Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, November 27, 2020

وحدة ‏الوجود ‏و ‏وحدة ‏الشہود۔

                 صداٸے وقت   
             ============
"وحدة الوجود" کی حقیقت؛ 
     اس بارے میں علمائے ظاہر بیان فرماتے ہیں. کہ اللہ رب العزت سلسلہء کائنات سے بالکل الگ اور ایک جداگانہ ذات ہے. 

صوفیائے کرام کے نزدیک؛ 
     جبکہ صوفیائے کرام کے نزدیک الله رب العزت کائنات سے الگ نہیں ہے. 

صوفیائے کرام کے گروه؛ 
     اس نظریہ سے متعلق صوفیائے کرام کے دو گروه ہیں. ان میں ایک گروه "وحدة الوجود" کا قائل ہے. جبکہ دوسرا گروه "وحدة الشہود" کا قائل ہے. 
     صوفیائے کرام میں شیخ اکبر محی الدین ابن عربی "وحدة الوجود" کے قائل ہیں. جبکہ شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی "وحدة الشہود" کے قائل ہیں. 

نظریہء "وحدة الوجود" ؛ 
     نظریہء "وحدة الوجود" یہ ہے. کہ اللہ رب العزت کے سوا اور کوئی چیز عالم میں موجود نہیں. یا یہ کہ جو کچھ موجود ہے. سب الله رب العزت ہی ہے. اور سب الله ہی ہے. جبکہ اسی نظریہ کو "ہمہ اوست" بهی کہتے ہیں. 

نظریہء "وحدة الشہود" ؛ 
     نظریہء "وحدة الشہود" یہ ہے. کہ ہر چیز اللہ رب العزت سے ہے. اور اس نظریے کو "ہمہ از اوست" بهی کہتے ہیں. 

نظریات "وحدة الوجود اور وحدة الشہود" میں فرق؛ 
     "وحدة الوجود " اور "وحدة الشہود" میں فرق یہ ہے. کہ "وحدة الوجود" کے لحاظ سے ہر چیز کو اللہ کہہ سکتے ہیں. جس طرح کہ حباب اور موج کو پانی بهی کہہ سکتے ہیں. لیکن "وحدة الشہود" میں یہ اطلاق جائز نہیں. کیونکہ انسان کے سایہ کو انسان نہیں کہا جا سکتا. 

حقیقت کا ظاہر؛ 
     "وحدة الوجود" کا مسئلہ بظاہر غلط معلوم ہوتا ہے. اور علمائے ظاہر کے نزدیک اس نظریے کے قائل کا وہی صلہ ہے. جو کہ منصور کو "دار" پر ملا تها. 

اس حقیقت کے بغیر چارہ بهی ممکن نہیں؛ 
     لیکن اس حقیقت کے بغیر چارہ بهی ممکن نہیں. اور اس مسئلہ کو سمجهنے کے لیے پہلے مقدمات ذیل کو ذہن نشین کرنا ہوگا. 
1. الله تعالیٰ قدیم ہے. 
2. قدیم حادث کی علت نہیں ہو سکتا. 
     تو پهر اب نتیجہ یہ ہو گا. کہ الله رب العزت عالم کی علت نہیں ہو سکتا. کیونکہ اللہ رب العزت قدیم ہے. اور قدیم حادث کی علت نہیں ہو سکتا. اور چونکہ عالم حادث ہے. اس لئے اس کی بهی علت نہیں ہو سکتا. 

اس اعتراض سے بچنے کیلئے اربابِ ظاہر کی کوشش؛ 
     اب اس اعتراض سے بچنے کے لیے اربابِ ظاہر نے یہ پہلو اختیار کیا. کہ
   "الله رب العزت کے اراده کا تعلق حادث ہے. اس لئے وه عالم کی علت ہے." 

الله جل شأنه کے ارادے کی علت؛ 
     اب پهر سوال یہ پیدا ہوتا ہے. کہ کہ اللہ رب العزت کے اراده کے تعلق کی علت کیا ہے. ؟
     کیونکہ جب اراده یا اس کا تعلق حادث ہے. تو وه علت کا محتاج ہوگا. اور پهر لازم ہے. کہ علت بهی حادث ہو. کیونکہ حادث کی علت بهی حادث ہی ہوتی ہے. اور چونکہ علت حادث ہے. تو اس کے لیے بهی علت کی ضرورت ہوگی. اب یہ سلسلہ اگر "الی غیر انتہایہ" چلا جائے. 

