Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, November 24, 2020

جھارکھنڈ ہائی کورٹ سے مولانا کلیم الدین مظاہری کی ضمانت سچائی اور سیکولرازم کی فتح،۔۔۔۔۔۔۔ ادارہ شرعیہ جھارکھنڈ

ادارہ شرعیہ جھارکھنڈ کے ناظم اعلی مولانا محمد قطب الدین رضوی نے دہشت گردی کے الزام میں 14 ماہ سے جیل میں بند جمشید پور کے مولانا کلیم الدین مظاہری کو جھارکھنڈ ہائی کورٹ سے ضمانت ملنے پر اظہار خوشی کرتے ہوئے کہا ہے کہ مولانا کلیم کو ضمانت ملنا سچائی اور سیکولرزم کی فتح ہے۔
رانچی۔۔۔جھار کھنڈ۔۔/صداٸے وقت /ذراٸع / 24 نومبر 2020.
==============================
 ادارہ شرعیہ جھارکھنڈ کے ناظم اعلی مولانا محمد قطب الدین رضوی نے دہشت گردی کے الزام میں 14 ماہ سے جیل میں بند جمشیدپور کے مولانا کلیم الدین مظاہری کو جھارکھنڈ ہائی کورٹ سے ضمانت ملنے پر اظہار خوشی کرتے ہوئے کہا ہے کہ مولانا کلیم کو ضمانت ملنا سچائی اور سیکولرزم کی فتح ہے۔ ناظم اعلی نے ایم ودود ساجد کی رپورٹ کے حوالے سے کہا ہے کہ جھارکھنڈ ہائی کورٹ کے جسٹس کیلاش پرساد دیو مولانا کلیم الدین مظاہری کو ایک انتہائی خطرناک مقدمہ میں ضمانت دے دی ہے۔ مولانا کلیم الدین مظاہری 14 مہینوں تک اس الزام میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہے۔ پولیس نے انہیں نہ صرف القاعدہ کا ممبر بتایا تھا بلکہ ان کو جہادی بھی کہا گیا تھا۔ ان پر بہت سے سخت دفعات کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ انہیں گجرات سے پیسے ملے اور انہوں نے سعودی عرب کا دورہ بھی کیا۔ انہیں پہلے سے ماخوذ دو مسلم نوجوانوں کے بیان کی بنیاد پر پکڑا گیا تھا۔ پولیس نے کہا تھا کہ ان دونوں نے مولانا مظاہری کے مکان پر ہی میٹنگ کی تھی۔مولانا مظاہری پر UAPA اور دوسرے قوانین جو دفعات عاید کی گئی تھیں، نہایت خطرناک تھیں مثلاً، دفعہ 16 ، 17 ،18 (بی) 19  ،20  ،21  ،23  ،25 (بی)  ،26، 34  ، 35 ،35 (بی) ،121  ،121 (اے) ، 124 (اے)  یعنی ایک چھوٹا جرم سے لے کر سب سے بڑے جرم کے دفعات نافذ کئے گئے تھے، لیکن چونکہ یہ سب فرضی تھے، اس لئے پولس کورٹ میں ثبوت پیش نہ کرسکی۔            مولانا قطب الدین رضوی

مولانا قطب الدین رضوی نے کہا کہ ہندوستان میں اتنی سارے دفعات کے بعد کیا کسی کا ضمانت پر چھوٹنا ممکن رہ جاتا ہے اور وہ بھی عدالت سے رجوع کا حق ہی نہ ہو۔ ہائی کورٹ کی یک رکنی بنچ نے جو تبصرہ کیا وہ بھی بہت اہم ہے۔ عدالت نے کہا کہ تفتیشی افسر نہ تو اس کا کوئی ثبوت پیش کرسکا کہ مولانا مظاہری کا تعلق القاعدہ سے ہے اور نہ ہی وہ انہیں دیئے گئے پیسوں اور ان کے دہشت گردانہ سرگرمیوں کے  استعمال کا کوئی ثبوت پیش کرسکا۔ عدالت نے صاف کہا کہ پیش کرنا تو بہت دور تفتیشی افسر یہ ثبوت جمع ہی نہیں کرسکا۔ ناظم اعلی نے کہا کہ ایم ودود ساجد کی رپورٹ کے مطابق مولانا کلیم الدین مظاہری کے وکیل امت کمار داس نے عدالت میں قانون و دلائل کی روشنی میں بحث کی اور بتایا کہ پولیس 14مہینوں سے میرے موکل کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھے ہوئے ہے اور ابھی تک ان کے خلاف ایک بھی ثبوت جمع نہیں کرسکی ہے۔
اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ چونکہ میرے موکل ایک مولانا ہیں، اس لئے پولیس نے انہیں جہادی بتا دیا۔ جب جسٹس کیلاش پرساد دیو نے فیصلہ لکھا تو اس میں بطور خاص لکھا کہ چونکہ پٹشنر مولانا ہیں اور ان کے خلاف پولیس کوئی ثبوت جمع نہیں کر سکی، لہٰذا انہیں ضمانت پر رہا نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ عدالت نے یہ بھی لکھا کہ مولانا کلیم الدین مظاہری سعودی عرب حج کرنے گئے تھے اور باقاعدہ حکومت ہند سے منظوری لے کر گئے تھے۔ ان کی وہاں کسی سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی اور نہ انہیں کسی نے کوئی پیسہ دیا اور جھارکھنڈ ہائی کورٹ نے مظاہری کو ضمانت پر رہا کر دیا یہ ایک شاندار اور خوش آئند فیصلہ ہے۔ ساتھ ہی ان ملک مخالف عناصر کے لئے تازیانہ ہے جو شیشے میں اپنا چہرہ دیکھ کر دوسروں پر ملک مخالف سرگرمیوں کا مرتکب سمجھتے ہیں جبکہ سچائی یہ ہے کہ ان عناصر کی تمام سرگرمیاں ملک مخالف ہوتی ہیں مگر "سیاں بھئے کوتوال پھر ڈرکا ہے کا" کے مصداق وہ بے لگام اور مطلق العنان ہیں۔
ناظم اعلی نے کہا کہ جن افسروں اور سازش کرنے والوں نے مظاہری پر اتنے سنگین جھوٹے الزامات لگا کر مظاہری کے 14 سال قیمتی وقت برباد کیا اور ملک وسماج کو بدنام کیا ان افسروں کو قرار واقعی سزا ملنی چاہئے۔ ناظم اعلی نے عدالت کا بھی شکریہ ادا کیا اور ضمانت کا دلی استقبال کیا اور کہا کہ ہرمظلوم اور بے قصوروں کے ساتھ کھڑا رہنا سیکولر ازم کی علامت ہے اور ہمارا فریضہ بھی کیونکہ مظاہری کی ضمانت سے فرقہ پرستی کو دھچکا لگا اور سیکرلرازم کوسکون حاصل ہوا۔