Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, November 14, 2020

اویسی ‏کا ‏قصور ‏کیا ‏ہے ‏؟؟؟



از / معصوم مرادآبادی/ صداٸے وقت 
==============================
بہار کے انتخابی نتائج ان لوگوں کے لئے یقینا مایوس کن ہیں جو وہاں تبدیلی کی آہٹ محسوس کررہے تھے۔ نتیش کمار کے پندرہ سالہ اقتدار سے اوب چکے لوگوں کو کسی بڑی تبدیلی کی آس تھی اور تمام ہی اگزٹ پول نے نتیش کی رخصتی اور تیجسوی کی آمد کی خوشخبری سنائی تھی۔دس نومبر کی صبح جب کاؤنٹنگ کے رحجانات آنا شروع ہوئے تو اس کی تصدیق بھی ہونے لگی اور عظیم اتحاد(مہاگٹھ بندھن) کے خیموں میں خوشی کی لہر دوڑگئی۔لیکن یہ خوشی دیر پا ثابت نہیں ہوسکی اور جلد ہی رجحانات بدلنا شروع ہوگئے۔ جیتی ہوئی بازی پلٹنے لگی اور این ڈی اے کی واپسی کے امکانات روشن ہونے لگے۔عظیم اتحاد کی کامیابی کی آہٹ کی خبریں دیتے ہوئے جن ٹی وی اینکروں کے چہروں پر ہوائیاں اڑرہی تھیں، وہ اچانک ہوا میں اڑنا شروع ہوگئے۔ بعض ٹی وی چینلوں کے اسٹوڈیوز میں جشن کاایسا ہی ماحول تھا جیسا کہ بی جے پی کے پٹنہ دفترمیں نظر آرہا تھا۔ رات گئے تک تصویر صاف نہیں ہوئی تھی اور عظیم اتحاد کی سیٹوں کو گھٹانے اور این ڈی اے کی سیٹیں بڑھانے کی جدوجہد جاری تھی۔کاؤنٹنگ میں ہیر پھیر کے بھی الزامات لگے ، لیکن آخرکاربازی ان ہی کے ہاتھ لگی جن کی گرفت اقتدارپر سب سے زیادہ مضبوط ہے اور جنھوں نے تمام جمہوری اداروں کو اپنا محکوم بنا رکھا ہے۔اتنا ضرور ہے کہ اس بار نتیش کی طاقت میں کمی واقع ہوئی ہے اور بی جے پی ان پر سوار نظر آتی ہے۔ اس بار مسلمانوں نے جنتادل (یو)کے تمام مسلم امیدواروں کو دھول چٹادی ہے اور ایک بے کردار سیاست داں کو اس کی اصل اوقات بتادی ہے ۔حالانکہ کئی نام نہاد علماء نے مسلمانوں کو نتیش کے خیمہ میں لانے کی جان توڑکوشش کی تھی ، لیکن انھیں بھی منہ کی کھانی پڑی۔
بہار کے انتخابی نتائج نے مسلم حلقوں میں جس موضوع پر سب سے زیادہ بحث و مباحثہ کو جنم دیا  ہے ، وہ دراصل مجلس اتحاد المسلمین کے پانچ امیدواروں کی کامیابی ہے ۔ مجلس کے یہ پانچوں امیدوار مسلم غلبہ والے اس سیمانچل علاقہ سے کامیاب ہوئے ہیں، جو آزادی کے بعدبدترین سیاسی استحصال کا شکار رہا ہے۔یہ علاقہ بہار کے پسماندہ ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے اور یہاں کے عوامی نمائندوں نے یہاں کے بنیادی مسائل پر کوئی توجہ نہیں دی ہے۔یوں تو مجلس کے صدر بیرسٹر اسد الدین اویسی پر تیر اندازی کرنے والے مسلم دانشوروں کی کوئی کمی نہیں رہی ہے ۔یہ لوگ ان پر تنقید کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے لیکن اس بار ان کے تبصروں کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ بہار اسمبلی کی پانچ سیٹوں پر کامیابی حاصل کرکے اویسی نے ایسا کوئی گناہ عظیم کردیا ہے جس کے لئے انھیں سخت سے سخت سزا دی جانی چاہیے ۔
