Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, September 3, 2020

خاموش پکار ’’بِأیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ‘‘* ‏

  از/  *مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی، نائب ناظم امارت شرعیہ*/صداٸے وقت۔
==============================
پوری دنیا میں قتل وغار ت گری کا بازار گرم ہے ، مختلف تنظیمیں ، ادارے اور حکومتیں مختلف عنوانات سے قتل کی اس مہم کو جاری رکھے ہوئی ہیں، عنوان کوئی لگا ئیے ، سرنامہ کوئی بھی ہو، لیکن خون انسانوں کا بہتا ہے ، نسل آدم کا بہتا ہے، جانیں انسانوںکی ضائع ہوتی ہیں اور ان جانوں کے ضیاع کی وجہ سے کچھ دوسرے لوگ اس کام پر لگ جاتے ہیں اور یہ سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا جا رہا ہے، اخبارات ورسائل کے صفحات ان واقعات سے بھرے پڑے ہیں، صبح اخبار کھولتے ہوئے ڈرلگتا ہے کہ پتہ نہیں آج کون دل دہلانے والی خبر سے سابقہ پڑ جائے ۔ قتل وغارت گری کے یہ واقعات لوگوں کی نظروں کے سامنے ہیں، اور ان پر حسب توفیق واویلا بھی مچتا رہتا ہے۔
 لیکن اس دنیا میں قتل کی ایک دوسری قسم بھی پائی جاتی ہے ، اس دوسری قسم کی خبریں اخبارات ورسائل کی زینت نہیں بنتیں، بلکہ بعض حالات میں اس قسم کی خبریں گھر کی چہار دیواری سے باہر بھی نہیں نکلتیں اور کبھی کبھی تو گھر کے دوسرے افراد کو بھی اس کی خبر نہیں ہوتی کہ میرے گھر میں آج ایک قتل ہو گیا ہے، یہ ہے اسقاط حمل کے نام پر ماں کے رحم میں پرورش پارہے بچے کا قتل ، یہ قتل صرف لڑکیوں کا ہی نہیں ہوتا بلکہ جنسی بے راہ روی کے نتیجے میں جو بچے رحم میں قرار پاتے ہیں، سماجی طور پر بے عزتی سے بچنے کے لیے انہیں ساقط کر ادیا جا تا ہے اور آج کے دور میں جب اختلاط مرد وزن پر کوئی رکاوٹ نہیں اور مرضی سے جنسی تعلقات کا قیام جرم کے دائرے میں نہیں آتا ، اس قسم کے واقعات عام ہیں اور ڈاکٹروں کے وارے نیارے ہو رہے ہیں، وہ من چاہی رقم لے کر اس قتل میں معاون بن رہے ہیں، حد تو یہ ہے کہ بچے میں جان پڑنے کے با وجود اس قتل کا ارتکاب کیا جارہا ہے ، دو بچوں کے درمیان فاصلہ رکھنے اور ان چاہے حمل سے بچنے کے لیے بھی اس قسم کا اسقاط کرایا جاتا ہے، مانع حمل گولیوں کی زد سے بچ کر جو بچے قرار پاجاتے ہیں، انہیں بھی رحم مادر میں ضائع کر دیا جاتا ہے ، یہ بھی قتل ہے اور اس قتل کی اطلاع گھر کے لوگوں تک کو نہیں ہو پاتی ۔
