہ ذہین دیکھنے کے خواہاں ہوتے ہیں تاکہ بچے حصول علم کے لیے  شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرسکیں۔ اس مقصد کے لیے والدین خصوصا ماؤں کی جانب سے مختلف طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔ دیکھنے میں آتا ہے کہ بہت سے بچے کم سنی میں تنہائی، لا پرواہی جیسی عادات کے ساتھ بول چال میں نہایت کمزور واقع ہوتے ہیں-جسکی وجہ سے وہ نصابی اور غیرنصابی سرگرمیوں  میں  خاطر خواہ  کامیابی حاصل نہیں کرپاتے اور یہیں سے انکی زندگی  میں جدو جہد کی سخت ضرورت آپڑتی ہے- جسے دور    کرنا  ہر والدین   یا  سرپرست  کا فرض اول ہے کہ  وہ اپنے بچوں کے اس جہد مسلسل   میں  برابر   کے شریک بنے رہیں بچوں کی معمولی  یا  بیکار کارکردگی سے ہر گز  مایوس  نہ ہوں-
"ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز  ہے 
 اگربچوں  کے بعض جسمانی اور نفسیاتی عوارض کو دور کردیا جائے تویہی بچے مستقبل کے  کامیاب  عالم دین ,مفسر ,محقق,محدث,مجدد ،  بن کر ابھرسکتے ہیں. 
 اگر ہم اپنے آس پاس کے لوگوں کا جایزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ہر کوئی چاہتا ہے  میرا بچہ جینئس بنے ..لیکن  کیسے..کیا یہ ممکن ہے .کیا  واقعتا یہ کرشمہ ہو سکتا ہے؟ 
جی  ہاں ان  شاء اللہ  تعالی، بالکل   ہوسکتا ہے  گر آپ  اللہ  کی ذات پر بھروسہ رکھتے ہیں اور پوری تندہی سے اہنے بچے کی ذہنی بالیدگی کی خاطر ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہیں تو باذن اللہ یہ  محنت ضرور رنگ لا ئیگی-اور اللہ  ہماری کوششوں کو بیکار نہیں جانے دیگا
کیونکہ یہ نا ممکنات میں سے تو نہیں ہے - اللہ  نے  اس  دنیا میں عسر کے ساتھ بالیقینی طور پر یسر کو بھی رکھا ہے. اسی  لیے  بچوں کی ذہانت کو بڑھانے کے سلسلے میں 
‌آئیے کچھ  باتیں سمجھنے  کی کوشش کرتے ہیں. 
ماہرین کے مطابق ہمیں  اپنے بچوں کی ذہنی استعداد بڑھانے کے لیےہمیں  وہی کام کرنے ہوں گے جو   باکمال لوگوں کے والدین  اور سر پرستوں نے  انکے لیےکیا. 
 کامیابی کو حاصل کرنے کی سچی لگن,  تمشکلات  کو  اپنی محنت سے تسخیر کرنے کا اٹل ارادہ اگرآپکے پاس ہے تویقینا کامیابی آپکی ہوئی -
(Positive suggetion) ‌مثبت رویہ
بچوں کیساتھ ہمیشہ اہنا رویہ مثبت رکھیں یا رکھنے کی حتی الامکان کوشش کریں سخت سے  سخت حالات میں  بھی اپنے  بچے کو  منفی حالات کے پر پیچ راستوں  کی طرف نہ دھکیلیں.  کیونکہ امید اور  یقین کیساتھ اگر کسی بھی کام کو کیاجایے  تو بلاشبہ اسکے  حیرت انگیز نتائج ہمیں دیکھنے  کو ملتے ہیں- اسی  نوعیت کا 
ایک واقعہ سنئے،
 ایک  دن ایک بچہ  اسکو ل سے گھر واپس آتا ہے بچے کے ہاتھ میں اسکی ٹیچر  کا دیا ہواخط  تھا - بچے نے  بغیر ہڑھے اسے ماں کے حوالے  کردیا - ماں نے ٹیچر کے خط کو ہڑھا  اور خاموش ہوگی - بچے کی سوالیہ نظریں اس  دوران  ماں پر مرکوز تھیں خط کے اختتام پر بچے نے جھٹ سے سوال کیا مما  ...ٹیچر نے  کیا  لکھا ہے  ماں مسکرائی  اور  بچے  سے مخاطب ہوئی پیارے بیٹے !!!!!آپکی ٹیچر  نے لکھا ہے ......معزز  والدین .....
