Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, November 27, 2020

عطیہ ‏دینے ‏کے ‏بعد ‏واپس ‏لینا ‏، ‏انتہاٸی ‏غیر ‏اخلاقی ‏ ‏بات ‏ہے۔۔۔۔

از/مولانا طاہر مدنی /صداٸے وقت / 27 نومبر 2020.
==============================
حدیث نبوی میں ہدیہ واپس لینے والے کو اس کتے سے تشبیہ دی گئی ہے جو قے کرنے کے بعد اسے چاٹ لے. اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کسی کو کوئی چیز دینے کے بعد واپس لینا کتنا قبیح عمل ہے.
بر صغیر میں شادی بیاہ کے تعلق سے اسی طرح کی ایک چیز رائج ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ مفتیان کرام کے فتوی کی پشت پناہی بھی اسے حاصل ہے. ہوتا یہ ہے کہ شادی کے موقعہ پر سسرال سے لڑکی کے لیے کچھ سامان آتا ہے، جس کپڑا اور زیور بطور خاص ہوتا ہے. ہمارے علاقے میں اسے؛ ڈھار؛ کہا جاتا ہے. بڑے اہتمام سے اس کی نمائش بھی ہوتی ہے. رشتہ دار اور محلہ پڑوس کی خواتین کو دکھایا جاتا ہے. چرچا میں بات آتی ہے کہ اتنا شاندار کپڑا اور فلاں فلاں قیمتی زیورات دیئے گئے ہیں، ماشاء اللہ.
ازدواجی زندگی اگر ٹھیک ٹھاک چلتی رہی، تب تو کوئی بات نہیں، لیکن اگر سوء اتفاق دوری پیدا ہوگئی اور علیحدگی کی نوبت آگئی تو تمام دیئے ہوئے زیورات واپس لیے جاتے ہیں کہ مالک نہیں بنایا گیا تھا بلکہ عاریتاً استعمال کیلئے دیا گیا تھا. کتنی عجیب بات ہے. کیا عاریتاً دی جانے والی چیز کی نمائش ہوتی ہے. اس کا چرچا کیا جاتا ہے اور فخریہ بیان کیا جاتا ہے کہ ہم نے اتنا زیور دیا؟
افسوس کہ بات یہ ہے کہ مفتیان کرام فتوی بھی دیتے ہیں کہ یہاں کا یہی عرف ہے، اس لیے واپس لینے میں حرج نہیں. حالانکہ عرف اور رواج کے تعلق سے اصول فقہ کی کتابوں میں یہ صراحت موجود ہے کہ جو عرف نص سے متصادم ہو، اس کا قطعاً لحاظ نہیں کیا جائے گا. قرآن مجید کی سورہ نساء آیت نمبر 20 میں صراحت کے ساتھ یہ بات کہی گئی ہے کہ اگر کسی بیوی سے تم علیحدگی اختیار کر رہے ہو تو چاہے تم نے قنطار یعنی ڈھیر سارا مال ہی کیوں نہ دیا ہو، اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو؛ فلا تاخذوا منه شيئآ؛ اس میں سے کچھ واپس نہ لو. واضح رہے کہ عمومی الفاظ استعمال ہوئے ہیں اس لیے اسے محض مہر پر محمول کرنا درست نہیں ہے.
شریک حیات کو کچھ دینے کے بعد اسے واپس لینا، بہت گھٹیا اور انتہائی غیر اخلاقی بات ہے.
چند روز قبل ایک معاملے کے سلسلے میں نشست ہوئی تو لڑکی کے سسرال والوں نے حلفیہ بیان دیا کہ ہم نے شادی کے موقع پر جو 8 سیٹ زیور دیا تھا، اس میں ایک مہر، ایک ہدیہ اور باقی عاریتاً تھا. کتنی عجیب بات ہے، آخر یہ تماشہ کرنے کی کی ضرورت ہی کیا تھی، صرف شہرت حاصل کرنے کے لیے کہ ہم نے اتنا دیا.
صاف اعلان کر دینا چاہیے کہ دی ہوئی کوئی چیز واپس نہیں ہوگی، لڑکی کو جو بھی ملے گا اس کی ملکیت ہوگی. عاریت کی نیت سے کچھ دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے. سب عطیہ شمار ہوگا اور ناقابل واپسی ہوگا. ایسے فتاوی سے رجوع کرلینا چاہیے جو نصوص سے متصادم اور روح شریعت کے خلاف ہوں. جو عرف و رواج نص سے متصادم ہو وہ عرف فاسد ہوتا ہے اور ناقابل استدلال ہوتا ہے. ایسے مواقع پر مزید کچھ دینے کی ہدایت ہے  نہ کہ دی ہوئی چیز واپس لی جائے.
طاہر مدنی 27 نومبر 2020