Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, November 27, 2020

آاہ حاجی شمش الدین بھاٸی ۔۔۔آپ بھی چل دٸیے۔۔۔۔۔۔

از۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی /صداٸے وقت۔
==============================بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی 
اک شخص سارے گاٶں  کو ویران کر گیا.

گزشتہ ہفتہ ہمارے موضع لکھمانپور۔پوسٹ کوہنڈہ ضلع اعظم گڑھ کے  حاجی شمش الدین بھاٸی 86 سال کی عمر میں مختصر سی علالت کے بعد  اس دار فانی کو چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ.
             حاجی شمش الدین مرحوم۔

موصوف مرحوم گوناگوں خوبیوں کے مالک تھے۔میرا بچپن انھیں کی زیر سر پرستی گزرا ۔تقریباً 50 و 60 کی دہاٸی میں جب میں  گاٶں کے مکتب میں زیر تعلیم تھا اس وقت ہمارے شمسو بھیا ( جی ہاں۔۔ گاٶں میں ہملوگ اسی نام سے یاد کیا کرتے تھے۔) اپنی نوجوانی کے دور میں تھے۔ماڈرن و تعلیم یافتہ اور خوب رو شمسو بھیا کو ہم نے اپنا آٸیڈیل بنا لیا۔تعلیم کی بات نکلی تو بے تکلف یہ بتا دوں وہ درجہ ١٠ یا ١٢ تک کی تعلیم حاصل کٸے تھے اور اس دور میں تعلیم یافتہ ہی تھے۔گاٶں میں اس وقت مسلم  برادری میں کسی کے پاس اتنی تعلیم نہیں تھی۔
 اس زمانے میں اگر گاٶں میں کوٸی تار یعنی ٹیلیگرام آجاتا تھا جو کہ انگریزی میں ہی ہوا کرتا تھا تو اسے پڑھوانے اور سمجھنے کے لٸے  موصوف کی ہی تلاش شروع ہوجاتی تھی۔
طالب علموں کی بڑی قدر کیا کرتے تھے ۔گاٶں کے مکتب سے لیکر مسجد و دیگر فلاحی کاموں میں ہمیشہ  پیش پیش رہتے تھے اور وہ ایک زمانہ تھا جب کسی معاملے میں ان کا ایک مشورہ اہل لکھمانپور کے لٸے فیصلہ ہوا کرتا تھا۔گاٶں کے اندرونی و باہری معاملات میں لوگ ان کی طرف ہی نگاہ اٹھا کر دیکھتے تھے۔
میری ان سے انسیت کی خاص وجہ میری حصول تعلیم کی لگن تھی۔درجہ 6 سے لیکر 10 تک جنتا انٹر کالج امباری کی تعلیم کے دوران ہمیشہ ان کے نیک و پر خلوص مشورے کام آٸے۔شبلی کالج و علیگڑھ کے دوران تعلیم مجھے دیکھکر و مجھ سے ملکر ان کے چہرے پر جو خوشی جھلکتی تھی اسے میں صرف محسوس کر سکتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے ان کو مال و دولت سے نوازا اور سخاوت  کی خصوصیت بھی دی۔مال و دولت کے علاوہ اولاد کی نعمت سے بھی اللہ نے مالا مال کیا ۔7 بیٹے عطا کٸے اور سب کے سب فرمانبردار۔۔۔تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہوٸے انھوں نے بیٹوں کو اعلیٰ تعلیم دلاٸی۔دینی و عصری علوم کا ایک حسین امتزاج پیدا کیا۔۔مولوی شہباز احمد حال مقیم اعظم گڑھ شہر دیوبند سے فارغ قطر میں رہکر اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔حافظ آزاد عالم اپنے مرحوم والد محترم کے مشورے سے گاٶں میں رہکر رابعہ ہاٸی اسکول کے نام سے لڑکیوں کی تعلیم کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔یہاں پر حاجی شمس الدین  صاحب نے  سخاوت کی مثال پیش کرتے ہوٸے اپنے قیمتی کھیت کو بچیوں کی تعلیم کے لٸے وقف کردیا اور اپنی والدہ ماجدہ کے نام گرامی سے ” رابعہ نسواں “ اسکول کی بنیاد ڈالی ۔حافظ آزاد عالم مذکورہ اسکول کے بانی و منیجر ہیں اور تعلیمی میدان میں خدمت خلق کر رہے ہیں۔