آج سے ہم آپکے  بچے کو  نہیں پڑھاسکتے  آپکے بچے کی ذہانت  دیکھتے ہوئے  ہم نے یہ فیصلہ لیا  ہیکہ آج سے اسکی پڑھائی آپ خود گھر پر کروائیں ہمارا  اسٹاف اس غیر معمولی  ذہین بچے کو پڑھانے سے قاصر ہے -
بچے  کی والدہ مستقل مزاجی سے بچے کی بہترین تعلیم کا انتظام گھر پر ہی کرنے لگیں یہی  بچہ جب شعور کی منزلیں طے کرتا ہوا آگے بڑھا تو انیسویں صدی نے تھامس ایڈیسن نامی (Thomas Addison)  محقق  اور سائنسداں کوپایا-
ایک دن تھامس   اپنے گھر  کی پرانی چیزیں صاف کررہے تھے اس دوران  انھیں  اپنی ماں کی الماری سے  ایک بوسیدہ  کاغذ کا ٹکڑا ملا-تھامس  نے  اس کاغذ کو کھولا اور گھنٹوں بیٹھ کر روتے رہے ........کیا لکھا  ہوا تھا  اس  کاغذ میں جسے پڑھکر  وہ اس بری طرح رونے .لگے.........
دراصل  یہ وہی رقعہ تھا جو بچپن میں اسکول ٹیچر نے  انکی والدہ کو دیا تھا .........
اس خط کا مضمون یہ تھا کہ 

معزز  والدین!!!!!!!
آپکا  یہ  بچہ بالکل غبی ہے پڑھائی لکھائی  میں بالکل  dump ہے ہم  اسے  نہیں پڑھاسکتے  اسلیے  کل سے ا سے اسکول  بھیجنے  کی ضرورت  نہیں ہے آپ خود اسے  گھر  میں سنبھالیں-
‌سوچنے والی بات ہے اگر تھامس کی والدہ  اس دن  تھامس  پر چیختی چلاتیں ,اور انھیں حقیقت  بتلادیتیں تو کیا دنیا  کو  اتنا  بڑا سائنٹسٹ  مل پاتا -
اور پھر تھامس  پر ااسکا  کیا اثر  ہوتا کیا وہ  اتنی بڑی ذلت اور احساس کمتری کو برداشت کرسکتے تھے شاید وہ صورتحال بہت تکلیف دہ ہوتی -
ایک مشفق اور سمجھدار  ماں  کے مثبت رویے نے کس طرح سے ایک غبی اور کند ذہن بچے کی صلاحیتوں کو  حیرت انگیز طور پر نکھارا
-ہمیشہ  بچوں کو  مثبت مشورہ دینے  کیساتھ مثبت رویہ رکھیں-

(2)Focus on strength
کمیوں  کی بجائے خوبیوں پر نگاہ رکھیں!!! !!
