Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, September 27, 2020

سیمانچل ‏میں ‏اسدالدین ‏اویسی ‏کا ‏سیاسی ‏وجود ‏کیوں ‏ضروری ‏ہے۔؟



از / عارف حسین طیبی/ صداٸے وقت 
رابطہ۔۔۔۔۔9199998415       
==============================
مجلس اتحاد المسلمین کے قومی صدر بیرسٹر اسدالدین اویسی ہندوستان کے سب سے پاور فل مسلم سیاسی رہنما کے طور پر اپنی ایک منفرد اور امتیازی شناخت رکھتے ہیں  انکا سیاسی قد اتنا بلندوبالا ہے کہ انکے قریب دور دورتک کوئی مسلم سیاسی رہنما خال خال نظر نہیں آتے مسلم سیاسی قیادت کا سب سے پر اعتماد  چہرہ جو صاف ستھری اور بے داغ سیاسی امیج بے باک اور بے خوف قائدانہ صلاحیت کے لئے ہندوستان بھر میں ہر طبقے میں یکساں مقبول و معروف ہیں ہندوستان کے ہر قومی اور ملی مسائل پر مدلل اور مکمل بے باک اور بے لاگ تبصرہ کرنے سے نہیں چونکتے اگر یہ کہا جائے کہ حق گوئی اور صداقت بیانی کرنے والے عظیم کردار کے مالک  اعلی سیاسی بصیرت رکھنے والے نابغہ روزگار شخصیتوں  میں سے ایک  بیرسٹر اسد الدین اویسی ہیں تو غلط نہ ہوگا اسوقت ملک و قوم کے حق میں اسدالدین اویسی کا سیاسی وجود جزء لاینفک کیطرح ہے جس کے بغیر  ملک کی زہریلی ماحول میں فسطائی اور فاشزم طاقتوں سے مقابلہ کرنا ناگریز ہے کیوں کہ یہ ایسے بے باک سیاسی قائد ہیں جو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں اور انکا سیاسی وجود ملک اور قوم کے لئے باعث صد افتخار ہی نہیں بلکہ ملی اقدار کی پاسبانی بھی ہے سیمانچل کو بد عنوانی اور کرپشن سے پاک بنانے اور ترقی کی راہ گامزن کرنے کے لئے اسدالدین اویسی کا سیاسی عزم مصصم بہت ہی واضح ہے 
اویسی صاجب ملک و ملت کے لئے ایک عظیم سرمایہ ہیں
سیاست کے میدان میں ایک ایسا شہسوار اور ایسا چمکتا ہوا ستارہ جس نے حق کا راستہ اختیار کرتے ہوئے دیانت داری کو اپنا سلوگن اور پہچان بنائی ہے  جنکی قدر وقیمت قوم و ملت کی بہتری ، سچی قیادت ، بے باک آواز ، بے لاگ تبصرے ، قومی یکجہتی ، اور آپسی آہم آہنگی کے لئے ناگریز ہے وہ ایک ایسے مستحکم اور منظم کردار ہیں جسکو نظرانداز کرنا قوم و ملت کے لئے سیاسی خودکشی کے مترادف ہوگا انکی سیاسی بقا ملک وملت کے لئے نشان راہ کی حیثیت رکھتی ہے اگر ملک میں قومی اور مذہبی تشخص کی بقا کی لڑائی لڑنی ہے تو انکی سیاسی زمین کو وسیع و عریض کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے انکا بے داغ سیاسی کیرئر ہمیں اس بات کی طرف مدعو کرتا ہے کہ پورے بہار میں مسلمانوں کی اقتصادی اور تعلیمی پسماندگی کو جڑ سے مٹانے کے لئے انکی تائید و حمایت میں بلا تفریق مذاہب و ملل  یکجہتی اور ہم آہنگی کی ثبوت دیتے ہوئے  انکے ہاتھوں کو  مضبوط کریں  
             عارف حسین طیبی۔
 ویسے تو مجلس اتحاد المسلمین کا ہیڈ کواٹر ریاست تلنگانہ کے حیدرآباد  میں واقع ہے جہاں وہ سیاسی طور پر سب زیادہ مضبوط ہیں اور گذشتہ کئی دہائیوں سے بیرسٹر اویسی کی سیادت میں  ترقی کی راہ پر گامزن ہے  موجودہ وقت میں مجلس تلنگانہ سے نکل کر مہاراشٹر ، اترپردیس اور بہار کے سیمانچل میں اپنی سیاسی زمین کو بہت حد تک ہموار کرنے کی کوشش میں لگی ہے اور اس قسمت آزمائی میں انہیں خاطر خواہ کامیابی بھی مل رہی ہے اور عوام میں جوش و خروش کا ماحول دیکھنے مل رہا  ہے مجلس اتحادالمسلمین ایک بہتر اور پر اعتماد سیاسی متبادل کے طور پر لوگوں کی پہلی پسند بنتی جارہی ہے  
