Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, September 18, 2020

یادوں ‏کے ‏چراغ۔۔۔۔۔۔۔۔مولانا ‏مفتی ‏عبد ‏اللہ ‏پٹیل ‏مظاہری۔۔۔۔۔تیری ‏یاد ‏بہت ‏ستاٸے ‏گی ‏۔۔۔


از/*مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ*/صداٸے وقت 
==============================
جامعہ مظہر سعادت ہانسوٹ کے بانی ، سابق ناظم و شیخ الحدیث مولاناعبداللہ رویدار نے بھی اس دنیا کو الوداع کہہ دیا، مولانا بالغ نظر عالم دین ،فقہ فتاویٰ اور احادیث پر گہری نظر رکھنے والے  تھے ، اللہ نے ان سے بڑا کام لیا، پھر ابتلائ و آزمائش میں ڈالے گئے ، جامعہ مظہر سعادت ہانسوٹ سے علٰحدگی کے بعدوہ اندر سے ٹوٹ کر رہ گئے تھے ، نامور بھائی مولاناعبد الرحیم فلاحی استاذ جامعہ اشاعت العلوم اکل کنواں کے لاک ڈاؤن کے درمیان انتقال کا اثر بھی ان پر پڑا تھا اور بالآخر 8ستمبر2020 بروز منگل بعد نماز فجر بھروچ کے ایک ہوسپیٹل  میں ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی، جنازہ کی نماز اسی دن 2 بجے بعد نماز ظہر ادا کی گئی ، امامت ان کے بڑے صاحبزادہ مولانا عبید اللہ صاحب (ولادت 16 مارچ1979) نے کی اور علم وفضل کا سورج رویدار کے قبرستان میں تہہ خاک چلا گیا۔
مولانا مفتی عبد اللہ محمد پٹیل بن حاجی محمد ابراہیم پٹیل کی ولادت 28 جمادی الاولیٰ1371مطابق فروری 1952سوموار کی شب ساڑھے نوبجے آبائی گاؤں رویدار ضلع بھروچ گجرات میں ہوئی،والدہ ماجدہ کا نام حجن مریم بی ہے ، جو حاجی یوسف سلیمان سدیوت عرف صوفی صاحب (1990 بروز سنیچر بعد نماز مغرب ) کی دختر نیک اختر تھیں، مفتی صاحب تین بھائی اور آٹھ بہنوں میں تیسرے نمبر پر تھے ، تعلیم کا آغاز1377مطابق 1958 سے ہوا، الف با سے لیکر ناظرہ و حفظ قرآن کی ابتدائ اپنے گائوں رویدرا میں ہی کیا،1382مطابق1962میں مدرسہ تعلیم الدین ڈابھیل آگئے ، جہاں سے حفظ کی تکمیل کے ساتھ درجہ عربی دوم تک کی تعلیم حاصل کی،1390ھ مطابق 1971 میں مظاہر علوم سہارن پور میں عربی سوم(شرح جامی)میں داخلہ لیا اور1395 مطابق 1976میں دورہ حدیث کی تکمیل کے بعد سند فراغت پائی، 1396 مطابق 1977میں یہیں سے تکمیل افتاء کیا۔
تدریسی زندگی کا آغاز جامعہ فلاح دارین ترکیسر گجرات سے کیااور مسلسل آٹھ سال یہاں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے ، آپ کی تبحر علمی، افہام و تفہیم کی اعلیٰ صلاحیت اور تحقیقی ذوق سے طلبہ کو بڑا فائدہ پہونچا، مفتی صاحب کو یہاں آٹھ سالہ قیام میں مختلف علوم و فنون کو پڑھانے کا موقع ملا، جس سے آپ کے اندر بھی گہرائی، گیرائی اور مطالعہ میں وسعت پیدا ہوئی اس دور کے آپ کے تلامذہ ملکی سطح پر اپنی شناخت رکھتے ہیں۔
