Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, November 23, 2020

یہ ‏مشکل ‏حالات ‏ہماری ‏دعوتی ‏غفلت ‏کا ‏نتیجہ ‏ہے۔۔۔۔

تحریر / محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
                 صداٸے وقت۔
               ==========
25/ دسمبر 1947ء میں تحریک جماعت اسلامی کے قائد اور روح رواں مولانا سید ابو الاعلی مودودی رح نے (انجمن)اتحاد المسلمین حیدر آباد دکن کے قائدین کے نام ایک مکتوب (خط) تحریر فرمایا تھا یہ مکتوب مولانا مرحوم کی سیاسی بصیرت اور بر عظیم کے حالات پر ان کی گرفت کا آئینہ دار ہے ۔ ان کے تجزئیے کا ایک حصہ جو انتہائی حقیقت پسندانہ تجزیہ ہے اور جو بہت ہی موثر اور سبق آموز ہے ہم موجودہ ہندوستانی حالات کے تناظر میں اپنے قارئین کی خدمت میں ۔آج کا پیغام ۔ کالم میں پیش کرتے ہیں ۔
مولانا مرحوم نے جو مفید اور انتہائی اہم اور قیمتی مشورے حیدر آباد کی مسلم حکومت و قیادت کو دئیے تھے ،ان کو اس قیادت نے در خور اعتنا نہ سمجھا اور چند ماہ بعد ہی سلطنت آصفیہ (آصف جاہی) کی پوری عمارت دھڑام سے زمین پر آرہی ،اور ڈاکٹر علامہ اقبال مرحوم نے جو کچھ سسلی کی مسلم حکومت اور حکمراں کے بارے میں کہا تھا اس کی مصداق ہوگئی ۔
وہ نظر آتا ہے تہذیب حجازی کا مزار
مولانا مرحوم نے جو خط تحریر فرمایا تھا اس کا ایک حصہ ملاحظہ کیجئیے اور آج کے حالات کی روشنی میں اس خط کے مشمولات کو مربوط کرنے کی کوشش کیجئے کہ ہماری دعوتی تبلیغی، سیاسی اور علمی اور تعلیمی غفلت نے آج ہم سب کو کس اجنبی مقام اور جگہ پر کھڑا کردیا ہے ، ہماری اپنی ذمہ داریوں سے غفلت اور دوری کا انجام کس قدر مشکل،دشوار،ہولناک اور پیچیدہ شکل میں آج ہمارے سامنے ہے ۔ آج کے حالات میں ضرورت ہے کہ اسلاف کی تحریروں کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے اور اس سے صحیح نتائج تک پہنچا جائے ۔ لیکن تکلیف دہ اور افوس کی بات یہ ہے کہ اگر اس طرح کی بعض قائدین کی تحریروں کو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے، تو فورا ایک طبقہ نیتوں پرحملہ شروع کر دیتا ہے اور کسی مخصوص جماعت کی طرف اس کی نسبت اور انتساب شروع کر دیتا ہے ۔ جو انتہائی کم علمی اور بے بصیرتی کی دلیل ہے ۔ ایک مومن مخلص کی شان تو یہ ہے کہ حکمت کی بات جہاں ملے مرض اور بیماری کا نسخہ جس طبیب کے پاس ملے وہ اس کو آزمانے ۔ حدیث شریف میں بھی اسی جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ الحکمة ضالة المومن حیث وجدھا فھو احق بھا
علم و حکمت مومن کی گمشدہ دولت ہے جہاں کہیں ملے وہ اس سے فائدہ اٹھانے کا زیادہ مستحق اور حقدار ہے ۔
خیر اس تمہد طولانی کے بعد مولانا مرحوم کے خط کے مشمولات کو ملاحظہ کیجئے ۔
مولانا مرحوم لکھتے ہیں :
