Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, September 5, 2020

آج ‏تم ‏یاد ‏بے ‏حساب ‏آٸے۔۔


از/کامران غنی صبا/صداٸے وقت۔
.........................۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج یوم اساتذہ ہے. میری زندگی کا پہلا یوم اساتذہ.... اس عظیم استاد کے بغیر جس کی ١١تربیت کے بغیر میں نہ تو کامران بن پاتا اور نہ غنی اور نہ ہی دنیا صبا کے وجود سے واقف ہو پاتی.
نانا علیہ الرحمتہ (پروفیسر حکیم علیم الدین بلخی فردوسی ندوی) معنوی اور روحانی دونوں اعتبار سے میرے استاد تھے. میرے آئڈیل... میرے دوست.... میرے مربی و محسن.... میرے بہت کچھ.....
آہ! آج آپ بہت یاد آ رہے ہیں نانا جان. فجر کا وقت ختم ہونے والا ہے لیکن میری آنکھوں میں نیند کا نام و نشان نہیں . آپ کی یادوں کا سیل رواں ہے. آنسوؤں کے ہر قطرے میں نہ صرف آپ کا عکس ہے بلکہ یادوں کا ایک البم ہے. ہوش سنبھالنے سے لے کر آپ کو سپرد خاک کرنے تک کا عرصہ پلکوں سے ٹپکنے والے موتیوں میں سمٹ آیا ہے. بچپن میں دو ہی استاد تو تھے جن سے خون کا رشتہ بھی تھا اور جن کے سامنے باضابطہ زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا افتخار بھی حاصل تھا.... ایک آپ... ایک آپ کی بیٹی یعنی امی جان.... اللہ امی کا سایہ تادیر قائم رکھے
نانا جان! سچ پوچھیے تو پچپن میں ہم آپ کی شخصیت سے پوری طرح واقف ہی کہاں تھے. محلے میں لوگوں کو آپ کا ہاتھ عقیدت سے چومتے ہوئے دیکھتے تھے تو بس اتنا جانتے تھے کہ آپ کی بہت عزت ہے. آپ سے پڑھنا شروع کیا تو تھوڑا بہت آپ کے علم کا اندازہ ہوا. آپ عربی و فارسی زبان پر اتنی دسترس رکھتے تھے کہ بااطمینان دونوں زبانوں میں بات چیت کرتے تھے. عربی میں تو آپ نے کئی مضامین بھی لکھے. آپ طبیہ کالج میں پروفیسر اور پرنسپل رہے. یونیورسٹی ڈین رہے. آپ کے قلم سے نہ جانے کتنے لوگوں کو ملازمت ملی لیکن واہ رے آپ کی عاجزی و انکساری کہ نہ کبھی آپ کو اپنے علم اور عہدے کا زعم رہا نہ کبھی آپ نے اپنے کسی مخاطب پر علمی دھونس جمانے کی کوشش کی. طبیعت میں عاجزی ایسی کہ کوئی شعر سنا تو رونے لگے. مجھے یاد ہے خواجہ حافظ شیرازی کا یہ شعر جب آپ مجھے پڑھا رہے تھے تو آپ بے ساختہ رونے لگے تھے
مباش درپئے آزار و ہر چہ خواہی کن
کہ در طریقت ما غیر ازیں گناہے نیست
(کسی کی دلازاری مت کرو، باقی جو چاہو کرو.... کیون کہ ہماری طریقت میں صرف یہی ایک گناہ ہے. دوسرا کوئی گناہ ہی نہیں)
نانا جان! کاش آپ کی عاجزی و انکساری کا صدقہ بھی ہمیں عطا ہو جاتا. مجھے آج بہت کچھ یاد آ رہا ہے. عید اور بقرعید میں آپ اکثر مجھے ہی لے کر رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے یہاں جاتے تھے. آپ کسی کے گھر جاتے اور اگر کوئی اندر سے پوچھ بیٹھتا کہ کون تو آپ ایک خاص انداز میں کہتے کہ "علیم الدین ہے". ایک بار کسی صاحب کے گھر دروازے پر دستک دینے کے بعد کوئی بچہ باہر آیا...اپ نے پیار سے کہا کہ بیٹا اندر جا کر کہہ دو کہ "علیم الدین آیا ہے". بیچارا معصوم بچہ اندر جا کر شور کرنے لگا کہ ابو علیم الدین آیا ہے. باہر بچے کی آواز صاف آ رہی تھی. نانا جان! اس وقت آپ کی مسکراہٹ قابل دید تھی. شاید آپ کی جگہ کوئی دوسرا ہوتا تو ناراض ہو جاتا.
نانا جان ہم نے آپ سے سیکھا کہ قوت برداشت کیا ہوتی ہے لیکن افسوس کہ وہ قوت برداشت ہم اپنے اندر منتقل نہ کر سکے. آپ ہم سب سے عمر میں، علم میں، تجربے میں، زہد و تقوے میں ہر اعتبار سے بڑے تھے لیکن ہم بہت اطمینان کے ساتھ آپ سے اختلاف بھی کر جاتے تھے. دایدیہالی ماحول میں دیوبندیت کا شدید اثر. یقیناً ہم پر بھی اپنی دادیہال کے بہت سارے اثرات مرتب ہوئے. آپ خانقاہی ماحول کے پروردہ.... لیکن واہ رے آپ کی وسعت قلبی کہ آپ نے ہمیں مولانا مودودی کی تفسیر قرآن اور جماعت اسلامی کے لٹریچر پڑھنے کو راغب کیا. ہم جب کبھی خانقاہوں کے مروجہ نظام پر تنقید کرتے تو آپ ناراض ہونے کی بجائے تسلیم کرتے. نانا جان آپ خانقاہی ہو کر بھی خانقاہوں کے مروجہ نظام سے محفوظ تھے ورنہ آج آپ کی بھی خانقاہ دوسری خانقاہوں کی طرح سرکاری مراعات پر چمکتی رہتی. آپ کے پاس کوئی مرید ہونے آتا تو خوش اسلوبی سے ٹال جاتے تھے. میری خوش نصیبی تھی کہ آپ نے خود سے ہی مجھے اپنے حلقہ ارادت میں شامل کر کے مجھے سلسلہ فردوسیہ کی غلامی عطا کی. آپ کا یہ احسان میرا سرمایہ حیات ہے.
نانا جان آپ میرے مرشد ہیں اور مرشد کا فیض کبھی ختم نہیں ہوتا. ہم جب کبھی پریشان ہوتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ میرے پاس ہیں. آپ میری رہنمائی کے لیے حاضر ہیں.... آپ مجھے دلاسا دے رہے ہیں... دعاؤں سے نواز رہے ہیں.... اللہ کرے آپ کا روحانی فیض تازندگی جاری رہے