اس طرح کی خوش آئند پہلو سے ملکی سطح پر مسلم سیاسی قیادت کے بحران کو ختم کرنے کے لئے  اچھا قدم بھی مانا جاسکتا ہے  
مجلس اتحاد المسلمین تلنگانہ سمیت مہاراشٹر  میں اپنی  سیاسی کامیابی کے پرچم کو لہرا کر  ملک بھر کے سیاسی گلیاروں میں ہلچل مچادی ہے اور ایک صاف پیغام دینے کی کوشش کی ہے  کہ بہت جلد ہی مجلس دیگر جگہوں پر اپنے کامیابی کے جھنڈے لہرانے میں کامیاب ہوجائیں گےآگر ہم بات کریں بہار کے سیمانچل کی تو یہاں انہیں تھوڑی نا امیدی ضرور ہاتھ لگی تھی لیکن ضمنی الیکشن میں ایم آئی ایم کے امیدوار قمرالہدا صاحب کی شاندار جیت ناامیدی میں پیغام مسرت لیکر آئی ہے مجلس سے جڑے افراد جوش وخروش کے ساتھ زمینی سطح پر ہمیشہ عوامی خدمات کرتے نظر آتے ہیں  

 بہار کے بے باک قائد مجلس کے ریاستی صدر اختر الایمان صاحب گرچہ بہت کم فرق سے گذشتہ لوک سبھا انتخاب ہار گئے تھے لیکن لوگوں میں مجلس لئے  پیار و محبت اسدالدین اویسی کے تئیں دیوانگی 
  اس بات کا  غماز ہے  کہ مستقبل قریب میں سیمانچل سمیت پورے بہار میں عوام انہیں مایوس نہیں کرے گی وہ ہر حال میں کامیاب کے پرچم لہرا کے رہیں گے ایک رپورٹ  کے مطابق بیرسٹر اسدالدین کا سیاسی مستقبل  سیمانچل سمیت بہار کے دیگر علاقوں  میں کسی بھی دیگر چھوٹی پارٹیوں کے بہ نسبت سب سے زیادہ تابناک اور روشن ہے
اور وہ اسلئے بھی کہ گذشتہ 72 سالوں سے سیمانچل کے چار اضلاع ( کٹیہار ، پورنیہ ، ارریہ ، کشن گنج  ) کے لوگوں کا جو سیاسی استحصال ہوا ہے اقتصادی پچھڑے پن اور تعلیمی اور سماجی پسماندگی کی قعر عمیق میں جس طرح عوام  کو ڈھکیلا گیا ہے جس بے دردی سے یہاں کی سماجی اور معاشرتی زندگیوں کو کچلا گیا ہے یقینا باعث تشویش ہے سیمانچل میں آج  بھی %95 عوام  مٹی اور پھونس کے بنے گھروں میں نہایت ہی کسمپرسی کے عالم زندگی گزارنے پر مجبور ہیں آج بھی یہاں خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد سب زیادہ ہے    
  ہر سال یہاں بھیانک سیلاب کیوجہ سے کسانوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے اربوں کھربوں کی فصل کھیتوں بر باد ہوجاتی ہے غریب اور لاچار کسان قرض کے بوجھ تلے دب کر خودکشی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور انکے معصوم بچے  پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر روزی روٹی کی تلاش میں دیگر ریاستوں کا رخ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں 
شاید  انہیں مظلوم و مقہور ، بے سہارہ ، و بے بس لوگوں کی ایک مضبوط آواز بنکر بیرسٹر اویسی نے سیمانچل کے دروازے پر دستک دی ہے عزم مصصم کے ساتھ کھلے لفظوں میں اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ اگر سیمانچل کے عوام متحد ہوکر انکا  ساتھ دیں تو آرٹیکل 371 کی نفاذ کرکے سیمانچل کی دھندلی تصویر اور یہاں کی اقتصادی بحران کو بہت کم وقت میں ترقیات اور ڈیولیپمینٹ کی راہ  پر لاکر یہاں کے عوام کو روشن مستقبل کی ضمانت دی جاسکتی ہے مسٹر اویسی جانتے ہیں کہ مرکزی اور ریاستی سرکاروں سے حقوق کیسے حاصل کئے جاتے ہیں  کسطرح سیاسی طور پر انہیں جھکایا جاسکتا ہے ریاستی سرکار کو کس طرح علاقے کی ترقی کے لئے  مجبور کیا جاسکتا ہے بیرسٹر اسدالدین اویسی آنے والے  
