Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, November 27, 2020

ہندوستانی ‏مسلمانوں ‏کی ‏سیاسی ‏بے ‏وزنی ‏و ‏بے ‏وقعتی ‏کے ‏ذمہ ‏دار ‏عوامل۔ایک ‏قابل ‏غور ‏تحریر ‏۔

از/ڈاکٹر قاسم رسول الیاس۔/صداٸے وقت ۔
=============================
ہندستانی مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی اور بے وقعتی کے لئے بہت سے عوامل ذمہ دار ہیں۔ بالعموم ہم لوگ اس کے لئے مرکزی و ریاستی حکومتوں اور سیاسی پارٹیوں کو مورد  الزام ٹہراتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ ذمہ دار نہیں ہیں، مگر ان کا حصہ شاید 20 سے 30 فیصد سے زیادہ نہ ہو۔ 
اگر ہم ذرا بے دردی کے ساتھ اپنا احتساب کریں تو قصور اپنا نکل آیا کہ مصداق ہمارا حصہ 70 سے 80 فیصد ہوگا۔ میں اپنے احباب کو غور و فکر کی دعوت دینا چاہتا ہوں۔
۱- سیاست صرف سیاسی پارٹی بنانے اور انتخاب میں حصہ لینے کا نام نہیں ہے بلکہ سب سے پہلے تو ہمارا کوئی واضح سیاسی ویژن ہونا چاہیے۔ اس سیاسی ویژن کا دائرہ پورے ملک اور تمام انسانوں تک محیط ہونا چاہیے۔
۲- ملک کی تعمیر اور پالیسی سازی میں ہم کیسے شامل ہوں گے اس کا پورا نقشہ ہمارے سامنے ہونا چاہیے۔ 
۳- پالیسی سازی اور عوامی مسائل کو حل کرانے میں سیاسی پارٹیوں سے زیادہ کردار سول سوسائٹی موومنٹ کا ہوتا ہے۔ یقیناً پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں قانوں سازی اور پالیسی سازی سیاسی پارٹیاں ہی کرتی ہیں لیکن قانوں ساز اداروں کی دہلیز تک پہنچانے کا کام سول سوسائٹی موومنٹ کا ہوتا ہے۔ اس کی متعدد مثالیں حال کی تاریخ سے دی جاسکتی ہیں۔ 
۴- گزشتہ 70 سالوں سے ہماری سیاست صرف اور صرف مطالباتی رہی ہے ۔ ہمارے مطالبات بھی اپنی قوم کے چند گنے چنے مسائل تک محدود رہے۔ مسلمانوں کی جان و مال کا تحفظ، دین و ایمان، شریعت اور پرسنل لا کا تحفظ، اردو زبان اور اپنی دینی شناخت کا تحفظ، عصری اور دینی تعلیمی اداروں کا تحفظ وغیرہ۔ اور جس سیاسی پارٹی نے صرف زبانی وعدہ کرلیا یا تیقن دلا دیا ہم اپنا ووٹ اس کی جھولی میں ڈال دیا۔ اس طرح ہم ایک مطالباتی اور بھکاری قوم بن گئے۔ اور سیاسی پارٹیوں نے بھی ہمیں ہمیشہ ایک ووٹ بینک ہی سمجھا۔
۵۔ سیکولر سیاسی پارٹیوں سے مایوس ہوجانے کے بعد اب جب ہم نے اپنی سیاسی پارٹیوں کے تجربے شروع کئے تو وہ بھی صرف مسلمانوں کے لئے ۔
۶۔ برادران وطن ہمارے بارے میں اگر یہ رائے رکھتے ہوں کہ مسلماں خود غرض ہیں اور اسے اپنے مسائل  کے علاوہ کچھ اور نظر نہیں آتا۔ تو اس میں کیا غلط ہے۔ اس طرح وہ مسلمانوں کو ملک اور ملک کےوسائل  پر ایک بوجھ سمجھتے ہیں۔ 
۷۔ ہم نے ملک کے غریبوں، مزدوروں، کسانوں،دلتوں اور ادیباسیوں کو درپیش مسائل کے لئے کبھی کوئی تحریک چلائی یا کسی چلنے والی تحریک میں حصہ لیا ؟۔ 
۸- ہمارے ملک میں خواتین پر بے شمار مظالم ہوتے ہیں۔ ہر ۱۳ منٹ میں ایک عورت کی عصمت تار تار ہوتی ہے۔ دختر کشی کے واقعات معمول بنتے جارہے ہیں۔ کئی کبھی ہم نے پریس بیانات سے آگے بڑھ کر اس کے لئے کوئی تحریک چلائی۔ جب نربھیا کے واقعہ کے بعد جسٹس ورما کمیٹی نے تمام اہل ملک اور تنظیموں اور اداروں سے خواتین کے تحفظ کے تعلق سے تجاویز مانگیں تو سوائے ایک آدھ مسلم تنظیم کے کوئی سامنے نہیں آیا۔ کیا اس معاملہ بھی مسلمان تہی دست تھے؟۔
۹۔ ملک کی تعلیمی، اقتصادی، زرعی، صنعتی اور خارجہ پالیسی وضع کرنےمیں ہمارا بھی کوئی رول ہے۔
۱۰۔ ہمیں اکثر یہ احساس ستاتا ہے کہ ہم اس ملک میں ایک اقلیت ہیں۔ جب آٹھ سو سال ہم نے اس ملک پر حکومت کی کیا تب ہم اکثریت میں تھے۔ ہماری پوری تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ہم نے اکثر اقلیت میں رہ کر بڑے بڑے کارنامے انجام دئے اور کبھی ہمیں یہ احساس نہیں ہوا کہ ہم اقلیت میں ہیں۔
۱۱۔ اس کرونا وائرس کی وبا کے دوران انسانی خدمت کا جو تھوڑا بہت کام ہم نے انجام دیا اس کی بے انتہاء پذیرائی ہوئی۔ 
۱۲-  ہم ایک داعی امت ہیں۔ اس پہلو سے بھی ہمیں جائزہ لینا چاہیے کہ کیا کبھی ہمیں یہ خیال بھی آتا ہے کیسے ان لاکھوں کڑوڑوں انسانوں کو دوزخ کا ایندھن بنے سےروکا جائے۔
۱۳۔ قرآن نے ہمیں امت خیر کہا ہے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہمارا فریضہ قرار دیا۔ ظلم و تعدی کے اس طوفان میں، فحاشی اور عریانی کے اس سیلاب بلا خیز میں کبھی یہ فریضہ بھی ہمیں یاد آتا ہے۔
۱۴۔ یو این او کی گلوبل ھنگر رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ دنیا کے ایک تہائی بھوکے ننگے لوگ بھارت میں رہتے ہیں۔ ہر سال ہزاروں لوگ بھوک سے بلک بلک کر مرجاتے ہیں۔لیکن جس امت سے کہا گیا کہ تم مومن نہیں ہوسکتے اگر تم پیٹ بھر کر کھاؤ اور تمہارا پڑوسی بھوکا رہے۔وہ امت آگے کیوں نہیں آتی۔
۱۵۔ جس دن امت مسلمہ مذکورہ بالا پہلوؤں کی طرف متوجہ ہوجائے گی اس کی سیاسی بے وزنی اور بے وقعتی بھی ختم ہوجائے گی۔ اور اہل وطن کی نگاہ میں بھی وہ بوجھ نہیں رہے گی۔
طویل سمع خراشی کے لئے معذرت خواہ ہوں۔
والسلام 
آپ کا بھائی
ڈاکٹر قاسم رسول الیاس