جامعہ فلاح دارین میں مدرس علیا مقرر ہونے کے بعد آپ کا نکاح5 دسمبر1977 کو پانولی یعقوب جی بھائی کی دختر نیک سے ہوا، یہ نکاح وکالتاَ ہوا تھا ، حضرت مفتی صاحب کے استاذ جناب مولانا محمد بن سلیمان جھانجھیؒ نے مفتی صاحب کی طرف سے ایجاب کیا، قاضی نکاح حضرت جی مولانا انعام الحسن صاحبؒ تھے ، رخصتی26جنوری1978 کو عمل میں آئی، اللہ رب العزت نے اس رشتہ میں بڑی برکت دی؛ چنانچہ آپ کی اولاد ذکور واناث کی تعداد بارہ (آٹھ لڑکے ،چار لڑکیاں) ہے ۔
جامعہ فلاح دارین ترکیسر ممتاز ادارہ تھا؛ لیکن وہ آپ کی منزل نہیں تھی؛ چنانچہ آپ نے ایک بڑے ادارہ کے قیام کا منصوبہ بنایا اور قصبہ ہانسوٹ کے مغرب میں لب سڑک 30 ایکڑ وسیع اراضی پر مظاہر علوم کے بانیان حضرت مولانامظہر صاحب نانوتویؒ اور حضرت مولاناسعادت علی صاحبؒ کے اسم گرامی کو ملاکر ادارہ کا نام جامعہ مظہر سعادت تجویز کیااور اکابر و بزرگان دین کے مشورہ سے 8جمادی الاولیٰ 1405 ھ مطابق 30 جنوری 1985  بروز بدھ اس ادارہ کی بنیاد ڈال دی، اکابر کی توجہ ، اللہ کی نصرت اور مفتی صاحب کی محنت سے ادارہ تیزی سے ترقی کرتا ہوا بام عروج پر پہنچ گیا، اسے مولانا کی کرامت ہی سمجھنی چاہیے ۔ 
حضرت مولانا مفتی عبد اللہ پٹیل صاحب سے میری ملاقات ڈیڑھ دہائی سے زیادہ پرانی تھی، پہلی بار انہیں ان کے مدرسہ میں ہی دیکھنے کی سعادت پائی تھی، گجرات فساد کے بعد امارت شرعیہ نے احمد آباد میں سرخیز روڈ پر کالونی بنائی تھی،  10اگست2003 کواس پر قبضہ دلانے اور چابھی لوگوں کو دینے کی تقریب تھی، امیر شریعت سادس حضرت مولاناسید نظام الدین صاحبؒ کا اس کام کے لیے سفر تھا، حکم ہوا کہ تم کو بھی چلنا ہے ، چنانچہ اسی مناسبت سے یہ سفر ہوا تھا، گجرات کے بڑے مدارس کی خواہش پریہ سفر کوئی ایک ہفتہ کا ہوگیا، اس سفر میں حضرت 11 اگست سے 16 اگست تک احمد آباد، بھروچ، جمبوسر، پالن پور ، ہانسوٹ ، چھاپی ، سورت ، راندیر، سملک کے بڑے مدارس میں تسریف لے گیے تھے ، چنانچہ ایک دن جامعہ مظہر سعادت ہانسوٹ بھی جانا ہوا، رات کا قیام جامعہ میں ہوا، مولاناعبداللہ صاحبؒ  نے اکرام واحترام اور آرام و اسائش میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا، جامعہ مظہر سعاد ت کی مسجد میں امیر شریعت سادسؒ نے خطاب بھی فرمایا، یہ مسجد عالی شان ہے اور دیوار کے بالائی حصہ میں قرآنی آیات رقم کی گئی ہیں، خطاطی مشہور خطاط اور نامور شاعر طارق ابن ثاقب کی ہے ،لگتا ہے کہ طارق نے ان آیات کے مسجد کے منبرومحراب اور دیواروں پر رقم کرنے میں اپنا قلم ہی نہیں، جی، جان بھی لگا دیاہے ، خطاب کے بعد مفتی صاحب نے حضرت امیر شریعت سادس سے تعلیمی جائزہ کی بھی درخواست کی ، اس تعلیمی جائزہ کے لیے انہوں نے پوری جماعت کو پیش کیا، عام طور پر مدارس والے ان طلبہ کو پیش کرتے ہیں جو درجہ میں نمایاں ہوتے ہیں؛ تاکہ مدرسہ کی تعلیم کے بارے میں اچھی رائے قائم ہو، میں نے پہلی بار دیکھاتھا کہ پورا درجہ ہم لوگوں کے سامنے تھا، جس لڑکے سے چاہیے درسی کتابوں سے متعلق سوالات کر لیجئے ،کتاب کا متن سمجھ لیجئے ، اندازہ ہوا کہ یہاں تعلیم انتہائی عمدہ ہے ، صرف و نحو میں یہ بات بھی دیکھنے میں آئی کہ کتابوں کی مثالوں پر اکتفانہیں کیا گیاتھا؛ بلکہ قرآن کریم سے دس دس مثالیں طلبہ کو الگ سے یاد کرائی گئی تھیں، پھر یہ مثالیں طلبہ نے خود ہی قرآن کریم سے نکالی تھیں،اس کا مطلب یہ ہے کہ کتاب نہیں، فن کی تدریس پر اساتذہ نے محنت کی تھی،جائزہ کے بعد ناشتہ ہوا اور پھر مفتی صاحب نے اپنے ساتھ ہی پورے مدرسہ کا گھوم گھوم کر حضرت کو معائنہ کروایا ، میں بھی پیچھے لگا رہا۔
جامعہ کے وسیع و عریض کشادہ اور مختلف بلاک میں تقسیم عمارت نے دیدۂ دل کو کھینچا، لیکن میری توجہ کا مرکز وہاں کی لائبریری رہی، لائبریری کی ترتیب عجیب و غریب تھی، ہر فن کے لیے الگ الگ رنگوں کا انتخاب کیا گیا تھا، ایسے میں ممکن نہیں تھا کہ ایک فن کی کتاب دوسرے فن کے خانے میں ڈال دی جائے ، کیونکہ کتابوں کے جلد پر چڑھے رنگین کاغذ آپ کا مذاق اڑا رہے ہوتے  اور آسانی سے پتہ چل جاتا کہ یہ کتاب بے جگہ رکھ دی گئی ہے ،دوسری چیز جس سے میں متأثر ہوا وہ چھوٹا سا میوزیم تھا، جس میں مفتی صاحب نے زراع، قلہ ، وسق ، قیراط ، مشکیزہ ، ڈول ، عہد نبوی میں پانی نکالنے کے طریقے اور قرآن و احادیث میں مذکور مختلف اشیائ کو جمع کردیا تھا اور اس کے نیچے ان آیات و احادیث کا کٹیلاگ لگایا تھا، جس میں ان چیزوں کا تذکرہ آیا ہے ، یہ انتہائی علمی کام تھا، جس کی طرف سابقین کی نگاہیں نہیں گئی تھیں، اللہ رب العزت نے ان کے ذہن میں ڈالا اور اس قسم کی بہت ساری چیزوں کو انہوں نے جمع کردیا، ظاہر ہے جنت و جہنم کو لاکر کسی میوزیم میں تو نہیں ڈالا جاسکتا؛ جو اشیائ دستیاب ہوئیں اور جہاں سے ہوئیں اور جس طرح ہوئیں حاصل کرکے جمع کردیا، وہاں میں نے ایک قرآن کریم بھی دیکھا تھا جو بغیر روشنائی کے ابھرے ہوئے حروف میں تھااور یہ پورا قرآن ناخن کی مدد سے لکھا گیا تھا۔
ہانسوٹ کا میرا دوسرا سفر اسلامک فقہ اکیڈمی کے سمینار میں شرکت کی غرض سے 2010میں ہوا تھا، اس سمینار میں اسلامک فقہ اکیڈمی کے مدعوئین کے علاوہ گجرات کے علمائ اور مفتیان کرام کی بڑی تعداد نے شرکت کی تھی، انتظام و انصرام لائق تحسین تھا، جامعہ کے ذمہ داران، اساتذہ کرام نے جو خدمت کی جو اکرام و احترام کیاوہ تاریخ کا روشن باب ہے ، ظاہر ہے اس کے پیچھے حضرت مفتی صاحب کے سلیقہ سے کام لینے کی صلاحیت کا بڑا عمل دخل تھا، اس زمانہ میں مفتی اشرف عباس صاحب موجودہ استاذ دارالعلوم دیوبند جامعہ کے مؤقر استاذ تھے اور جامعہ سے ہم لوگوں کی انسیت کی ایک وجہ وہ بھی تھے ۔
مفتی عبد اللہ صاحب امارت شرعیہ کے بڑے قدرداں تھے ، یہاں کے بعض کارکنان کے لڑکے وہاں زیر تعلیم تھے ، ان پر خصوصی توجہ رہتی تھی، داخلہ میں بھی آسانی پیدا کرتے تھے ، شعبہ تعلیم کے مفتش مولانامنت اللہ حیدری اور نائب قاضی شریعت مولانا انظار عالم کے لڑکے بھی وہاں زیر تعلیم تھے، اس وجہ سے مولانامنت اللہ حیدری  اور قاضی انظار عالم کی آمد ورفت اور فون پر رابطہ بنا رہتا تھا، امارت شرعیہ کے مکاتب کے معلمین کے تربیتی پروگرام میں نورانی قاعدہ کی تربیت دینے کے لیے بھی  اساتذہ وہیں سے آیا کرتے تھے اور مفتی عبداللہ صاحب اس میں خاص دلچسپی دکھاتے تھے ، کئی کئی اساتذہ کو ہفتہ دس دن کے لیے بھیج دیا کرتے تھے ، چونکہ امارت شرعیہ میں یہ شعبہ مجھ سے متعلق ہے اس لیے اس حوالہ سے میرے تعلقات میں بھی استحکام پیدا ہو گیا تھا۔
10 تا14مارچ 2005 مدرسہ اسلامیہ بہادر پور چکنوٹہ ویشالی میں مکاتب کے معلمین کا تربیتی کیمپ رکھاگیاتھا، اس میں امیر شریعت سادس حضرت مولاناسید نظام الدین صاحبؒ کے حکم سے ان کو مہمان خصوصی کی حیثیت سے بلایاگیا تھا، وہ کبھی امارت شرعیہ نہیں آئے تھے ، مقصد یہ بھی تھا کہ وہ امارت شرعیہ کو قریب سے دیکھ لیںاور غیبی محبت میں مشاہدہ سے مزید اضافہ ہو؛ چنانچہ مفتی صاحب نے یہ دعوت قبول کرلی، ہم لوگ ان سے پوچھتے رہے کہ کس گاڑی سے آرہے ہیں، انہوں نے نہیں بتایااور فرمایاکہ میں جگہ پر پہنچ جائوں گا،وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے استقبال کے لیے ہم لوگ اسٹیشن پہونچیں،وہ پٹنہ اترے اور گاڑی ویشالی کے لیے کرایہ کرکے چلتے بنے ، ان کے ذہن میں یہ بات محفوظ تھی کہ پروگرام ویشالی میں ہے ، وہ ویشالی گڈھ پہنچ گئے ، مجھے فون کیا کہ پروگرام کہاں پر ہو رہاہے ، میں نے بتایا کہ آپ پچھمی سرے پر پہنچ گئے ہیں، جب کہ پروگرام ویشالی ضلع کے مشرقی سرے پر چکنوٹہ میں ہے ، تھکے ہارے وہاں سے پھر کوچ کیااور مدرسہ اسلامیہ بہادر پور چکنوٹہ پہنچ گئے ، افتتاحی اجلاس میںقرآن کریم کی تعلیم کی اہمیت اور صحت کے ساتھ تعلیم پر زبردست تقریرفرمائی، تقریر کے بعد انہوں نے ایک فہرست نکالی اور فرمایاکہ اس اِس گائوں میں جانا ہے ، میں نے عرض کیا کہ میں ساتھ رہوں گااور جہاں جہاں جانا ہے اس کی ترتیب بنا لیتا ہوں ؛ تاکہ آسانی سے سب جگہ جانا ہو جائے ، چنانچہ دربھنگہ کا رخ ہم نے کیا، کئی گائوں میں تشریف لے گئے ، تھوڑی دیر بیٹھتے، حال احوال دریافت کرتے اور بغیر کھائے پئے اٹھ کھڑے ہوتے ، ظہر بعد سے یہ سفر شروع ہوا تھا، رات کے ڈیڑھ بج گئے ، ہم لوگ ہر جگہ کھانے پینے کے عادی، وہ کہیں نہیں کھا رہے تھے تو ہمیں پریشانی ہو رہی تھی، ڈیڑھ بجے دربھنگہ پہونچے اور قلعہ کے اندر ایک ہوٹل میں قیام پذیر ہوئے ، وہیں کھانا کھایاگیا، میں نے دریافت کیا کہ حضرت اس بھاگ دوڑ کا مطلب نہیں سمجھ میں آیا، فرمایا:آپ نے جتنا سمجھا وہ بتا دیجئے ، میں نے کہا کہ میں اس نتیجہ پر پہونچا کہ آپ ان گائوں میں جارہے ہیں جہاں کے اساتذہ آپ کے یہاں ہیں، آپ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آپ کے اساتذہ گائوں میں مالی اعتبار سے کس پوزیشن میں ہےں اور ان کے اثرات گائوں میں کس قدر ہیں، انہوں نے فرمایاکہ صحیح سمجھا، میں نے یہ اندازہ اس وجہ سے لگایا کہ بعض اساتذہ کے والدین کو انہوں نے اپنی جانب سے حج کرانے کی تجویز بھی رکھی تھی، اس عمل سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کے بارے میں کس قدر فکرمند رہتے تھے ، اساتذہ کی ضرورتوں کا پتہ خفیہ طور پر لگاتے اوران کی ضرورتوں کی تکمیل بھی عزت نفس کاخیال رکھتے ہوئے خفیہ انداز میں کرتے ، یہ تعاون مقررہ ماہانہ تنخواہ سے الگ ہواکرتا تھا، جس قدر وہ اساتذہ کا خیال رکھتے تھے، اسی قدر تعلیم و تدریس کے معاملہ میں سخت تھے ، کام میں کوتاہی وہ برداشت نہیں کر پاتے تھے اور سرزنش بھی اسی انداز میں کرتے تھے ، اس طریقۂ کار سے اساتذہ خوش و خرم رہتے تھے اور تعلیم کا معیار بھی برقرار رہتا تھا، تربیتی کیمپ کے اس سفر میں انہوں نے مختلف مدارس کا دورہ کیا، وہاں بھی کھانے پینے کا یہی حال رہا، اس سفر میں وہ مدرسہ امدادیہ دربھنگہ اور قاضی صاحب کے مزار پر بھی گیے ، مولاناعریف الرحمن مظاہری کے مدرسہ سریارتن پورہ، مولاناعبد الرزاق قاسمی کے مدرسہ بینی آباد، دربھنگہ کے مدرسہ جھگڑوا، اور ویشالی کے معھدالعلوم الاسلامیہ چک چمیلی بھی ان کا جانا ہوا، جہاں کہیں گئے اچھی خاصی رقم وہاں دیا، ایک جگہ ہم لوگوں نے مغرب کی نماز پڑھی، وہ مسجد مدرسہ کی تھی ،نماز کے بعد بہت خفا ہوئے کہ کیسا امام ہے ، قرآن صحیح نہیں پڑھ رہا ہے ، مدرسہ والے نے کہا کہ حضرت یہ مہمان ہیں، اکراماََ بڑھا دیا تھا، فرمایا: کہ یہ کیسا اکرام ہے کہ اپنی نمازیں خراب کرلو،اکرام کرنا ہے تو ہدیہ تحفہ دو ،کھلائو پلائو نہ کہ اپنی نماز خراب کرلوگے ، اس مدرسہ کو بھی اچھی رقم خفگی کے باوجود دی، سب جگہ کے دورے کے بعد امارت شرعیہ تشریف لائے ،دریافت کیا بیوہ کے وظائف پر سالانہ خرچ کتنا ہے ؟ بتایا گیا تو انہوں نے ایک سال کی رقم فراہم کرنے کی بات کہی، جو نقد بچا ہوا تھاوہ دیا اور بقیہ بعد میں بھیجا۔یہ تھے مولانامفتی عبداللہ ہانسوٹ۔ ایسی سخاوت اور مدارس کی مددکا یہ جذبہ میں نے ان کے علاوہ قاری مشتاق احمدؒ  بانی وناظم مدرسہ عالیہ عرفانیہ لکھنئو میں پایا، ان کے ساتھ سفر میں بھی بار بار اس کا مشاہدہ ہوا۔
مفتی صاحبؒ بہار میں نورانی قاعدہ کی تربیت کے لیے مرکزی ادارہ قائم کرنا چاہتے تھے ، لیکن وہ کسی سے متعلق نہیں کرنا چاہتے تھے ، انہوں نے بعض حضرات کو اس کام پر مامور بھی کیا تھا، لیکن اس میں کامیابی نہیں مل سکی۔
مولانا کو2016میں اپنے ہی قائم کردہ مدرسہ سے دست بردار ہونا پڑا، وہ جسمانی طور پر الگ ہوگئے ، لیکن ان کی روح وہیں اٹکی رہی، گھٹ گھٹ کر وہ جیتے رہے ، حاسدین نے ایک اور چال چلی ،قتل کے کیس میں انہیں ماخوذ کروادیا، چنانچہ مفتی صاحب کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا، اس موقع کو بھی انہوں نے قیدیوں کے درمیان تعلیم اور ان کی اصلاح کے لیے استعمال کیا، جب وہ علاج کے لیے باہر آتے تو ان کی جیب قیدیوں کی جانب سے دیے گیے پرچوں سے بھری ہوتی ، جس میں ان کی ضرورتوں کا ذکر ہوتا، مفتی صاحب ہر ایک کی ضرورت کی چیز خرید کر لے جاتے، بعض قیدیوں کے اہل خاندان کی مدد بھی کرتے، شوگر اور دوسرے امراض کا شکار پہلے سے تھے ، اس حادثہ کی وجہ سے گردے نے بھی کام کرنابند کردیا، صحت گری اور گرتی چلی گئی، علاج کے لیے پہلے پیرول پر سورت ہوسپیٹل میں بھرتی ہوئے ، وہاں سے افاقہ نہیں ہوا تو بھروچ اسپتال لائے گئے اور یہیں روح نے قفس عنصری کا ساتھ چھوڑ دیا ۔
مفتی صاحب کی زندگی کے آخری ایام بڑی ہی ابتلائ و آزمائش کے تھے ، وہ گُھٹ گُھٹ کر مرنے پر مجبور کردئیے گئے ، حضرت مولاناقاری محمد طیب صاحبؒ کے انتقال پر اخبار مشرق نے تعزیتی مضمون پر مشتمل اداریہ کا عنوان’’ قتل عمد‘‘ لگایاتھا، حضرت مفتی عبد اللہ صاحبؒ کا انتقال جن حالات میں ہوااور جن احوال سے گذرکر ہوا،اس میں یہی سرخی ان کی موت پر بھی لگائی جاسکتی ہے ۔
اب مفتی صاحب وہاں ہیں، جہاں انہیں ستائے جانے کے بقدر اجر مل رہا ہوگا، اللہ سے اچھی امید رکھنی چاہیے ؛ کیونکہ اللہ اپنے بندوں کے ساتھ اس کے گمان کے مطابق ہوتا ہے ۔