2020 کے ودھان سبھا الیکشن میں سیمانچل سمیت پورے بہار میں اپنا امیدوار کھڑے کرنے کی بات کہہ کر بہار کی سیاست میں ہلچل مچادی ہے اب تک پچاس سیٹوں پر اپنی دعویداری کا اعلان کرچکے ہیں مستقبل قریب میں مزید سیٹوں کا اعلان متوقع ہے 
اگر ایسا ہو ا تو سیکولرزم کے ڈھنگیوں کی دکانیں  بند ہوتے دیر نہیں لگے گی کیوں کہ جس طرح اویسی صاحب کے چاہنے والوں کی  تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے ایسا لگتا ہے کہ بہت جلد ہی بہار کی سیاست میں کنگ میکر کی حیثیت سے اپنا ایک سیاسی مقام حاصل کر لیں گے  
اور ہونا بھی چاہئے کیوں کہ یہی پارٹی اسوقت مسلم قوم کی سب بڑی ضرورت ہے اور یہ بات تجرباتی نظریے سے دیکھی جاسکتی ہے موجودہ وقت میں ہندوستان میں  آج جہاں بھی مسلم سیاسی قیادت کام کررہی ہے وہاں مسلمان خوشحال ہیں اسکی مثال کیرلہ ، تلنگانہ ، اور مہاراشٹر کے اورنگ آباد میں صاف نظر آتا ہے لیکن ہماری قوم میں وہ کردار بھی کم نہیں جو اپنی سیاسی مفاد حاصل کرنے کے لئے لوگوں کو آزادی کے بعد سے اب تک مسلسل بہتر سالوں سے گمراہ کرتے آرہے ہیں وہ اور اپنی سیاسی زمین کو بچانے کے لئے ہر بار الگ الگ نعروں کے ساتھ میدان سیاست میں اتر کر عوام کو رجھانے کا کام کرتے ہیں 
 لیکن کانٹھ کی ہانڈی باربار نہیں چڑھتی
لوگ اب جھوٹے وعدوں سے گمراہ نہیں ہوسکتے  مجلس اتحاد المسلمین کی پہچان ہمیشہ ترقیاتی کاموں کی وجہ سے کیجاتی رہی ہے اور ہمیشہ  ان سے جڑے افراد کی یہ کوشش رہتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ زمینی سطح پر عوام کو فائدہ پہونچایا جائے شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اکثر کامیابی سے ہمکنار ہوتے رہے ہیں  
 اور وہ دن دور نہیں جب عوام کو یہ بات سمجھ میں آجائیگی کہ ملک کو آج بے باک اور نڈر قیادت کی کتنی ضرورت ہے 
آج ہر شخص ملک میں مسلم اعلی سیاسی قیادت کی بات کرتا ہے  لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے آج پورے ہندوستان میں اسدالدین اویسی جیسے جمہوری اقدارو افکار کے حامل  عوامی حقوق و مفادات کے لئے بے لوث خدمت خلق کرنے والے بے باک قائد جب پارلمینٹ میں گرجتا ہے تو حزب مخالف بغلیں جھانکنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ہم سب کی بد نصیبی ہے کہ آج بھی ہم مسلمان اپنا سیاسی رہنما ملائم سنگھ ، لالوپرساد ، مایاوتی ، اور راہل گاندھی کو مانتے ہیں
لیکن ہر ظلم و استبداد کے خلاف اسدالدین اویسی ہی ہر محاذ میں نظر آتے ہیں موجودہ وقت ایوان بالا میں کوئی اپوزیشن کا رول ایمانداری سے کرتے نظر نہیں آتے ایسے میں اویسی صاحب کی حیثیت اپوزیشن لیڈر کی ہوگئی ہے جو ہر بحث میں اپنی نمایا کارکردگی سے صاحب اقتدار کو آئینہ دکھاتے رہتے ہیں 
