Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, September 27, 2020

کسان ‏آندولن۔۔۔۔۔پھر ‏یہ ‏ہنگامہ ‏اےخدا ‏کیا ‏ہے ‏؟

تحریر و تجزیہ / انور اعظم/صداٸے وقت۔
==============================
مودی حکومت کے ذریعہ کاشتکاری سے متعلق لائے گئے تین  آرڈنینس پر زبردست ہنگامہ برپا ہے ۔۔۔۔ خصوصاً پنجاب،  ہریانہ ، مغربی اترپردیش ، مغربی بنگال ، تامل ناڈو ، مہاراشٹر وغیرہ میں بہت سے لوگ سڑکوں پر ہیں .... 
ان آرڈنینس میں کیا ہے ؟ سڑکوں پر اترنے والے لوگ کون ہیں ؟ اور انکا مطالبہ کیا ہے ؟ 
تین آرڈنینس بالترتیب درج ذیل ہیں 
(1) The Farmers Produce Trade and Commerce 2020
(2) The Farmers Agreement on Price Assurence and Farm Services 2020
(3) The Essential Commodities (amendment) 2020
جیسا کہ ہم جانتے ہیں ہمارے ملک میں ایک سرمایہ دارانہ جمہوری نظام ہے اور اس وقت ایک فاشسٹ پارٹی مسندِ اقتدار پر ہے ۔۔۔۔۔ ویسے تو سرمایہ دارانہ نظام میں مسندِ اقتدار پر آنے والی ہر پارٹی سرمایہ داروں کی خدمت گزار ہوتی ہے اور انکے منافع کی محافظ بھی ہوتی ہے ۔۔۔۔۔ لیکن فاشسٹ پارٹی سرمایہ داروں کی خدمت کرنے ،انکے منافع کو یقینی بنانے ، بڑھانے اور محافظت کرنے میں سب سے زیادہ جارح ہوتی ہے ..... جسکا ہم لگاتار مشاہدہ کر رہے ہیں .... 
پبلک سیکٹر کو نجی ہاتھوں میں فروخت کرنے کے بعد فاشسٹ حکومت کاشتکاری سیکٹر میں سیدھے سرمایہ داروں کو زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرنا چاہتی ہے ۔۔۔۔۔ کاشتکاری سے متعلق حالیہ تینوں آرڈنینس اسی کے غماض ہیں ۔۔۔۔ 
انتہائی مختصراً سمجھا جائے تو پہلے آرڈننس کا مطلب ہے کہ اب سرکاری منڈیوں کے علاوہ بھی اناج کی خرید وفروخت ہو سکے گی اور ان پر کوئی ٹیکس نہیں ہوگا ..... 
دوسرے آرڈننس کے مطابق نجی کمپنیاں کسانوں سے فصل کی پیداوار سے پہلے قرار کرسکیں گی کہ مثلاً تین سال کا آلو ان کے ہاتھوں بیچنا ہے اور اسکی قیمت یہ رہے گی ......
تیسرے آرڈننس کے مطابق اناجوں کی ذخیرہ اندوزی پر سوائے جنگ اور قومی آپدہ کے کسی طرح کی کوئی قید نہیں ہوگی ۔۔۔۔۔  
احتجاج کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ کسانوں کو خدشہ ہے کہ ان قوانین کے پاس ہونے کے بعد حکومت کے ذریعہ ہر سال متعین کی جانے والی اناج کی منافع بخش قیمت سے کسان محروم ہوجائیں گے اور نجی کمپنیاں ان سے کم قیمت پر اناج خریدیں گی .... 
اب آتے ہیں احتجاج کون لوگ کر رہے ہیں ؟؟؟؟ 
ویسے تو خبروں کے ذریعہ یہی باور ہوتا ہے کہ "کسان" احتجاج کر رہے ہیں .... ایک معنیٰ میں یہ بات ٹھیک ہونے کے باوجود پورا سچ نہیں ہے .... 
"کسان" لفظ سنتے ہی ہمارے ذہن میں  ہل بیل لئے ہوئے ایک ناتواں کیریکٹر آتا ہے جو اپنے خون پسینے سے زمین کا سینہ چیر کر اناج اگاتا ہے اور ملک کا پیٹ بھرتا ہے جسے "انّ داتا" بھی کہا جاتا ہے ....  لیکن یہ بات عجیب ہے کہ ہریانہ ، پنجاب وغیرہ میں سڑکوں پر اترنے والا کسان وہ کسان نہیں ہے جو ہم سوچتے ہیں ۔۔۔۔۔ یہ امیر کسان ہے ۔۔۔۔ گاؤں کی سطح پر سرمایہ دار ہی ہے ۔۔۔۔۔  ایسا کیوں ہے ؟؟؟
اسکو جاننے کے لئے تھوڑا اسٹیٹسٹکس کو جاننا ہوگا ....  2013 کی نیشنل سروے رپورٹ کے مطابق کسانوں میں 70 فیصد چھوٹے کسان ہیں جنکی زمین کا رقبہ 1 ہیکٹئر سے کم ہے 92 فیصد کسان کی زمین کا رقبہ 2 ہیکٹئر سے کم ہے ۔۔۔۔ یعنی کسانوں کی کل آبادی کا 92 فیصد منجھلے یا غریب کسان ہیں جنکو اناج بیچنے کی نوبت ہی نہیں آتی اور اگر آتی بھی ہے تو بہت معمولی کیونکہ اتنی کم زمیں میں اتنا غلہ نہیں ہوسکتا کہ سال بھر اپنے کھانے کے لئے نکالنے کے بعد کچھ بیچا جاسکے ۔۔۔۔۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو ان 92 فیصد کسانوں کو ان قوانین سے کچھ خاص فرق نہیں پڑتا ۔۔۔۔۔
اصل فرق پڑتا ہے امیر اور سرمایہ دار کسان کو جو کسانوں کی کل آبادی کا محض 4 سے 8 فیصد ہے کہ یہی امیر اور سرمایہ دار کسان اپنا اناج بیچتے اور منافع کماتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ انہیں اناج کی بڑھی ہوئی قیمت ملے ۔۔۔۔۔۔۔
پورا ہنگامہ انہیں امیر اور سرمایہ دار کسانوں کی مانگ کے ارد گرد ہے ...... 
جبکہ ان آرڈننس میں عوام کے لئے سب سے زیادہ نقصان دہ اور خطرناک تیسرا آرڈننس ہے جس کے مطابق سرمایہ داروں کو ذخیرہ اندوزی کی کھلی چھوٹ مل رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ وہ جب چاہیں اپنے پیسے کے بل پر اناج اور بنیادی اشیاء کو ذخیرہ کرکے بازار میں ایک مصنوعی قلت پیدا کرسکتے ہیں اور جب چاہے انہیں تھوڑا تھوڑا مارکیٹ میں لاکر اپنی من مانی قیمت وصول کر سکتے ہیں ۔۔۔۔ جس سے بنیادی ضرورتوں کی اشیاء کی قیمت میں بے تحاشہ اضافہ ہونے کا خطرہ لگاتار بنا رہے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انور اعظم