Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, October 26, 2020

بہار ‏الیکشن۔۔۔۔گورام ‏بورام ‏سیٹ ‏، ‏انتخابی ‏سیاست ‏کے ‏آٸینے ‏میں۔۔۔


از / محمد سرفراز عالم قاسمی /صداٸے وقت 
==============================
ضلع دربھنگہ کا گورا بورام حلقہ اسمبلی 2008 میں وجود میں آیا اور پہلی بار 2010 میں یہاں الیکشن ہوا، اس سیٹ میں گورابورام، کرت پور، اور بیرول بلاک کے کل 47 گرام پنچایت کے ایک لاکھ 42 ہزار سے زیادہ ووٹر ہیں۔ یہ پورا رولر ایریا ہے، یہاں 26 فیصد مسلم، جب کہ 17.41 فیصد پسماندہ ذات والے ہیں۔ یہاں دوسرےمرحلے میں 3 نومبر کو ووٹنگ ہوگی اور 10 نومبر کو ریزلٹ جاری کیاجاۓ گا۔
2010 کے اسمبلی الیکشن میں جنتا دل یونائیٹڈ (JDU) کے ڈاکٹر اظہار احمد نے راشٹریہ جنتا دل (RJD) کے ڈاکٹر مہاویر پرساد کو 10 ہزار 602 ووٹوں سے شکست دی تھی، جبکہ کانگریس کے ڈاکٹر ناگیشور پجیار 14 ہزار 396 کل (15.91) فیصد ووٹ حاصل کر کے تیسرے نمبر پر رہے تھے۔

 2015 کے صوبائی انتخاب میں کانگریس، راجد اور جدیو کے مہاگٹھ بندھن کی طرف سے  ڈاکٹر اظہار احمد کے بجائے مدن سہنی کو جدیو سے ٹکٹ ملا اور مدن سہنی نے لوک جن شکتی پارٹی (LJP) کے ونود سہنی پر 14 ہزار 56 ووٹوں سے جیت درج کی۔

اس بار 2020 کے اسمبلی الیکشن میں مہاگٹھ بندھن کی طرف سے راشٹریہ جنتا دل (RJD) کے ٹکٹ پر افضل علی خان میدان میں ہیں، جب کہ دوسری طرف این ڈی اے کی طرف سے مکیش سہنی کی وکاس شیل انسان پارٹی (VIP) کے ٹکٹ پر سورنا سنگھ  ہیں، اور تیسرے امیدوار، لوک جن شکتی پارٹی (LJP) کے ٹکٹ پر راجیو کمارٹھاکر ہیں اور چوتھے امیدوار کے طورپر، پروگریسیو ڈیموکریٹک الائنس (PDA) کی طرف سے پپو یادو کی جن ادھیکار پارٹی (JAP) کے ٹکٹ پر سابق ایم ایل اے،  ڈاکٹر اظہار احمد بھی اپنی قسمت آزما رہے ہیں۔

ڈاکٹر مہاویر پرساد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1977 سے 2008 تک گھنشیام پور حلقہ اسمبلی رہا، 2008 میں یہ سیٹ ختم کر دی گٸ اور اس کے کچھ علاقے علی نگر جب کہ کچھ گورا بورام میں شفٹ کر دۓ گۓ، ڈاکٹر مہاویر پرساد یادو کا تعلق ان دونوں حلقہ اسمبلی تھا اور وہ اسی سیٹ کے کرت پور گاؤں کے رہنے والے تھے، اعلی تعلیم یافتہ تھے، انہوں نے ایم۔اے (ہندی) اور پی۔ایچ۔ڈی (ہندی) کی ڈگری حاصل کی اور ولیم ہائی اسکول سپول میں بحیثیت ٹیچر بحال ہوۓ، علاقہ کے لوگوں کے ہی درخواست پر ٹیچر سے استعفیٰ دے کر سیاست میں آئے اور بالترتیب 1977، 1985، 1990، 1995، اور 2000 میں کل پانچ بار جیتے اور پچیس سال تک اس حلقہ سے ممبر اسمبلی رہے، وزارت صحت کے علاوہ متعدد وزارتوں کے وزیر بھی ر ہے، ایک وقت ایسا لگتا تھا کہ اس سیٹ میں ان کو شکشت دینا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے، مگر ڈاکٹر اظہار احمد نے ووٹ کے بدلے کفن مانگ کر لوگوں میں تبدیلی کا ایک مزاج پیدا کیا، جو 2005 میں ڈاکٹر اظہار احمد کے جیت سے ان کا یہ سلسلہ تھم گیا، اور ڈاکٹر مہاویر پرساد 1980 میں مہندرا ناتھ جھا سے ہارنے کے بعد 2005 میں اور پھر دوبارہ 2010 میں ڈاکٹر اظہار احمد سے ہی شکست کھاۓ۔