‌کمیاں اور خوبیاں  ہم سبھی میں  کم و بیش  موجود ہیں- روئے زمین پر کوئی انسان کامل نہیں ,قدرت نے ہر ایک کو دوسرے سے منفرد صلاحیتوں کا  مالک  بنایا ہے ہر  ایک کے  پاس  کوئی  نہ کوئی  خدا داد صلاحیت موجود ضرور ہے  بس  ضرورت ہے اس  صلاحیت کو پہچاننے  اور تلاشنے کی جوانسانوں کی   اکثریت  نہی کرتی - اور ہاتھ  پر  ہاتھ رکھ کر  بس  کسی معجزے کا انتظار کررہی ہوتی  ہے-
‌وہی انسان کامیاب ہے جو  کمیوں کو سدھارنے سے زیادہ خوبیوں کے نکھارنے  کے  فارمولے پر عمل  کرتا ہو-  ٹیلے اور چٹانوں سے گزرے بغیر کامیابی کا کوہسار نظر تک نہیں آتا اس پر پہنچنا تو دور ہے -
‌یہاں سرپرست پہلے ان مسائل کو سمجھ لیں جسکی وجہ سے بچہ  مار یا ڈانٹ کھاتا ہے ,یا  جو  چیزیں  بچے کے ذہن کو  اسکے منصب و مرکز  سے  ہٹانے والی ہے
 ہم اپنے اردگرد  لمحہ لمحہ   کمرشلائز ہوتے ہوئے ماحول کوبغور دیکھیں تو  ہمیں   ہمارے بچوں کے آدھے سے زیادہ  مسائل  خود سمجھ آجائیں گے مثلا... آج  بچوں  کو  چہار جانب سے ایسے  مختلف   قسم  کے  فتنوں کا  سامنا ہے  جنکا  ہماری  زندگی  میں  کوئی  دخل ہی نہیں تھا.....نہ تو  ڈش اینٹینا کے ہزاروں لاکھوں ٹی وی چینلز تھے  نہ ہی روزانہ نت نئے فنکشنز کے ساتھ مارکیٹ میں اترتے ہوئے اسمارٹ فونز کا سیلاب اور  نہ  ہی انٹرنیٹ کا پھیلا ہوا لا متناہی جال تھا ہماری زندگی ان تمام چیزوں سے خالی تھی اسلیے ہمارے وقت میں ہمارے مسائل بھی  آج کے بچوں  کی بہ نسبت کم تھے , آج ساری دنیا  کا آپس  میں سمٹ کر  ایک گلوبل ولیج بن جانا-, کاغذ قلم کی جگہ آئی پیڈ  اور ای ریڈر کا لے لینا یہ ساری تبدیلیاں ایسی ہیں جسنے اچھے اچھوں کی دنیا  بدل ڈالی ہے سبھی   ماہرین تعلیم , مفکرین  اور  بڑے بڑے دانشوروں  کے دل ودماغ کو ہلاکر رکھ دیا ہے  تو  پھر بچے تو بچے  ہیں وہ کیسے متاثر نہ ہوں ,,,,,,  اور  ویسے  بھی یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ہمارے سماج کی ہر  تبدیلی کا  پہلا اثر اسکی نسل نو پر ہوتا ہے -اچھے اور برے جیسے  بھی اثرات ہوں بچوں میں تیزی سے سرایت کرتے ہیں بچوں کی تعلیم وتربیت کے متعلق ہمیں بھی یہ بات سمجھنی چاہیے کہ  ہم  اپنے بچپن میں مذکورہ ساری بلاوں سے محفوظ تھے لیکن  آجکے  بچوں کے لیے  وہی چیزیں آزمائش بنکر  کھڑی ہیں بچوں کو  اپنے زمانے  کی دہائی دینے سے کچھ حاصل  نہیں ہوگا -کرنے  کے  کام یہ ہیں کہ  بچوں کو  as it is..  ان سارے چیلنجز کا سامنا کرناسکھایا جائے
 ان کی کمیوں کو  ہائی لایٹ  کرکے  بات  بات پر  انہیں جھڑکنا  اور مار پٹائی  کرنا  نہایت  گرا  ہوا  اور  مایوس  کن عمل ہے - اگر  آپ بھی اس عمل سے گذر رہے ہیں تو یقین مانیں کہ یہ عمل  ہمیشہ آپکو  اور آپکے بچے کو مختلف قسم کی تکلیفیں دیتا رہیگا اور اسکے  نتائج بھی حاصل نہیں ہونگے بچے کو ہر دفعہ  مارنے  کے بعد ...آپ خود تنہائی میں بیٹھکر روتے ہیں اور بچہ بھی ذہنی اور جسمانی طور پر  بری طرح مجروح ہوتا ہے-بچوں کی خوبیوں اور کمال کو  پہچانئے اور  کمیوں کو  نظر انداز  کیجیے  یقینا  یہ حکمت عملی  آہستہ آہستہ  بچے کو خود اعتماد ,مستقل مزاج اور محنت کش  بنادیگی  جن مضامین  سے بچے کو وحشت ہوتی تھی وہی مضامیں آپکی مستقل محبت  اور  توجہ کی وجہ سے  تفریح  کا  میدان ثابت ہوں گے ضرورت  اس  بات کی ہیکہ .. کمیوں  کا  رونا  رونے  کی بجائے   اپنے  بچوں کی  اچھائیوں میں  اضافہ  کریں  حتی الامکان  انکا حوصلہ  بڑھاتے رہیں رفتہ رفتہ  خوبیاں بچے کی شخصیت پر  اس درجہ  غالب آجائیں گی کہ کمیوں کا  کوئی  شمار  ہی نہ  ہوگا-اور بچہ  اپنے Goal  تک  بآسانی پہنچ جائے گا. 