بہت سے لوگوں کی طرح مجھے بھی اویسی اور ان کی سیاست سے ڈھیروں شکایات رہی ہیں ۔میں ان کی سیاست کا مشاہدہ اس وقت سے کررہا ہوں جب سے انھوں نے پارلیمنٹ میں قدم رکھا ہے۔ میری ان سے بیشتر ملاقاتیں بھی پارلیمنٹ کے کوریڈور میں ہی ہوئی ہیں ، جہاں میں گزشتہ 37برسوں سے ایک رپورٹر کے طور پرحاضر ہوتا رہا ہوں۔ مجھے اویسی سے سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے مسائل پراپنی بات اتنے ٹھوس انداز میں کیوں پیش کرتے ہیں اور سیکولر پارٹیوں کے ’ مسلم لیڈران ‘ کی طرح’ آئیں بائیں شائیں ‘کیوں نہیں کرتے ؟ میں نے دیکھا ہے کہ وہ جب پارلیمنٹ میں تقریر کرنے کھڑے ہوتے ہیں تو اکثرفرقہ پرستوں کے خیموں میں ہلچل مچ جایا کرتی ہے اور وہاں سے ان کی آواز خاموش کرنے کی ہرممکن کوشش کی جاتی ہے۔اویسی اکثر ٹی وی مباحثوں میں بھی مسلم نمائندگی کا فریضہ بھرپور انداز میں ادا کرتے  ہیں اور ان زرخرید مولویوں کی طرح مسلمانوں کو رسوا نہیں کرتے جو چند ہزار روپے کے عوض اپنی ملی غیرت اور حمیت کا سودا کرتے پھرتے ہیں۔
میں نے گزشتہ ساڑھے تین دہائیوں سے زیادہ عرصہ میں پارلیمنٹ کے اندر بڑے بڑے مسلم لیڈران کی تقریریں سنی ہیں ۔یہ وہ دور تھا جب پارلیمنٹ کی کارروائی براہ راست ٹیلی کاسٹ نہیں کی جاتی تھی اور اس کا مشاہدہ کرنے کی اجازت صرف اخبار نویسوں کو ہوتی تھی۔ جن مسلم لیڈران کی پرمغز تقریریں مجھے پارلیمنٹ میں سننے کا موقع ملا ہے ، ان میں غلام محمود بنات والا،پروفیسر سیف الدین سوز، ابراہیم سلیمان سیٹھ، سید شہاب الدین اور خود بیرسٹر اویسی کے والد سلطان صلاح الدین اویسی  شامل ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جو بلا خوف وخطر ایوان میں پورے اعتماد اور مضبوط دلائل کے ساتھ اپنا موقف پیش کرتے تھے۔ان کے بعد صرف بیرسٹر اسد الدین اویسی ہی ایسے رکن پارلیمان ہیں جو پوری تیاری کے ساتھ ہاؤس میں بولنے کھڑے ہوتے ہیں اور کسی سیاسی مصلحت اور خوف کے بغیر اپنی بات کہنے کا سلیقہ جانتے ہیں۔ اس صلاحیت کا اعتراف ان کے بدترین مخالفین بھی کرتے ہیں۔بعض سرکردہ انگریزی صحافی بھی ان کی اس صلاحیت کے معترف ہیں۔
اب آئیے تنقیدوں اور لعن طعن کے تازہ سلسلے کا رخ کرتے ہیں، جو بہار اسمبلی کے انتخابی نتائج کے بعداویسی کے خلاف شروع ہوا ہے اور جس کا زورسوشل میڈیا پر بڑھتا ہی چلا جارہاہے۔اویسی پر سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ وہ مسلم ووٹوں میں نقب زنی کرکے بی جے پی جیسی فرقہ پرست جماعت کو فائدہ پہنچاتے ہیں ۔یہی الزام بہار اسمبلی انتخابات میں پانچ سیٹیں حاصل کرنے کے بعد پوری شدت کے ساتھ ان پرلگایا جارہا ہے ۔حالانکہ ان کے ناقدین اس الیکشن میں ایسی ایک بھی سیٹ کا نام نہیں لے پا ئے ہیں جہاں اویسی کی وجہ سے بی جے پی کو کامیا بی ملی ہو۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اویسی کی پارٹی کے لوگوں نے بہار کے انتخابی میدان میں اترنے سے قبل انتخابی اتحاد کے لئے بہار کی ان تمام سرکردہ جماعتوں کے دروازوں پر دستک دی جہاں ’ سیکولرازم‘ کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ ان کی پارٹی یہی چاہتی تھی کہ وہ سیکولر اتحاد کے ساتھ میدان میں اترے تاکہ اس پر بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کا فرسودہ الزام نہ لگ سکے۔ لیکن بیشتر’ سیکولر ‘پارٹیوں نے ان پر ’کمیونل‘ ہونے کا الزام لگاکر ان کی پیشکش کو حقارت سے مسترد کردیا اور انھیں بی ایس پی جیسی چھوٹی جماعتوں سے اتحاد کرناپڑا۔
یہاں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اویسی نے بہت سوچ سمجھ کر صرف 24مسلم حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑے کئے تھے۔ ان میں چار امیدوارو ں کے پرچے خارج ہوگئے اور بیس امیدواروں نے مجلس کے ٹکٹ پر اپنی قسمت آزمائی۔ جن میں پانچ امیدواروں نے اپنی جیت درج کرائی اور یہی اویسی کا سب سے بڑا قصور ہے کہ انھوں نے سیکولر ووٹوں میں’ نقب زنی‘ کیوں کی ۔یہی ان کا سب سے بڑا قصور ہے جس کے لئے ان کی کردار کشی کی مذموم مہم چلائی جارہی ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلم ووٹوں پر صرف اور صرف ان ہی سیکولر پارٹیوں کی اجارہ داری ہے، جنھوں نے آزادی کے بعد مسلمانوں کا بدترین سیاسی استحصال کیا ہے اور وہ آج بھی اپنی اسی روش پر گامزن ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی مسلم جماعت اپنے مضبوط پس منظر کے ساتھ میدان میں اترتی ہے تو ان نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو اپنے وجود کے لئے سب سے بڑاخطرہ نظر آتا ہے۔یہ پارٹیاں مسلمانوں کو ہمیشہ ایک ریوڑ کی طرح ہانکتی رہی ہیں اور انھیں بندھوا مزدور سمجھتی ہیں۔ اگر مسلمان ان استحصال پسند سیا سی جماعتوں سے پیچھا چھڑاکر’ اپنی سیاست ، اپنی قیادت ‘ کا نعرہ بلندکرتے ہیں تو وہ بی جے پی ایجنٹ بن جاتے ہیں۔ حالانکہ بی جے پی کوجتنا فائدہ ان نام نہاد سیکولر جماعتوں نے پہنچایا ہے،اتنا کسی اور نے نہیں پہنچایا۔بہار کے حالیہ چناؤ میں راشٹریہ جنتادل کے کئی مسلم امیدوار اس لئے ہارگئے کہ یادوؤں نے اپنا ووٹ بی جے پی امیدوار کو منتقل کردیا۔ ہارنے والوں میں  سینئر لیڈر عبدالباری صدیقی کا نام بھی شامل ہے۔
یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر مسلمان کب تک ان نام نہاد سیکولر جماعتوں کو اپنے کاندھوں پر ڈھوتے رہیں گے جو ان کے ووٹوں پراقتدار حاصل کرکے اپنی برادریوں کو مضبوط سے مضبوط تر کرتی جارہی ہیں۔المیہ یہ ہے کہ جب کبھی ان جماعتوں کا کوئی مسلم لیڈر مصیبت میں گرفتار ہوتا ہے تو یہ اس سے ایسے ہی منہ پھیر لیتی ہیں جیسا کہ اس وقت سماجودی پارٹی نے اپنے قدآور لیڈر محمداعظم خاں سے پھیر رکھا ہے ۔ وہ اپنی بیوی اور جواں سال بیٹے کے ساتھ مہینوں سے جیل میں سڑ رہے ہیں اور سماجودای پارٹی نے ان کی رہائی کے لئے کوئی موثر مہم نہیں چلائی ہے۔ حالانکہ یہ وہی اعظم خاں ہیں جنھوں نے سماجوادی پارٹی کو مسلمانوں میں مقبول بنا نے کے لئے اپنی پوری زندگی لگادی ہے۔المیہ یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اپنے آپ کو ایسی استحصال پسند طاقتوں کا بندھوا مزدور بننے میں تو فخر محسوس کرتا ہے لیکن وہ خوداعتمادی اور خدا اعتمادی کے ساتھ سیاست کے میدان میں کامیابی حاصل کرنے والے مسلمانوں کو بی جے پی کا ایجنٹ قرار دینے میں ذرا بھی شرم محسوس نہیں کرتا۔ جب تک مسلمان اس سیاسی غلامی سے آزاد نہیں ہوجاتے، اس وقت تک اس ملک میں ان کے مسائل اور مصائب کا حل ممکن نہیں ہے۔نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے بندھوا مزدور بننے سے لاکھ درجہ بہتر خود اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہے۔