وجودِ غیر متناہی؛ 
     تو غیر متناہی کا وجود لازم آتا ہے. جس سے متکلمین اور اربابِ ظاہر کو انکار ہے. اگر کسی علت پر ختم ہو. تو ضرور ہے. کہ یہ علت قدیم ہے. 
     کیونکہ حادث ہوگی تو پهر سلسلہ آگے بڑهے گا. جبکہ قدیم ہونے کی حالت میں لازم آئے گا. کہ قدیم حادث کی علت ہو. 
     جبکہ یہ پہلے ہی باطل ثابت ہو چکا ہے. 

درج ذیل تین صورتوں کے علاوہ کوئی چارہ نہیں؛ 
1.      عالم قدیم اور ازلی ہے. اور باوجود اس کے الله رب العزت کا پیدا کیا ہوا ہے. لیکن جب اللہ رب العزت بهی قدیم اور ازلی ہے. تو ازلی چیزوں میں سے ایک کو علت اور دوسرے کو معلول کہنا "ترجیح بلا مرجح" ہے. 
2.      عالم قدیم ہے. اور کوئی اس کا خالق نہیں. یہ ملحدوں اور دہریوں کا مذہب ہے. 
3.      عالم قدیم ہے. لیکن وه اللہ تعالیٰ سے علیحدہ نہیں. بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کے مظاہر کا نام عالم ہے. 

صوفیائے کرام کا عقیده؛ 
     لہذا صوفیائے کرام کا یہی درج بالا عقیده ہے. اور اس پر کسی بهی صورت کوئی اعتراض لازم نہیں آتا. کیونکہ تمام مشکلات کی بنیاد اس پر ہے. کہ
   "علم اور اس کا خالق دو جداگانہ چیزیں ایک دوسرے کی علت و معلول ہیں." 

قرآن مجید اور فلسفہ کی رو سے؛ 
     غرض فلسفہ کی رو سے تو صوفیائے کرام کے اس فرقہ کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے. اور قرآن مجید میں بهی بکثرت اس قسم کی آیات موجود ہیں. کی جن سے ثابت ہوتا ہے. کہ اول، آخر؛ ظاہر و باطن الله تعالیٰ ہی ہے. جیسا کہ اللہ رب العزت قرآن مجید میں ایک مقام پر ارشاد فرماتا ہے کہ
   "هو الاول والآخر والظاهر والباطن" 
     اس کے علاوہ مولانا جلال الدین رومی بهی "وحدة الوجود" کے سالار قافلہ ہیں. ان کے نزدیک تمام عالم اس ہستی مطلق کی مختلف شکلیں اور صورتیں ہیں. اس بنا پر صرف ایک ذات واحد موجود ہے. اور تعداد جو محسوس ہوتی ہے. وه محض اعتباری ہے. 

قیاس و عقل اور کیف و کم؛ 
     "وحدة الوجود" کی صورت میں یہ امر بحث طلب ہی رہتا ہے. کہ الله رب العزت اور مظاہر کائنات میں کسی قسم کی نسبت ہے. 
     مولانا روم کی یہ رائے ہے. کہ
   "ذات باری تعالیٰ کو ممکنات کے ساتھ جو خاص نسبت اور تعلق ہے. وه کسی بهی صورت قیاس اور عقل میں نہیں آ سکتا. اور نہ ہی کیف و کم ہی کے ذریعے بیان ہی کیا جاسکتا ہے. 
          مولانا روم فرماتے ہیں. کہ 
   'اس قدر مسلم ہے. کہ جان کو جسم سے؛ بصارت کو روشنی سے، خوشی کو دل سے، غم کو جگر سے، خوشبو کو شامہ سے، گویائی کو زبان سے؛ ہوا پرستی کو نفس سے، اور شجاعت کو دل سے ایک خاص تعلق ہے. لیکن یہ تعلق بیچوں بیچگوں ہے. اور اسی طرح الله رب العزت کو ممکنات سے جو نسبت ہے. وه کیف و کم سے بری ہے
ماخوز