سنگاپور میں امتحانات سے قبل ایک اسکول کے پرنسپل نے بچوں کے والدین کو خط بھیجا جس کا مضمون کچھ یوں تھا۔۔
" محترم والدین!
آپ کے بچوں کے امتحانات جلد ہی شروع ہونے والے ہیں۔میں جانتا ہوں آپ سب لوگ اس چیز کو لے کر بہت بے چین ہیں کہ آپ کا بیٹا امتحانات میں اچھی کارکردگی دکھائے۔لیکن یاد رکھیں یہ بچے جو امتحانات دینے لگے ہیں ان میں (مستقبل کے) آرٹسٹ بھی بیٹھے ہیں جنھیں ریاضی سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔اس میں بڑی بڑی کمپنیوں کے ترجمان بھی ہوں گے جنھیں انگلش ادب اور ہسٹری سمجھنے کی ضرورت نہیں. 
.. ان بچوں میں ایتھلیٹس بھی ہو سکتے ہیں جن کے فزکس کے مارکس سے زیادہ ان کی فٹنس اہم ہے. 
لہذا اگر آپ کا بچہ زیادہ مارکس لاتا ہے تو بہت خوب لیکن اگر وہ زیادہ مارکس نہیں لا سکا تو خدارا اس کی خود اعتمادی اور اس کی عظمت اس بچے سے نہ چھین لیجیے گا. اگر وہ اچھے مارکس نہ لا سکے تو انھیں حوصلہ دیجیے گا کہ کوئی بات نہیں یہ ایک چھوٹا سا امتحان ہی تھا وہ زندگی میں اس سے بھی کچھ بڑا کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔اگر وہ کم مارکس لاتے ہیں تو انھیں بتا دیں کہ آپ پھر بھی ان سے پیار کرتے ہیں اور آپ انھیں ان کم مارکس کی وجہ سے جج نہیں کریں گے۔
خدارا! ایسا ہی کیجیے گا اور جب آپ ایسا کریں گے پھر دیکھیے گا آپ کا بچہ دنیا بھی فتح کر لے گا۔۔۔ایک امتحان اور کم مارکس آپ کے بچے سے اس کے خواب اور اس کا ٹیلنٹ نہیں چھین سکتا۔
اور پلیز! ایسا مت سوچیئے گا کہ اس دنیا میں صرف ڈاکٹر اور انجینئرز ہی خوش رہتے ہیں. 
آپ کا مخلص
(پرنسپل۔۔۔۔۔۔۔") 

(3)moral stories
سبق آموز کہانیاں سنانا
بچے  کی ذہانت  بڑھانے  میں  یہ سو فیصدی  سب سے کارآمد ,مزیدار ,اور دلچسپ طریقہ ہے 
‌اسکے لیے  ہمیں بچوں کو راضی نہیں کرنا  ہوتا کیونکہ خود ہی بچے ہر وقت  ایک نئ کہانی کے منتظر ہوتے ہیں جی ہاں !!!!!یہ الگ   بات  ہیکہ  ہم نے  انھیں کہانیاں سنانی  چھوڑدی ہیں-
 اسلیے کہا جاتا ہیکہ  اگر  کسی کے دل میں اپنی بات   کا  نقش بٹھانا ہو تواپنی  بات  کو  کہانی یا واقعہ کی شکل دے دیجیے.  اس  سلسلے میں سب  سے  بڑی  مثال قرآن کریم  کی  اور  اسکے  اعلی  اسلوب کی یے. 
