Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, November 3, 2020

ووٹ ‏کی ‏طاقت ‏کو ‏سمجھیں۔۔۔۔۔


{از: ڈاکٹر مفتی عرفان عالم قاسمی}
(ایڈیٹر ہفت روزہ آب حیات بھوپال ایم پی)
E-mail:- aabehayatnewspaper@gmail.com. Mob:- 9826268925
                    صداٸے وقت 
               ============
کامیابی کے لئے نظم و نسق ضروری ہے اور نظم اس کو کہتے ہیں کہ جس طرح پرویا ہوا موتی نہایت ترتیب کے ساتھ برابر اپنی اپنی جگہ پر ہوتا ہے اسی طرح ہر شخص اپنے اپنے مقام و مرتبہ کے لحاظ سے اپنی اپنی جگہ پر ہو تو اس طرح کسی بھی کام کو نہایت منظم انداز میں کیا جاسکتا ہے ورنہ بصورت دیگر اختلاف ہوگا، انتشار ہوگا پھر لڑی ٹوٹے گی، پھر لڑی ٹوٹنے کے بعد منتشر موتیوں کی طرح بکھراؤ ہوگا۔ آج ہندوستان میں بیس کروڑ سے زائد مسلمان ہیں، لیکن ان کی حالت ٹوٹے ہوئے موتی کی طرح ہے، آپسی اختلافات اور فرقہ بندی ان کی پہچان بن چکی ہے۔ باہمی اختلاف و انتشار کے سبب مسلمان ہر میدان میں پچھڑ چکا ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی زیادہ پسماندہ ہے۔ ملک کی سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کو اس طور پر تو اہمیت دیتی ہیں کہ ان سے ووٹ حاصل کر لئے جائیں، لیکن افسوس صد افسوس آج مسلمان اپنے ووٹ کی طاقت کو جٹانے میں بھی ناکام رہتے ہیں، انہیں اپنے ووٹ کے تعلق سے بھی ذرا شعور نہیں ہے کہ اس جمہوری نظام میں ووٹ کی کیا اہمیت حاصل ہے،
 اکثر مسلم محلوں اور علاقوں اور خصوصاً قصبات میں مشکل سے ۲۵ سے ۳۰ فیصد ووٹ پڑتا ہے۔ ابھی حال میں ہمارے یہاں صوبائی اسمبلی کا الیکشن ہوا ہے مگر مسلم علاقوں میں ووٹ ۴۰ سے ۵۰ فیصد پڑا ہے حالانکہ ہم حکومت بدلنے اور ہرانے اور جتانے کی باتیں کرتے ہیں، مگر ووٹ نہیں ڈالتے، الیکشن کے دن کو چھٹی کا آرام کا دن سمجھتے ہیں، سارا دن سوتے ہیں۔ آج پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی تعداد ان کی آبادی کے اعتبار سے بہت کم ہے، یہی حال صوبائی اسمبلیوں کا بھی ہے، سیاسی اثر و رسوخ نہ ہونے کی بنا پر مسلمانوں کے بہت سے مسائل حل نہیں ہو پاتے اور سیاسی اہمیت جو انہیں ملنی چاہئے وہ نہیں مل پاتی۔ اس طرح یہ نہ اپنے امیدواروں کو جتانے میں کامیاب ہوتے ہیں اور نہ ہی کنگ میکر کا رول ادا کر پاتے ہیں، اگر مسلمان الیکشن پر اثر انداز ہونا چاہتے ہیں تو ان کو اپنے ووٹ کا ۱۰۰ فیصد استعمال کرنا ہوگا کیونکہ مسلمان ووٹ کے ذریعہ ہی اپنے ایسے نمائندوں کو اقتدار میں لاسکتے ہیں، جن کے ذریعہ ان کی مذہبی آزادی کا زیادہ سے زیادہ تحفظ اور مذہبی تشخصات قائم رہ سکے گا۔ کیونکہ یہ ووٹ کی ہی قوت ہے کہ اکثریتی فرقہ کے قائدین اور ارباب اقتدار پارٹی ان کے مسائل کو حل کرنے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور یہ ووٹ کی ہی طاقت ہے کہ جس کے سبب اکثریتی فرقہ کے قائدین اور ارباب اقتدار مسلمانوں کا سامنا کرتے ہیں اور ان کے آنسو پونچھنا چاہتے ہیں اور ان سے عہد و پیمان باندھتے ہیں، اگر مسلمانوں نے حق رائے دہی سے خود کو محروم کر لیں گے اور انہیں یہ معلوم ہو جائے کہ مسلمان ہمیں کچھ ’’دینے‘‘ کے موقف میں نہیں ہیں صرف ہم سے لینا چاہتے ہیں تو وہ پھر بھٹک کر بھی مسلمانوں کی طرف نہ دیکھیں گے، اس صورت میں مسلمانوں کو اس ملک میں جو مذہبی حقوق حاصل ہیں، ان سے بھی انہیں رفتہ رفتہ محروم ہوجانا پڑے گا۔ ہندوستان میں بعض احباب اب بھی ووٹ دینے کے قائل نہیں، ان کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوریت کا جو تصور ہے وہ بنیادی طور پر اسلام کے خلاف ہے، جمہوریت میں عوام کو مصدر قانون مانا جاتا ہے، عوام قانون بناتی ہے، حلال و حرام اور خیر و شر کا فیصلہ کرتی ہے، جو سراسر شرعی نقطہ نظر سے غلط ہے۔ انہیں ذرا سوچنا چاہئے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی ۲۰-۲۱ فیصد ہے اور یہ آبادی بھی بکھری ہوئی ہے، مسلمان اس پوزیشن میں بھی نہیں ہیں کہ وہ بحالت موجودہ اس خطہ میں اسلامی حکومت قائم کر لیں۔ لہٰذا اب اس کے بعد دو ہی راستے رہ جاتے ہیں کہ یہ ملک ہندو راشٹر بن جائے اور ملک کا پورا نظام ہندو تصور کے مطابق چلے۔ دوسری صورت موجودہ جمہوری نظام کی ہے جو مکمل طور پر بہتر نہیں، لیکن ہندو راشٹر کے نسبت کم خراب ہے، ہندوستان کے دستور کو اگر دیکھیں تو وہ اسلامی اصول حکومت سے کچھ بہت مختلف نہیں، خاص کر بنیادی حقوق کا حصہ جو دستور کی اصل روح ہے۔ مثلاً عائلی قانون وغیرہ تو وہ یہاں بڑی حد تک محفوظ ہیں ہمیں اس ملک میں مذہب کی تبلیغ و اشاعت کا حق حاصل ہے، ہم یہاں اپنی تہذیب و تمدن کو باقی رکھنے میں اور اپنے تشخصات قائم رکھنے میں آزاد ہیں، یہ اس جمہوری نظام کا نتیجہ ہے ورنہ ہمارے سامنے ہمارے پڑوسی ملک نیپال کو ہی دیکھ لیجئے، وہاں نہ ہمارے عائلی قانون محفوظ ہیں نہ مسلمانوں کو تبلیغ مذہب کی کھلی اجازت ہے۔ خلاصہ یہ کہ جمہوریت دو مصیبتوں میں سے کمتر درجہ کی مصیبت ہے اور قاعدہ یہی ہے کہ جہاں دو شرہوں وہاں کمتر درجہ کے شر کو قبول کیا جائے، موجودہ حالات میں اس ملک میں مسلمانوں کو جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حبشہ کی طرف ہجرت فرمایا تھا ان کی سیرت کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ لیکن آج مسلمان دنیا بھر میں سو رہے ہیں، خواب غفلت کا شکار ہیں، جب تک مسلمان متحد ہو کر اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے جد جہد نہ کریں گے اس وقت تک یہ قوم ناانصافیوں اور حق تلفیوں کا شکار ہوتی رہے گی۔ آج مسلمانوں کو سب سے زیادہ ضرورت اتحاد و اتفاق کی ہے۔ مسلم ووٹرس اس بات کا خود اعتراف کرتے ہیں کہ ان کا ووٹ منتشر ہونے کے سبب سیاست کے میدان میں کوئی خاص اثر نہیں ڈال پاتا۔ اس کے باوجود ہر بار ووٹ منتشر ہوجاتا ہے اور ہر بار ہم کوئی مؤثر لائحہ عمل بنانے میں ناکام ہوجاتے ہیں، لہٰذا نہایت حکمت عملی کے ساتھ آج مسلمانوں میں ووٹ کے تئیں ان کی ذمہ داری کو بتانا نہایت ضرروی ہے تاکہ مسلمان کسی ایک پارٹی پر منحصر نہ رہے بلکہ ہر پارٹی میں گھس کر اپنی شناخت بنائے اور ہر پارٹی کی پالیسیوں کو متاثر کرسکے تاکہ کسی پارٹی کو یہ احساس نہ ہو کہ مسلمان ہمیں ووٹ دینے کے لئے مجبور ہے۔ اگر مسلمان اس طرح حکمت عملی کے ساتھ اپنے ووٹ کی قوت و طاقت کو سمجھیں گے تب جاکر کہیں برسراقتدار پارٹی ان کے مسائل کو حل کرنے کی طرف متوجہ ہوگی۔ ورنہ بصورت دیگر مسلمان ذلت و نکبت کی طرف دن بدن بڑھتے چلے جائیں گے۔ ابھی مدھیہ پردیش میں الیکشن میں دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ مسلم محلوں میں کئی کئی ووٹروں کا ایک ساتھ نام غائب ہے تو کسی کا ووٹر لسٹ میں نام ہے تو اس کے نام کی پرچی ندارد ہے، اس کے پیچھے جو لوگ ہیں الیکشن کمیشن کو ان کی تحقیق کرنی چاہئے۔ اس جمہوریت کو مضبوط تر بنانے کے لئے حکومت ہند سے میری درخواست ہے کہ ہر فرد کو ووٹ ڈالنا لازمی قرار دیا جائے ورنہ بصورت دیگر ان کی مراعات بند کر دی جائے تاکہ لوگ اس خوف سے سہی ووٹ تو ڈالیں۔
٭٭٭