 تیسرا اور سب سے بڑا سبب لڑکیوں کی شادی کے بڑھتے اخراجات کے ڈر سے رحم مادر میں بچیوں کا قتل ہے ،جس کے نتیجے میں صنفی توازن بگڑتاجا رہا ہے ، لڑکوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور لڑکیاں گھٹتی جا رہی ہیں، عدم توازن کا یہی حال رہا تو زمانہ قدیم کی طرح لڑکیوں کے حصول کے لیے لڑکوں کو سلامی دینی پڑےگی، اس قسم کے قتل کے نقصانات اور بھی ہیں، سماج کی بد قسمتی یہ ہے کہ وہ اس کو گناہ نہیں سمجھ رہا ہے اور بے فکر ہو کر اسقاط حمل کراتا رہتا ہے، جو ڈاکٹر اس کام میں معاون بنتے ہیں، ان کی حالت بھی آخر عمر میں عجیب ہوجاتی ہے، بظاہر دولت کی ریل پیل ہوتی ہے،آرام وآسائش کے سارے سامان ہو تے ہیں، لیکن ذہنی سکون چھن جاتا ہے، میرے ایک ملنے والے ڈاکٹر کو لکاتہ میں رہتے تھے، کئی کئی بلڈنگیں ان کے پاس تھیں، گاڑی سواری کی کمی نہیں تھی،کئی کئی کیلنک چلایا کرتے تھے، جوانی میں ہی کینسر نے آ ٓلیا ، کینسر کسی کو بھی ہو سکتا ہے اور اس بیماری میں جو تکلیف ہوتی ہے اس کا سامنا مریض کو کرنا ہی پڑتا ہے ، لیکن جب میں ان کی عیادت کے لیے گیا تو کینسر کی تکلیف کے علاوہ ایک اور تکلیف کا انہوں نے اظہار کیا ، کہنے لگے کہ مفتی صاحب! بیماری جو ہے اور اس کی جو تکلیف ہے وہ اپنی جگہ،لیکن میں ایک اور تکلیف میں مبتلا ہوں، میری جب بھی ا ٓنکھ لگتی ہے تو چھوٹے چھوٹے بچوں کے چلانے کی آوازیں آنے لگتی ہیں، یہ آواز یں اتنی تیز ہوتی ہیں کہ خواب آور گولیاں لینے کے باوجود میں سو نہیں پاتا ہوں، مجھے اس عذاب سے نجات کی دعا کر دیجئے،میں حیران وپریشان سوچتا رہا کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ ڈاکٹری اور سائنسی توجیہہ تو کوئی تھی نہیں ، تحقیق کیا تو معلوم ہوا کہ یہ صاحب ان چاہے حمل کو ساقط کرانے کا کام کرتے تھے اب جو اعضا کمزور ہوئے تو تحت الشعور میں دبی ان بچے بچیوں کی ساری چیخیں انہیںپریشان کر رہی ہیں،بالآخر کئی مہینے اس کرب میں گذارنے کے بعد اللہ نے ان پر ظاہری رحم فرمایا اورموت نے انہیں اس عذاب سے نجات دیدی۔
 ان سطور کو لکھتے وقت مجھے وہ انگریز ڈاکٹر بھی یاد آ رہا ہے،جس نے ایک بچے کو ضائع کرتے وقت اسکی ویڈیوگرافی کی تھی اور آلہ قتل کے لگنے سے بچہ کس طرح پریشان ہو رہا تھا اورجب آلہ اس کے سر تک پہونچا تو وہ کس طرح بے چین ہوا تھا اس عکس بندی کو دیکھکر اس کی انکھوں کی نیند بھی حرام ہو گئی تھی؛ بلکہ وہ اپنا کلینک چھوڑ کر وحشت میں بھاگ کھڑا ہوا تھا ؛اس لیے سماج کو اس قسم کے گھنونے کام کے کرنے سے بازآنا چاہیے اور حمل کی اس گونگی چیخ اور خاموش پکار کومحسوس کرنا چاہیے اور جان لینا چاہیے کہ روز محشران مقتولوں کا خون نہیں چھپے گا اور جب اللہ سوال کریں گے کہ بِاَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ کس گناہ کی پاداش میںیہ قتل کی گئیں تو کوئی جواب نہیں بن پڑے گا اور ان بے گناہ بچے بچیوں نے ہمیں مجرم قرار دےکر اللہ سے انصاف طلب کرلیا تو جہنم کے نچلے درجے میں ہی جگہ مل سکے گی ، فَاعْتَبِرُوْا یَا اُوْلِی الْاَبْصَار۔