ایک اور بیٹے انجینیر مہتاب عالم علی گڑھ سے انجینیرنگ کرنے بعد خلیجی ممالک میں خدمت انجام دے رہے ہیں۔۔۔نوشاد عالم نے ایم بی اے کیا اور العین میں اپنا ذاتی بزنس کر رہے ہیں ۔ایک اور بیٹے شاداب عالم نے ایم اے کیا اور خلیجی ممالک میں جاب کر رہے ہیں۔اس طرح سے انھوں نے اپنے بیٹوں کو اعلیٰ تعلیم دلاٸی اور اپنی دنیا و دین دونوں کو سنوارا اور ماشإ اللہ سبھی بیٹے دیندار ہیں۔
مرحوم بہت ہی دیندار اور صوم صلوٰة کے پابند رہے اور میری جانکاری کے مطابق گزشتہ کٸی دہاٸیوں سے پابندی کیساتھ نماز تہجد کا بھی اہتمام کرتے رہے۔
کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔
خوشی کیساتھ دنیا میں ہزاروں غم بھی ہوتے ہیں 
حاجی شمس الدین صاحب کی زندگی میں بھی بہت سے نشیب و فراز آٸے۔کبھی مالی مشکلات کا سامنا تو کبھی اولاد کی بیماری۔۔دو بیٹے جاوید عالم و آیاز عالم کا انتقال ان کی زندگی میں ہوا۔۔دنیا کا سب سے بڑا غم باپ کے کاندھے پر بیٹے کا جنازہ ہوتا ہے اور اس کو بھی انھوں رضاٸے الہی کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوٸے بڑے صبر و استقلال کا مظاہرہ کیا۔مالی مشکلات کا سامنا انھوں نے صبر کیساتھ کیا اور سنت نبوی پر عمل کرتے ہوٸے تجارت کی ۔۔امباری بازار میں میذیکل اسٹور کھولا اسی لحاظ سے گاٶں کے لوگ انھیں ڈاکٹر بھی کہنے لگے اور آخری لمحے تک یہ لقب ان کیساتھ جڑا رہا۔
ان کی وفات میرا ذاتی نقصان ہے مگر اللہ کی مرضی کے آگے سبھی بے بس ہیں۔مجھے آخری دم تک ان کی سر پرستی حاصل رہی ۔تعلیمی میدان سے لیکر سماجی و سیاسی میدان میں ہر جگہ ان کی رہنماٸی کام آٸی۔مگر کیا کیا جا سکتا ہے  سارہ گاٶں واقعی میں ویران سا لگتا ہے ۔۔مرحوم کے دروازے پر پہنچنے پر ان کی عدم موجودگی دل کو گراں گزرتی ہے  حالانکہ موجود لوگوں میں مولوی شہباز ، حافظ آزاد و دیگر اہل خانہ اپنی محبتیں لٹا دیتے ہیں پھر بھی سونا پن محسوس ہوتا ہے۔۔۔مگر۔۔۔۔۔ ۔بقول شاعر۔۔
 موت سے کس کو رستگاری ہے 
آج وہ کل ہماری باری ہے۔

اس سے زیادہ اب تحریر نہیں کر سکتا ہاتھوں میں جنبش اور آنکھوں میں آنسو آگٸے۔ دل سے بے ساختہ آواز آرہی ہے کہ آاہ حاجی شمس الدین صاحب آپ بھی چھوڑ کر چلے گٸے۔۔
۔اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ اللہ ہمارے شمسو بھیا کی تمام تر کوتاہیوں ، لغزشوں کو معاف کرے اور تمام نیک کاموں و عبادات کو شرف قبولیت بخشے ۔قبر میں کروٹ کروٹ اپنی رحمت کے دورازے کھول دے ۔ان کی مغفرت فرماٸے اور جنت میں درجات کو بلند کرے۔۔۔۔۔آمین۔