ہندوستان کے مسلمانوں نے ابھی ابھی اپنا جو انجام دیکھا ہے اور دیکھ رہے ہیں، وہ در اصل خمیازہ ہے ،ان کوتاہیوں کا جو پچھلی صدیوں میں ہمارے حکمران ،ہمارے امراء ،ہمارے مذہبی پیشواؤں کا ایک بڑا گروہ اور باستثنا چند ،ہمارے عام اہل ملت اپنے اس فرض کی ادائیگی میں برتتے رہے ہیں،جو مسلمانوں کی حیثیت سے ان پر عائد تھا ۔ اگر وہ اسلام کی صحیح نمائندگی کرتے،اگر وہ اپنے اخلاق اور معاملات اور اپنی سیرتوں میں اسلام کا صحیح نمونہ پیش کرتے، اور اگر اپنی سیاست اور حکمرانی میں عدل و انصاف پر قائم رہتے ،اور اپنی طاقتوں کو اسلام کی سچائی پھیلانے میں صرف کرتے تو آج دہلی اور مغربی یوپی اور مشرقی پنجاب سے مسلمان اس طرح بیک بیتی و دو گوش نہ نکال دئے جاتے جیسے اس وقت نکالے گئے ہیں، اور یوپی ،بہار اور وسط ہند میں ان کے سر پر اس طرح تباہی منڈلا رہی نہ ہوتی جیسی آج منڈلا رہی ہے ۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں سات آٹھ سو سال تک مسلمانوں کا اقتدار رہا ہے،جہاں مسلمانوں کی بڑی بڑی عظیم الشان جاگیریں ،حیدر آباد کی پائے گاہوں سے کئ کئ زیادہ بڑی جاگیریں قائم رہی ہیں اور جہاں مسلمانوں کی تہذیب اور ان کے علوم و فنون کے عظیم الشان مرکز موجود رہے ہیں ۔ لیکن عیش دنیا میں انہماک، فوجی طاقت اور سیاسی اقتدار پر انحصار ،اسلام کی دعوت پھیلانے سے تغافل اور انفرادی سیرتوں اور اجتماعی طرز عمل میں اسلام کے اخلاقی اصولوں سے انحراف کا یہ نتیجہ ہوا ،کہ ان علاقوں کی عام آبادی غیر مسلم رہی ،مسلمان ان کے درمیان آٹے میں نمک کے برابر رہے اور دلوں کو مسخر کرنے کی بجائے معاشی اور سیاسی دباؤ سے گردنیں اپنے سامنے جھکوانے پر اکتفا کرتے رہے ۔ پھر جب سیاسی اقتدار ان سے چھنا اور ایک غیر ملکی قوم ان پر مسلط ہوئ ،تب بھی انھوں نے اور ان کے رہنماؤں نے ان اسباب کو سمجھنے کی کوشش نہ کی،جن کی بنا پر وہ حاکم سے محکوم بن کر رہ گئے تھے،بلکہ انہوں نے غیر ملکی حکمرانوں کے بل پر جینے کی کوشش کی اور اپنے سیاسی مطالبے اور دعوے کو ہمسایہ اکثریت کے مقابلے میں اس تیسری طاقت سے،جس کے اقتدار کو بہر حال عارضی ہی ہونا تھا ،منواتے رہے ۔ اس تمام مدت میں زندگی کی جو مہلت مسلمانوں کو ملی تھی ،اس میں اپنی اخلاقی اصلاح کرنے اور اپنے بزرگوں کی غلطیوں کی تلافی کرنے کے بجائے مسلمان محض معاشی اور سیاسی فائدوں کے لئے غیر مسلم اکثریت کے ساتھ کشمکش کرکے بظاہر یہ سمجھتے رہے کہ وہ اپنے جینے کا سامان کر رہے ہیں، لیکن در اصل اپنی قبر کھود رہے تھے ۔ آخر کار آج ہماری بد قسمت آنکھوں نے دیکھ لیا کہ بہت سے اس قبر میں دفن ہوگئے اور بہت سے زندہ درگور ہیں ( ترجمان القرآن جون ۱۹۹۶ ء)
محترم قارئین باتمکین !
اس تحریر سے ہم اور آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ جس ملک میں ہم اور آپ رہ رہے ہیں یہاں کار انسانیت، دعوت و تبلیغ، پیام انسانیت، سماجی خدمات اور سماجی و سیاسی کاموں کے کرنے کی کتنی سخت ضرورت ہے اور یہ کہ بحیثیت مسلم امہ ہماری کیا کیا زمہ داریاں بنتی ہیں، اور کن کاموں اور ذمہ داریوں کا ہمیں مکلف بنایا گیا ہے اور یہ کہ موجودہ ملکی صورتحال میں سماجی ملی اور دعوتی کاموں کی انجام دہی کس قدر ضروری اور لازمی ہے ۔امید کہ ہم سب اپنی ان ذمہ داریوں کو سمجھیں گے اور ہندوستان میں اپنی حیثیت عرفی باقی رکھنے کے لیے کوئی مضبوط اور ٹھوس لائحہ عمل طے کریں گے نیز جن کے اندر جو صلاحتیں ہیں وہ امت مسلمہ بلکہ اور انسانیت کی فلاح اور تعمیر و ترقی کے لیے صرف کریں گے۔ خدا ہم سب کو اس کی توفیق بخشے۔۔ آمین