‌       اللہ  رب العزت نے  انسانوں کو  سکھلانے کے لیےاپنی  کتاب مقدس میں  یہی طریقہ استعما ل کیا ہے
لَقَدۡ کَانَ فِیۡ قَصَصِہِمۡ عِبۡرَۃٌ  لِّاُولِی الۡاَلۡبَابِ  (یوسف ۱۱۱)
ان (انبیاء ,امم,سابقین)کے قصوں میں سمجھ دار لوگوں کے لیے عبرت ہے. یہ طریقہ  کار  بہتر ہوتا ہے
 . قرآن وسنت   نے انسانوں کو  ہمیشہ ان  جیسے  سابقہ  لوگوں کے حالات زندگی, بطور تذکیر و عبرت , انذارو تبشیر  مکمل صحت کیساتھ بیان کیےتاکہ گذرے ہوئے لوگوں کے حالات زندگی اور انکی جزا وسزا کے معاملات  سے دنیا میں موجود لوگ عبرت پکڑسکیں،سابقین کے  واقعات اور ان کے انجام  لوگوں کے دلوں میں نصیحت بن کر پیوست ہوجائیں اور  لوگ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوں اور  زندگی کو  جینے کے لئے صحیح طریقہ اختیار کریں اوردنیا اور آخرت دونوں میں  کامیابی حاصل کریں-
 اللہ فرماتا ہے :(فاقصص القصص لعلھم یتفکرون........الاعراف :176)انکو  قصے سناو تاکہ وہ غوروفکر کریں 

‌یہ بات  مسلم ہے کہ اللہ  اور اسکے رسول کے طریقے  سے بڑھکر  کوئی  اور  طریقہ مفید اورکارآمد  نہیں اسی  لیے  بچپن میں سنائے گئے واقعات، حکایات،  کہانیاں ساری عمر کے لیے انسان فراموش نہیں کرسکتا. بچوں کے کچے ذہن پر یہ واقعات گہرے اوردیر پا اور  اثرات چھوڑتے ہیں- 
بچپن میں بچے کی قوت تخیل انتہائ تیز ہوتی ہے  اسلیے  اس قوت کا مناسب فایدہ اٹھانا چاہیے
‌میرا  اپنا  ذاتی  مشاھدہ ہے کہ بچپن میں والد محترم سے سنے ہوئے قصص الانبیاء ، خلفاء کے واقعات آج بھی ہو بہو  انھیں  الفاظ  کیساتھ مجھے  یاد ہیں جیسا   میں نے والد سے سنا. فالحمد للّہ رب العالمین. 

‌کہانیاں انسان کو  ایک کردار فراہم  کرتی ہیں اور اسلامی تاریخ تو  انسان  کی  کردار سازی  کا  ایک اہم  اور موثر ذریعہ ہے. اگر ہم چاہتے ہیں کہ اپنے بچوں کو اسلاف کی زندگی سے روشناس  کرائیں ,پھر  سے  ہمارے  درمیان اسلاف  جیسی عظیم الشان ہستیوں کا کردار جنم لے   تو ہم اس طریقہ کار کو عمل میں  لائیں .......ان شاءاللہ اسکا  زبردست فائدہ ہمارے سامنے ہوگا. 