 لیکن افسوس کہ آج بھی یہ مرد مجاہد اپنوں کے درمیان اجنبیت اور بیگانے پن کے شکار ہیں آج پورے بہار بالخصوص سیمانچل میں شہری انفراٹیکچر سمیت دہی علاقوں سے گزرنے وال سڑکوں کی جو حالت ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے سرکاری اسکولوں  کی عمارتیں  انتظامیہ کی بے التفاتی کی وجہ اپنی وجود بچانے کی جنگ لڑرہا ہے ایسے میں بیرسٹر اویسی کا سیمانچل میں انقلابی تبدیلی بات کرنا کسی تمغہ فخر وامتیاز سے کم نہیں ایک عہد قدیم سے نام و نہاد سیکولر سیاسی جماعتوں کی  ذہنی اور شخصی غلامی نے ہمیں اتنا پریشان اور بد حال کردیا ہے کہ اب ہم سب بھولنےلگے ہیں کہ ہم آزاد ملک کے آزاد شہری ہیں شاید اسی کے پیش نظر 2019 کے لوک سبھا الیکشن کے نتائج نے ایک نئی روایت کو جنم دی ہے اور سربراہان سیاست کو پیغام دیا ہے کہ مسلمانوں کا استحصال کرنا  بند کیجئے 
 اب ملک میں ووٹ پولورائزیشن کی روایت ختم ہوگئی ہے اب سیکولرزم کے ڈھونگی بے بقاب ہوچکے ہیں اور ہندو ووٹوں کے متحد ہونے کا ڈر بھی سرے سے ختم ہوگیا ہے اب اگر کوئی اس بات کا الزام لگاتا ہے کہ اویسی جیسے دیگر پارٹیوں کی وجہ ہم ہار  گئے تو ایسے شخص کے احمقانہ بیان پر صرف ماتم کیا جاسکتا ہے 
آج ملک نے بہت صاف شفاف پیغام دیا ہے اور اپنی رائے دہی کا استعمال اس طرح سے کیا ہے کہ اس پر شک کی گنجائش رکھنا بھی ووٹروں کی توہین ہوگی آج ہر ذات اور برداری کے لوگ ہندتوا کے نام پر بی جے پی میں شفٹ ہوگئے ہیں اسکی سب سے بڑی مثال 2019 کے لوک سبھا الیکشن میں بہار کا جو نتائج منظر عام پر آیا تھا یقینا چونکانے والی تھی  پورے بہار سے گھٹبندھن کے کھاتے صرف ایک سیٹ جو اس بات کیجانب اشارہ کر رہا تھا کہ  مسلمانوں کے علاوہ ان سیکولرزم کے ڈھونگیوں کو کسی نے بھی چارہ نہیں ڈالا اور انکے ذات برادری والوں نے ہی انکو ایسا سبق سکھایا کہ وہ 2019  کی اس سیاسی پاری کو کبھی نہیں بھول پائنگے اگر دلت اور یادو کا ووٹ گھٹبندھن کے کھاتے میں جاتی تو نتائج کچھ اور نکل کر سامنے آتے اور  کٹیہار سے طارق انور ارریہ سے سرفراز عالم دربھنگہ سے عبدالباری صدیقی بیگو سائے سے ڈاکٹر تنویر حسن جیسے قداآور سیاسی رہنماؤں کو ہار کا سامنا نہ کرنا پڑتا ایک رپورٹ کے مطابق 2019 کے لوک سبھا الیکشن میں آزادی بعد سے پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ مسلمانوں نے سب زیادہ ساٹھ فیصد ووٹ نام و نہاد سیکولر پارٹیوں کو دیا ہے جو اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے اس کے باوجود بھی درجنوں ریاستوں میں کانگریس جیسی بڑی پارٹیاں اپنا کھاتہ تک نہیں کھو پائی آخر ہم مسلمان کس کی راہ دیکھ رہے ہیں  آخر کب تک مسلمان ہی صرف سیکولرزم کے بوجھ ڈھوتے رہیں گے 
کب تک مسلمان ایک خاص راج نیتی پارٹی کی غلامی کرتے رہیں گے آخر کب تک مسلمان ڈھونگی سیکولر واد کے چکر میں اپنا اقتصادی ، تعلیمی اور سماجی خسارے کا بوجھ اپنے آنی والی نسلوں کے کاندھے پر منتقل کرتے رہیں آخر کیوں نا  مسلمان خود کفیل بنیں کسی سیاسی پارٹی کے دست نگر بننے سے بہتر ہے کہ اپنی سیاسی قیادت کو مضبوط کرنے کی فکر کیجائے  
