Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, September 21, 2020

بلی ‏کا ‏بکرا ‏۔۔۔از ‏مفتی ‏ثناءٕ ‏الھدیٰ ‏قاسمی۔


از/مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ،پٹنہ / صداٸے وقت ۔
==============================
 ہندوستان میں غیر منصوبہ بند لاک ڈاؤن شروع ہوتے ہی پورے ملک میں ہاہا کار مچ گیا تھا، لاکھوں کی تعداد میں لوگ دہلی ممبئی، سورت وغیرہ سے اپنے گھر جانے کے لیے پیدل نکل پڑے تھے، مختلف ریلوے اور بس اسٹیشنوں پر جو بھیڑ جمع ہوئی اس نے یہ ثابت کر دیا کہ حکومت کا آمد ورفت کی سہولت ومہلت کے بغیر لاک ڈاؤن کا اعلان انتہائی غیر دانشمندانہ تھا، حکومت کی جب کِرکِری ہونے لگی تو وزارت داخلہ کو اس کی طرف سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کی فکر ہوئی، چنانچہ اس نے انتہائی منصوبہ بند انداز میں دعوت وتبلیغ کے مرکز کی حیثیت سے مشہور تاریخی بنگلہ والی مسجد پر پولیس کے ذریعہ دھاوا بول دیا، یہ عجیب وغریب معاملہ تھا کہ قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال ایک رات قبل ہی مولانا سعد صاحب امیر جماعت سے مل کر گیے تھے، اس کے بعد گودی میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا لیا او رپورے ملک کی فضا کو اس قدر خراب کر دیا کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا جنازہ نکل گیا، تبلیغی جماعت کے لوگوں کو پکڑ پکڑ کر جیلوں میں ڈال دیا گیا، بہار میں سات جماعتیں اس کی زد میں آئیں اور ان کو کئی کئی مہینے جیل میں رہنا پڑا، موجودہ صورت حال یہ ہے کہ چھ جماعتوں کی ضمانت تو ہو گئی ہے، لیکن وہ اپنے ملک واپس نہیں جا سکتے، یعنی مقدمہ جاری ہے، کشن گنج میں ایک جماعت اب بھی قید میں ہے اور اس کی ضمانت نچلی عدالت سے رد ہوگئی ہے اور معاملہ ہائی کورٹ پہونچ گیا ہے، کاروائی کی ہولناکی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کی مختلف ریاستوں میں ۵۳/ ملکوں کے کم سے کم پینتیس سو لوگوں کو کورونا پھیلانے کے الزام کے تحت بلیک لسٹڈ کر دیا گیا، فنڈنگ کے نام پر تبلیغی مراکز پر ای ڈی کے چھاپے آج بھی پڑ رہے ہیں، ان دنوں جن مبلغین کو کورنٹائن کیا گیا ان پر بھی میڈیا نے غلط الزامات کی بوچھار کی اور ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک اسپتال میں روا رکھا گیا، غیر ملکی مبلغین پر ایک بڑا الزام یہ بھی تھا کہ انہوں نے وزٹ ویزا کا غلط استعمال کیا ہے، یہ طوفان اس قدر شدید تھا کہ تبلیغ والوں پر قانون کا شکنجہ کستا چلا گیااور ہرڈاڑھی ٹوپی والا برادران وطن کو جماعتی نظر آنے لگا، حضرت امیر شریعت مفکر اسلام مولانا محمد ولی رحمانی دامت برکاتہم نے انہیں دنوں اس طوفان بد تمیزی کے خلاف سخت بیانات دیے اور واضح کیا کہ حکومت اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے مسلمانوں کے خلاف مہم چلارہی ہے اور یہ کہ سارا کچھ سیاسی ہے، حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم اس سلسلے میں مسلسل متفکر رہے، حضرت صاحب کی ہدایت پر امارت شرعیہ اس پورے معاملہ کو ہر سطح پر حل کرنے کی مخلصانہ جد وجہد میں لگی ہوئی ہے۔