ایک بات سمجھ لی جائے، واقعات کہانیاں قصے جہاں شخصیت سازی  کا  کام کرتے ہیں وہیں انسانی  ذہن میں تخریب کاری  کا  کام بھی  خوب  کرتے ہیں اسلیے کہانیوں اور واقعات کے انتخاب میں احتیاط ہونی چاہیے. بچوں کو ہمیشہ  عمدہ ,درست ,اور تحریکی و اصلاحی مواد ہی  فراہم  کرنا  چاہیے ورنہ پھر  وہی ہوگا جو  جہالت میں لوگوں سے ہوتا آیا ہے. جن، بھوت، پریت یا آتماؤں کی دیو مالائی کہانیاں بچوں کا دل ودماغ متاثر کرتی ہیں. ایسی کہانیوں سے چھوٹے بچے بری طرح متاثر ہوتے ہیں اور آگے چل کر کئی نفسیاتی مسائل سے دوچار ہو سکتے ہیں. کبھی کبھی تو بچے 
 Multiple disorder prsnolity   جیسی اہم نفسیاتی بیماریوں کا بھی شکار ہوجاتے ہیں. دراصل چھوٹے بچےجھوٹے کرداروں کو اپنی اصل زندگی میں اتارنے لگتے ہیں 
اس لئے غور کرنے والی بات یہی ہے کہ بچوں کے لئے قصے اور کہانیوں کا انتخاب ہمیشہ مثبت اور سچائی پر مبنی  ہو لہذا بچوں کی تربیت کے لئے والدین کو اپنا رویہ بہتر اور مثبت رکھنا چاہیے.-
(4)pray for them 
بچوں  کے لیے دعا گو رہنا
دعا مومن کا ہتھیار اور سامان زیست ہے مشکل  ترین حالات میں  بھی بندہ اللہ سے لو  لگائے رہے اور امید کی ڈوری کو ٹوٹنے نہ دے -اللہ کی ذات ,واحد ایسی ذات ہے جسکے لیے کوئی کام مشکل اور نا ممکن نہیں تو پھر  اگر ہم اپنی اولاد  اور اسکی بہیتری کے لیے اللہ رب العزت سے دعائیں مانگیں گے تو ان شاءاللہ ضرور یہ دعائیں اثر لائیں گی اور بچہ کی کارکردگی میں اضافہ ہوگا ..ہم دیکھیں کہ  حضرت موسی نے بھی  اہنی ایک کمزوری کی وجہ سے اللہ رب العزت سے کیسی جامع  دعا فرمائی:رب اشرح لی صدری ,ویسرلی ,امری واحلل عقدۃ من اللسانی( طہ : 25-----28)
اور  بالخصوص واالدین کی دعا  انکی اولاد کے حق  میں اللہ ضرور قبول فرماتا ہے- 
امام بخاری  کی والدہ  کا وہ مشہور واقعہ ہمارے لیے اسوہ ہے جب  امام بخاری رحمہ اللہ کی بینائی چلے جانے پر انھوں نے اللہ  رب العزت سے بڑی آہ و بکا کیساتھ رب کو راضی کیا-اور اللہ نے امام بخاری  کی بینائ دوبارہ  لوٹادی  یہ  انکی والدہ کی دعاوں کا ثمرہ تھا کہ اللہ رب العزت نے انھیں  ایسی  بینائی عطا کی کہ انھوں نے صحیح بخاری کو چاندنی راتوں میں مسجد نبوی کے صحن میں بغیر کسی چراغ کے چاند کی روشنی میں مکمل کی -
اسطرح  کئ ایک مثالیں ہمیں حدہث نبوی سے مل جاتی ہیں جو اس  بات کی طرف ہماری رہنمائی  کرتی ہیں کہ  حصول علم اور  اسکی استعداد  کو بڑھانے کے لیے صحابہ  کتنے حریص ہوا کرتے تھے  جسکے لیے وہ کثرت سے دعا کا التزام کرتے تھے ایک  بار حضرت ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ نے  اللہ کے رسول  سے سوء حفظ کی شکایت   کی  اوردعا کی درخواست کی تو  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انکے  لیے دعا فرمائی   اور نبی کریم کی دعا  کے  اثر سے  دنیا  نے سب  سے  زیادہ روایتیں انھیں کے ذریعے پائیں - 
اسی طرح  اللہ کے  رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے  ابن عباس  رضی  ا للہ عنہ کے  کیے  دعا فرمائی  :
الھم فقہ فی الدین...  
لہزا  پتہ  یہ چلتا ہیکہ  حصول علم  میں  بندے کی اپنی  محنت  کیساتھ, دعاوں  پر  بھروسہ رکھتے ہویے, انکا  پابندی سے التزام ضروری  ہے -
الکہ  ہمارے  معاملات  کو  سنوارے ,اور ہمیں  اور ہماری اولاد  کو  علم نافع  عطا کرے  ہماری خامیوں کو دور کرے   اور خوبیوں میں اضافہ  فرمایے - آمین