ساری قومیں اپنی ترقیاتی کاموں کے لئے وقت کے حساب سے اپنی سیاسی قیادت کو بدلنے میں عافیت سمجھی  اسلئے وہ آج ملک میں سب سے زیادہ خوشحال نظر آتے ہیں  اور ہم لوگ بہتر سالوں سے کانگریس کے چوکھٹ پر سر جھکاتے ہوئے غلامی کی زنجیروں سے جکڑ دئیے گئے یہی وجہ رہی کہ ہم لوگ ناکامی اور ذلت و خواری کی دلدل میں دھنستے چلے گئے اور وہ مسلسل مسلمانوں کے جذبات و احساسات سے کھیلتے رہے اسکے نتائج آج ہم سب کے سامنے ہیں  موجودہ وقت میں مسلمان ہندوستان سب بے بس لاچار تعلیمی پسماندگی کا شکار قوم ہے  کانگریس نے ہم سے ووٹ تو لیا لیکن ہماری ترقی کے لئے انکے پاس کوئی پلان ہی نہیں تھا اب تو مسلمانوں کے تئیں کانگریس کی سیاسی شعبدہ بازی کا مطلع بھی بہت صاف ہوچکا ہے نوے دہائی کے کانگریسی وزیر اعظم نرسمہاراؤ کا وہ بیان جس کو اسی کے ایک کابینہ وزیر نے ایک انٹر ویو میں کہا تھا کہ کانگریس مانتی ہے کہ مسلمانوں کے ترقی کی ذمہ داری اسکی نہیں ہے اگر مسلمان گٹر میں پڑے رہنا چاہتے ہیں  تو رہنے دو مسلمانوں کے تئیں اسطرح کے رکیک اور تذلیل و تحقیر سے لبریز یہ بیان اس بات کا غماز ہے کہ یقینا ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مسلمانوں کو  ذلت وخواری کی دلدل میں ڈھکیلا گیا ہے      
لیکن اب وقت آگیا ہے ملک کے مسلمانوں کو اپنا سیاسی مستقبل خود طے ہونا کرنا ہوگا اور زمینی حقائق کی روشنی میں اپنی واضح شناخت وضع کرنی ہو گی اب مسلمانوں کو بھی اپنا تابناک مستقبل کے بارے سوچنا ہوگا اور ملک کے سیاسی رہنماؤں کو پیغام دینا ہوگا کہ ہم مظلوم ضرور ہیں پر مجبور نہیں اور متحد ہوکر  اپنی اقتصادی سماجی تعلیمی ترقی کے لئے بہتر حکمت عملی کو لائحہ عمل میں لانا ہوگا
اسلئے اسوقت مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ یکجہتی اور ہم آہنگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجلس اتحاد المسلمیں کے ہاتھوں کو مضبوط کریں اور پوری شدومد کے ساتھ جمہوریت کے راستے اپنے حقوق طلبی کا راستے کو یقینی بنانے کے جانب قدم بڑھائیں  
کچھ لوگ ہیں جو  لوگوں کو گمراہ کرنے کا ٹھیکا لے رکھے ہیں اپنے سیاسی آقاؤں کے اشاروں پر عوام کو غیر ضروری نعروں میں الجھا کر اصل قیادت سے محروم رکھنا چاہتے ہیں میری گذارش ہے کہ ایسے بیمار ذہن لوگوں سے اپنے آپکو بچائے رکھئے اور ایک اچھی اور سچی قیادت کے سائے تلے آکر ملک کی جمہوریت کو مضبوط کیجئے اور 
ایسے سیاسی رہنماؤں کو موقع فراہم کیجئے  جو عوامی  خدمت و ترقی کے تئیں سنجیدہ ہوں جو بے آوازوں کی آواز بنکر اصحاب اقتدار کو آئینہ دکھانے کی ہمت رکھتا ہو  جب ایسے لوگ ہمارے ملک اور سماج کے لئے اپنی ذمہ داری نبھائنگے تو یقینا ملک کی جمہوری نظام پر ہر ایک کا بلا تفریق مذاہب و ملل اعتماد بحال ہوگا جس سے ملک کی جمہوریت کو تقویت ملے گی
کسی کے بہکاوے میں نہ آئیں  مثبت سوچ کو لائحہ عمل میں لائیے ان شاءاللہ منظر نامہ کو  تبدیل ہونے میں دیر نہیں لگے گی ایک مرتبہ سچی اور اچھی قیادت کو تسلیم کیجئے برسوں سے ہم لوگوں نے بڑے بڑے تیس مار خان کو موقع فراہم کرتے آئے ہیں ایک بار  کچھ نیا کر کے دیکھتے ہیں اگر تبدیلی رونما نہیں ہوئی تو پھر الٹے قدم نشان راہ پر اپنی پرانی قلعہ میں لوٹ آئینگے لیکن قبل ازوقت کچھ لوگ ورغلاہٹ اور گھبراہٹ کا ماحول پیدا کرکے سارے لوگوں کو ایک رسی میں باندھنے کوشش کر رہے  ہیں ایسے سیاسی آقاؤں کے غلاموں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے