Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, September 18, 2020

والد ‏صاحب ‏کا ‏علمی ‏سفر ‏اور ‏ان ‏کی ‏قربانیاں۔

از/ محمد امین الرشید سیتامڑھی بہار/صداٸے وقت۔
==============================
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
باپ دنیا کی وہ عظیم ہستی ہے؛ جو اپنے بچوں کی پرورش و پرداخت اور اس کی ترقی  کے لئے اپنی جان تک کی بازی لگا دیتا ہے۔ ہر باپ کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ معیاری زندگی فراہم کرے ؛ تاکہ وہ معاشرے میں باعزت زندگی بسر کرسکے اور معاشرتی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکے۔والدین دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہیں،اللہ تعالیٰ نے اپنے حقوق کے بعد سب سے زیادہ والدین کے حقوق کی پاسداری کی طرف متنبہ کیا۔
میرے والد حضرت مولانا حافظ محمد ہارون رشید  مظاہری ؒ بن غلام رسول بن سودھن بن محمد منیرؒ مدھوراپوری باجپٹی سیتامڑھی تھے۔
والد صاحبؒ کے تعلق سے حضرت مولانا بخشش صاحب سابق استاد حدیث مدرسہ بیت العلوم سراۓ میر رقم طراز ہیں کہ حضرت مولانا حافظ محمد ہارون رشید صاحب کی زمانہ ٕ طالبعلمی پر نظر ڈالتاہوں تو وہ ان باقسمت لوگوں میں نظر آتے ہیں جنہوں نےتنگدستی اور غربت کے باوجود تعلیمی سلسلہ جاری رکھا ,اللہ تعالی ان کی کوششوں کو قبول فرماۓ اور جنت نصیب فرماۓ مرحوم نے حفظ مکمل کرکے گھریلو مجبوریوں کی وجہ سے تدریسی زندگی کا آغاز کیا؛ مگر تحصیل علم کا شوق ان کے رگ و ریشہ میں رچا بسا تھا؛ چنانچہ چند سال تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد انہوں نے معاشی تنگی کے باوجود مزید علم حاصل کرنے کا فیصلہ لیا اور مدرسہ بیت العلوم سراۓ میر اعظم گڑھ یوپی تعلیم کی غرض سے پہونچ گٸے اور باضابطہ تعلیم کا سلسلہ شروع کیا تنگدستی اور غربت ایسی کہ گھر والے ان کے جیب کے خرچ کو کیا برداشت کرتے خود حافظ صاحب کو کسی شکل سے انتظام کرکے گھر بھی کچھ رقم بھیجنی پڑتی تھی؛ پھر بھی گھر والوں کا تقاضاتھاکہ  تعلیم کو چھوڑ کر کماٸی کا کوٸی ذریعہ اختیار کیاجاٸے ؛مگر اللہ کے اس  بندہ نے ہمت نہیں ہارا اور اسی حالت میں اپنے خرچ  کابھی انتظام کرتا اور گھر بھی کچھ نہ کچھ رقم بھیج دیا کرتا تھا اور اسی شش و پنچ کے ساتھ حافظ صاحب نے اپنی تعلیم کو مکمل کرلیا اور پھر سہارن پور سے فارغ ہونے کےبعد مدرسہ بیت العلوم سراۓ میر  میں منصب تدریس پر فائز ہوکر بڑے انہماک کے ساتھ درس وتدریس میں لگ گٸے, معاشی اعتبار سے تھوڑی سی راحت ملی ؛مگر پھر بھی گھر والے خوش نہیں تھے ادھر بال بچوں کا خرچ بڑھ گیا حتی کہ گھر والوں سے پریشانی کی وجہ سے آباٸی وطن چھوڑ کر مکان بنانے کی فکر ہوٸی اللہ کے کرم سے زمین تومل گٸی مگر روپیہ کی فراوانی نہ ہونے کی وجہ سے وقتی طور پر ذہنی تناؤ ہوگیا،کوشش بسیار کے بعد اللہ تعالی کے فضل وکرم سے بطور قرض کچھ رقم مل گئی تو زمین خرید لی گٸی اللہ تعالی نے مکان بھی بنوایا اور قرضہ بھی ادا کروادیا ،اسی تنگدستی میں سخاوت کایہ عالم تھاکہ کھانے وغیرہ میں ضرور ایک دو آدمیوں کو شریک کرتے تھے بغیر کسی کو ساتھ لٸے کبھی کھانا نہیں کھایا اور وقتاً فوقتاً اور لوگوں بھی کچھ نہ کچھ کھلاتےہی رہتے تھے،ان کے پاس تھا ہی کیامگر لوگ ان کے خلوص سے متأثر ہوکر ان کے دستر خوان کی زینت بن جایا کرتے تھے،راقم الحروف بھی ان کے دسترخوان کا ایک حصہ تھا کسی چیز کے کھانے کی خواہش ہوتی اس کا انتظام کیا تذکرہ کیا اللہ کے بندے کو کبھی تردد نہیں ہوتاتھا وہ چیز تیار ہوجاتی تھی اوربہت قلیل مدت میں تیار کرلیتے تھے اللہ تعالی اپنی شایان شان اجر عظیم عطا فرماۓ  ایک مرتبہ تدریس  ہی کے زمانہ میں گھر آۓ ہوۓ تھے وہیں بیمار ہوۓ علاج ومعالجہ ہوا؛ مگر طبیعت ٹھیک نہیں ہوٸی  افاقہ توہوا تین سال بیمار رہ کر اسی بیماری میں کلمہ پڑھتے ہوۓ اللہ تعالی کو پیارے ہوگٸے اللہ تعالی ان کو جنت الفردوس عطإ فرماۓ 

 والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیم 

آپ کی پیدائش 1374ھ مطابق 1953ء میں ہوئی تکمیل حفظ کے بعد مدرسہ بیت العلوم سرائے میر میں داخلہ لیکر ابتدائی فارسی و عربی سے مشکوٰۃ اور جلالین شریف تک یہاں تعلیم حاصل کی، شعبان 1399ھ میں جامعہ مظاہر العلوم سہارنپور میں دورہ حدیث شریف کی تکمیل کی -
والد صاحب ؒ نے بخاری شریف مسلم شریف مؤطا امام محمد حضرت مولانا شیخ محمد یونس  صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے ابو داؤد شریف حضرت مولانا سید محمد عاقل صاحب سے ترمذی و شمائل ترمذی حضرت مولانا مفتی مظفر حسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے طحاوی شریف حضرت مولانا مفتی محمد یحییٰ صاحب سے نسائی اور ابن ماجہ حضرت مولانا مفتی عبد العزیز صاحب سے پڑھی -
فراغت کے بعد والد صاحب علیہ الرحمہ شوال 1399 ھ مطابق 1978ء مدرسہ بیت العلوم سرائمیر اعظم گڑھ یوپی بلا لئے گئے اور شعبہ حفظ قرآن کریم کی مبارک اور اہم خدمت آپکے سپرد ہوئی
اس 26 سالہ عرصے میں کثیر تعداد میں آپ کے ذریعے حفاظ کلام پاک تیار ہوئے
بیعت و ارشاد کا تعلق اولاً حضرت مولانا مفتی محمد سجاد صاحب رحمۃ اللہ سے قائم کیا انکی وفات کے بعد حضرت مولانا سید محمد عاقل صاحب کارگذار ناظم جامعہ مظاہر العلوم سے آخری وقت تک روحانی رابطہ رہا 
والد صاحب آخر وقت تک ذکر جہری اور تہجد کے پابند تھے
والد صاحب مستجاب الدعوات بھی تھے 
اس سلسلے میں شیخ المشاٸخ حضرت مولانا عبد الرشید صاحب شیخ الحدیث مدرسہ بیت العلوم نے فرماکہ اگر بارش نہیں ہوتی تو والدصاحب رحمة اللہ علیہ سے دعإ کراٸی جاتی  تو فوراً بارش ہوجاتی اسی طرح سے یونس چچا مدھوراپور بھی نقل فرماتے ہیں اور ہم نے تو کٸی کشف وکرامات دیکھے ہیں

اولادکی تعلیم وتربیت میں والد کا کردار ضروری ہوتا ہے،جب کہ اس کے برعکس ماں کی حد سے زیادہ نرمی اور لاڈ پیارسے اولاد نڈراور بے باک ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کی تعلیم وتربیت اورکردار پر بُرا اثر پڑتا ہے،جب کہ والد کی سختی،نگہداشت اورآنکھوں کی تیزی سے اولاد کو من مانیاں کرنے کا موقع نہیں ملتا۔شاید یہی وجہ ہے کہ اولاد باپ سے زیادہ ماں سے قریب ہوتی ہے، لیکن اولادیہ نہیں جانتی کہ اس کے والد کو گھر چلانے اور تعلیم وتربیت کا مناسب اہتمام کرنے کی لیے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔باپ ہی ہوتا ہے جو اپنے اہل وعیال اور اولادکو پالنے کے لیے خود بھوکا رہ کریا روکھی سوکھی کھاکرگزارہ کرتا ہے، لیکن پوری کوشش کرتا ہے کہ اس کے بچوں کو اچھاکھانا، پینا،تعلیم اور تربیت میسرہو ۔ اسلام میں والدین کابہت بڑا مقام اور مرتبہ ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے،’’اورجب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیاکہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو ۔