ان حالات میں ممبئی ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بینچ کا تاریخی فیصلہ آیا ہے جس میں جسٹس ٹی وی نلواڈے اور جسٹس ایم جی سیو لیکر پر مشتمل بینچ نے تین الگ الگ عرضیوں پر سماعت کرتے ہوئے آئیری کوسٹ گانا، تنزانیہ، بیٹن اور انڈونیشیا سے متعلق انتیس(29) غیر ملکی اور چھ (6)ہندوستانی مبلغین پر درج ایف آئی آر کو رد کر دیا ہے، اور واضح طور پر یہ بات کہی ہے کہ اس معاملہ میں تبلیغی جماعت کو بَلی کا بکرا بنایا گیا ہے،ان حضرات پر پولیس نے تعزیرات ہند میں وبائی امراض سے متعلق ایکٹ، مہاراشٹر پولیس ایکٹ اور ڈیزاسٹر منیجمینٹ ایکٹ کے تحت ایف آئی آر درج کیا تھا۔
عدالت نے اپنے فیصلہ کے ستائیسویں ریمارکس میں میڈیا کی سخت سر زنش کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ ان غیر ملکی جماعتیوں کو انفیکشن پھیلانے کا ذمہ دار بنانے کے لیے میڈیا نے پروپیگنڈہ چلا یا، جسٹس نلواڈے نے کہا کہ ان غیر ملکی مہمانوں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا وہ ہندوستانی تہذیب کے خلاف ہے، ہمارے یہاں اتیتھی دیو وبھوا“ کی روایت رہی ہے، انہوں نے کہا کہ تبلیغی جماعت مذہبی اصلاحی تحریک ہے اور اس کے ذریعہ تبدیلی مذہب کا کام ہو رہاہے، کہنا بالکل غلط ہے، انٹھاون صفحات پر مشتمل اس فیصلہ میں عدالت نے یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ غیر ملکیوں کے خلاف کی جانے والی کاروائی کی تلافی کے لیے مثبت اقدام کی ضرورت ہے، عدالت کی سوچ یہ تھی کہ ”ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ریاستی حکومت نے سیاسی مجبوری کے تحت یہ کام کیا اور پولیس نے بھی ضابطہ کے مطابق ٹھوس قوانین کی دفعات کے تحت ان کو دیے گیے اختیارات کو استعمال کرنے کی ہمت نہیں کی، فیصلہ میں عدالت نے واضح کیا کہ جب ہم کسی غیر ملکی کو ویزا دیتے ہیں تو اس سے آئین کی دفعہ 21/ کے تحت مذہبی مقامات کے دورہ کا حق نہیں چھین سکتے۔
 اس اہم فیصلہ میں فاضل ججوں نے جو تبصرے اور ریمارکس دیے وہ کافی اہم ہیں، عدالت نے کہا کہ موجودہ دور میں مذہبی مباحث اور مذاکرات پر پابندی ناممکن ہے، کیوں کہ ہندو بیرون ہند میں بہت سارے ایسے چینل ہیں، جن پر مذہبی، سماجی اور معاشرتی اقدار کی ملکی او رغیر ملکی مبلغین کے ذریعہ پر زور تبلیغ کی جاتی ہے، عدالت نے اپنے فیصلے میں ہندو، عیسائی، سکھوں اور مسلمانوں کے ذریعہ چلائے جا رہے بہت سارے چینلوں کا بھی حوالہ دیا، اس کے قبل مدراس ہائی کورٹ نے بھی تبلیغی جماعت کے خلاف جاری مہم کو انتہائی غیر مناسب بتایا تھا، اس فیصلہ سے کورونا کو لے کر تبلیغی جماعت کے خلاف جو مہم چلائی گئی، اس کی قلعی کھل گئی ہے اور عرصہ کے بعد اس فیصلہ سے عدالت کے وقار میں اضافہ ہوا ہے۔لیکن جو لوگ ملک میں فرقہ وارانہ آہنگی کو ختم کرنے کے ذمہ دار ہیں، چاہے وہ ذرائع ابلاغ کے لوگ ہوں یا حکومت اور سیاسی پارٹیوں کے اہل کار، ان کو بھی سزا دلانے کی کوشش کرنی چاہے؛ تاکہ آئندہ اس قسم کے حالات پیدا کرنے کی ہمت کسی میں نہ ہو، خوب اچھی طرح یاد رکھنا چاہیے کہ یہ معاملہ مسلم غیر مسلم کا نہیں، بلکہ سینکڑوں سالہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ملک کے امن وسکون سے جڑا ہوا ہے، اس لیے سد باب کے طور پر ان لوگوں کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنا انتہائی ضروری ہے۔
(بشکریہ نقیب)