ڈاکٹر اظہار احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر اظہار احمد بھی اسی حلقہ اسمبلی کے بیرول بلاک کے بلیا گاؤں کے رہنے والے ہیں، انہوں نے بھی اعلی تعلیم حاصل کی، ایم.اے (اردو)، ایل.ایل.بی اور پھر پٹنہ یونیورسٹی سے پی.ایچ.ڈی، (اردو) کی ڈگری حاصل کی۔

2000 کا الیکشن جنتا دل یونائٹیڈ (JDU) کے ٹکٹ پر گھنشیام پور سیٹ سے لڑے اور ہار گۓ، پھر 2005 میں لوک جن شکتی پارٹی (LJP) کے ٹکٹ پر، راشٹریہ جنتادل (RJD) ڈاکٹر مہاویر پرساد کو ہرا یا اور 2010 میں پھر جنتا دل یو نائٹیڈ (JDU) کے ٹکٹ پر ”گورابورام“ سے جیتے، جبکہ 2015 میں انہیں ٹکٹ نہیں ملا، اور پھر 2020 میں جن ادھیکار پارٹی (JAP) کے ٹکٹ پر سامنے ہیں۔

اس بار علاقہ کے لوگوں کا ایسا ماننا ہے کہ ڈاکٹر اظہار احمد اپنی سیاسی زندگی کی بہاریں دیکھ چکے ہیں، اور سیاست کے موسم بہاراں سے لطف اندوز ہوچکے ہیں، اسی لئے اب موسم خزاں میں ان کی حیثیت ووٹ کٹوا سے زیادہ نہیں ہے۔

 2015 میں کانگریس، جدیو اور راجد کے مہاگٹھ بندھن کی طرف سے ان کو ٹکٹ نہیں ملنا ہی، ان کے پولٹیکل کیریئر کے اوپر ”بریک تھرو“ تھا، جبکہ تقریبا دو ہزار سے زیادہ لوگوں کے ان کے گھر کے ارد گرد کٸ دنوں تک جمے رہے اور اصرار کرتے رہے کہ آپ بحیثیت آزاد امیدوار میدان میں آئیں، کیوں کے اس وقت کوٸ دوسرا مسلم امیدوار ان کے مقابلے میں نہیں تھا، اور مہاگٹھ بندھن سے جدیو کے ٹکٹ یافتہ مدن سہنی کا تعلق اس حلقہ اسمبلی سے نہیں تھا، وہ ضلع دربھنگہ کے بہادر پور بلاک کے ”کھرج پور“ گاؤں کے رہنے والے تھے، یہ فکٹر ”ہمارا علاقہ کسی غیر کے ہاتھ گروی رکھ دیا گیا ہے“ کو اپنے حق میں بھنا سکتے تھے، مگر اپنی صحت اور ہارٹ اٹیک کا عذر پیش کرکے اپنی امید واری سے دستبردار ہوگۓ، ان کی دستبرداری کا یہ فیصلہ ہی ان کے سیاسی زندگی کا خاتمہ تھا، مگر پھر بھی شاید انہیں امید تھی کہ 2020 میں جدیو انہیں ٹکٹ دے گی، اسی لۓ پانچ سال تک پارٹی میں جمے رہے، مگر پھر بھی ٹکٹ نہیں ملا، مگر اس بار ٹکٹ کٹنے سے دل کا دورہ نہیں پڑا، بلکہ پانچ سال گزرنے کے بعد 60 سال کی عمر میں پہلے سے زیادہ تند و توانا ہوگۓ اور اپنی صحت مندی کی وجہ سے پھر میدان میں کود پڑے، شاید اپنی سیاسی کیریئر کے اختتام پر اپنے ہاتھوں ہی سے آخری مہر لگانا چاہتے ہوں۔

سابقہ روایتوں کی طرح اس بار بھی امید ہے کہ یہ یہاں کے لوگ ووٹ کی اہميت کو سمجھ کر ضائع ہونے سے بچاٸیں گے، اپنی سیاسی بصیرت کا نمونہ پیش کرینگے، اپنے مستقبل کا درست فیصلہ کریں گے، بوڑھی قیادت پر نئی قیادت کو ترجیح دیں گے، اور یک طرفہ مہاگٹھ بندھن کے راجد امیدوار افضل علی خان کے حق میں ووٹ کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد سرفراز عالم قاسمی
اسسٹنٹ پروفيسر، ایم ٹی ٹی کالج مدھے پور، مدھوبنی۔