رشتہ داروں ، یتیموں،مسکینوں اورلوگوں سے (ہمیشہ)اچھی بات کہو۔ ‘‘ (سورۃ البقرہ)اسی طرح سورہ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔’’اورپروردگارکافرمان ہے کہ اللہ کے سواکسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کیاکرو،اگر تمہارے سامنے اِن میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ’’اُف‘‘تک نہ کہواور نہ انہیں جھڑکو؛ بلکہ ان سے نرمی کے ساتھ بات کرو اور اپنے بازو نہایت عاجزی اورنیازمندی سے ان کے سامنے جھکادو اور( ان کے لئے یوں دعائے رحمت کرو) اے میرے پروردگار! تواِن پر(اس طرح) رحم فرما، جس طرح انہوں نے مجھے بچپن میں(رحمت وشفقت سے) پالا تھا‘‘۔(سورہ بنی اسرائیل) اللہ تعالیٰ نے ان آیات مبارکہ میں اپنی عبادت کے ساتھ ہی والدین کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کا حکم فرمایا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ والدین کی خدمت واطاعت انتہائی ضروری ہے؛ حتیٰ کہ والدین اولاد پر ظلم وزیادتی بھی کریں تب بھی اولاد کو انہیں جواب دینے کی اجازت نہیں،جھڑکناتو درکنار ،اُن کے سامنے ’اُف‘ تک کہنے کی بھی اجازت نہیں۔سورہ لقمان میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ’’ میرا اور اپنے والدین کا شکر ادا کرو،(تم سب کو )میری ہی طرف لوٹنا ہے اور اگر وہ تُجھ پر دبائو ڈالیں کہ تو میرے ساتھ اس کو شریک ٹھہرا جس کا تُجھے کچھ علم نہیں تو(اس مطالبۂ معصیت میں )ان کی اطاعت ہر گز نہ کرو، (لیکن اس کے باوجود ) دُنیا میں ان سے حسن سلوک کرتے رہو۔ ‘‘(سورہ لقمان) اولاد کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے پیارے رسولﷺ کی نافرمانی کے سوا والدین کے ہر حکم کی تعمیل کریں ۔ اُن کی رائے کو ترجیح دیں ۔ خاص طور پر جب والدین بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو پھر ان کے احساسات کا خیال رکھتے ہوئے ان سے محبت و احترام سے پیش آئیں ، اپنی مصروفیات میں سے مناسب و قت اُن کے لیے خاص کردیں۔اُن کی بھر پور خدمت کریں اور ان کی وفات کے بعدان کے لیے ایصالِ ثواب اور دعائے مغفرت ورحمت کرتے رہیں ، جیسا کہ قرآنِ پاک میں ارشادِباری تعالیٰ ہے،’’اور(ان کے حق میں یوں دعائے رحمت کرو ) اے ہمارے رب!ان دونوں پر رحم فرما، جیسا کہ انہوں نے مجھے بچپن میں(رحمت وشفقت سے) پالا‘‘۔(سورہ بنی اسرائیل) حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے لیے ، اپنے والدین اور تمام مسلمانوں کے لیے مغفرت وبخشش کی دعامانگتے ہیں۔جس کاقرآن پاک نے اس طرح ذکرکیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’اے ہمارے رب! مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو (بخش دے)اور سب مسلمانوں کو(بخش دے)، جس دن حساب قائم ہوگا‘‘۔(سورہ ابراہیم) ماں باپ کے انتقال کے بعدبھی ان کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوق کی ادائیگی کا اہتمام کرنا چاہیے۔ جس کی کئی صورتوں میں سے ایک دعائے مغفرت کرنابھی شامل ہے۔ جس سے ان کے درجات بلند ہوتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ بے شک اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندے کا درجہ جنت میں بلند فرما دیتا ہے تو وہ بندہ عرض کرتا ہے کہ’’ اے میرے رب! یہ درجہ مجھے کہاں سے ملا ہے ؟ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوتا ہے کہ ،’’تیری اولاد کی دعائے مغفرت کی بدولت (تُجھے یہ بلند درجہ دیا گیا ہے)۔‘‘(مسائل اربعین) ایک اورحدیث شریف میں ہے کہ ماں باپ کے لیے دعائے مغفرت کرناان کے لیے صدقہ جاریہ ہے ۔حضرت ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہیں ’’رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب انسان مرجاتا ہے تو اس کے تمام اعمال کاسلسلہ ختم ہو جاتا ہے،لیکن تین چیزوں کا نفع اس کو(مرنے کے بعدبھی) پہنچتا رہتا ہے۔۱۔ صدقہ جاریہ۲۔ایسا علم جس سے لوگ نفع حاصل کرتے ہوں۳۔نیک اولاد جو اس کے لیے دعائے مغفرت ورحمت کرتی ہو۔حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ’’جو نیک اولاد اپنے ماں باپ کے چہرے کی طرف رحمت (اورمحبت) سے ایک نظر دیکھ لے تو اللہ تعالیٰ (اس کے نامہ اعمال میں ) ایک حج مقبول کا ثواب لکھ دیتا ہے ۔صحابہ کرام نے عرض کیا ،اگر وہ ہر روز سو بار دیکھے تو؟ آپ ﷺ نے فرمایا ، اللہ سب سے بڑا ہے اور(اس کی ذات ) بہت پاک ہے ،(یعنی اس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں،وہ سوحج کاثواب بھی عطافرمائے گا......
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ،’’ جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کی عمر دراز کرے اور اس کے رزق میں اضافہ فرمائے تو اسے چاہیے کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرے اور (اپنے رشتہ داروں کے ساتھ) صلہ رحمی کرے۔ ‘‘(الحدیث) ایک اور اہم بات یہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اولاد پر اپنے بیوی بچوں کی طرح اپنے بوڑھے ماں باپ کی خدمت اور کفالت اور ان کی ضروریاتِ زندگی (کھاناپینا،لباس، علاج )کو پورا کرنا بھی اولادپر فرض ہے ،اس کے ساتھ اُن کی ضروریات کے مطابق مخصوص رقم ہرمہینے اُن کوپیش کی جائے تا کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق خرچ کر سکیں۔.
غورطلب بات یہ ہے کہ والد ایک ذمہ دار انسان ہے جو اپنی خون پسینے کی محنت سے گھر چلاتا ہے و الد ایک مقدس محافظ ہے جو ساری زندگی خاندان کی نگرانی کرتا ہے۔والد کے آنسو تمہارے دکھ سے نہ گریں ورنہ اللہ تم کو جنت سے گرادے گا۔اوردوران حیات باپ کا ادب واحترام کرنا ان سے محبت کرنا اولاد پر لازم ہے ا سی طرح جب والدین دنیا سے رخصت ہوجائیں تو ان کے لیے سرمایہ آخرت نیک اولاد ہی ہوتی ہے جو ان کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا کرتی ہے..
یہی وجہ ہے کہ ربّْ العالمین نے والدین کے حقوق کو اپنے حقوق کے ساتھ بیان فرمایا ہے اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں صحیح معنوں میں والدین کی خدمت کی توفیق نصیب فرمائے اور ان کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر قائم و دائم رکھے اور جن کے والدین اس دنیا سے چلے گئے ان کی اولاد کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے پس ماندگان میں تین لڑکے اور چار لڑکیاں ہیں آخرمیں راقم الحروف کی گزارش ہیکہ جن لوگوں تک یہ تحریر پہونچے ہمارے والدین کیلٸے تین مرتبہ قل ہواللہ احد الخ پڑھ کر دونوں کو ایصال ثواب فرماٸیں اور مغفرت کی دعإ فرماٸیں   اللہ تعالیٰ ہم سب کو والدین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین