Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, November 8, 2020

ٹرمپ ‏کی ‏شکست ‏پر ‏مسلمانوں ‏کا ‏جشن ‏کیوں؟

از /شمس تبریز قاسمی  /صداٸے وقت۔
==============================
زوال پذیر قوم کی ایک علامت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ کسی کی ہار اور کسی کی موت پر جشن مناتی ہے انہیں لگتا ہے اب ہم پر کوئی اور ظلم نہیں کرے گا لیکن آنے والا کل اس بھی زیادہ خطرناک اور اس کی جگہ سنبھالنے والا شخص پہلے سے بڑا ظالم ہوتا ہے۔ اب یہی دیکھیےکہ امریکی صدارتی انتخاب میں ڈونالڈ ٹرمپ کی شکست پر مسلمان جشن‌منارہے ہیں۔ انہیں اس سے مطلب نہیں کہ کہ اگلا صدر کون ہے کیسا ہے اس کی پالیسی کیا ہوگی۔ بس خوشی اس بات کی ہے ٹرمپ کو شکست مل گیی ہے۔ بھارت کے پی ایم نے جس کی حمایت کی تھی وہ ہار گیاہے‌۔ مودی ہمارا دشمن ہے اور اس کا دوست نہیں جیت سکا ہے اس لیے یہ مودی کی شکست ہے۔
یہ نفسیات مسلمانوں کیلئے سب سے زیادہ خطرناک ہے ۔عالمی سیاست کا اگر تجزیہ کیا جائے تو ٹرمپ کی صدارت کا عہد بش اور اوبامہ کے مقابلے میں عالم اسلام کیلئے بہتر ثابت ہوا ہے۔ بش اور اوبامہ نے مشرق وسطی کے کیے ملکوں پر چڑھائی کی۔وہاں کے امن وسکون کو برباد کیا اور ابھی تک وہاں استحکام نہیں آسکا ہے ۔ افغانستان ۔عراق۔ لیبیا۔شام۔یمن۔تیونس یہ سبھی پرامن اور خوشحال ممالک تھے جہاں آج ہر طرف تباہی اور کھنڈرات ہیں۔ ٹرمپ کی پالیسی تشدد پر مبنی تھی انداز جارحانہ تھا لیکن دانستہ یا نادانستہ طور پر عالم اسلام کو پہلے دو صدر کے مقابلے میں اس سے کم نقصان ہوا‌۔ افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی کا فیصلہ۔عراق سے فوجی انخلا کا فیصلہ عالم اسلام کے حق میں جاتا ہے۔اس کے علاوہ اس عہد میں ترکی نے بھی عالمی سیاست میں مداخلت کرلی ۔ اس وقت ترکی کی لیبیا۔ شام۔ عراق۔تیونس اور مصر میں براہ راست مداخلت ہے۔ قطر میں فوجی اڈہ ہے‌۔ مشرقی بحیرہ روم میں یونان اور فرانس کی دھمکیوں اور شدید اعترضات کے باوجود ترکی گیس اور تیل کی دریافت کے منصوبوں پر کام کررہا ہے۔آرمینیا اور آذربائیجان کی جنگ میں ترکی واحد ملک ہے جس نے کھل کر آذربائیجان کو سپورٹ کیا ہے‌۔
ٹرمپ نے کچھ مسلم ممالک پر پابندیاں لگائی۔ مسلمانوں کے خلاف سب سے بڑا فیصلہ یہ لیا کہ اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کردیا اور سنچری ڈیل پیش کرکے کہاکہ بیت المقدس اسرائیل کا حق ہے۔
امریکہ کا سیاسی نظام یہاں کے مقابلے میں کچھ مختلف ہے۔وہاں یہودی لابی کا غلبہ ہے‌۔ عالمی سیاست میں کسی بھی صدر کی ناکامی کو برداشت نہیں کیا جاتا ہے۔یہ امید مت رکھییے کہ آنے والا صدر عالم اسلام کے حق میں ٹرمپ سے اچھا ہوگا‌۔بلکہ اس کی پالیسی اس سے بھی  زیادہ خطرناک ہوسکتی ہے۔ جس طرح اوبامہ کی جیت پر مسلمانوں نے جشن منایا کہ یہ مسلمانوں کا مسیحا ثابت ہوں گے لیکن انہوں نے پہلے اسلام کو پرامن مذہب کہا اور اس کے بعد پورے مشرق وسطی کو تباہی کی آگ میں جھونک دیا۔ لیبیا۔ یمن اور تیونس جیسے خوشحال ممالک کو تباہ کر دیا۔شام کو خانہ جنگی میں جھونک دیا۔نریندرمودی نے جس طرح ٹرمپ کو چاہے پلایا ہے اسی طرح بایڈن کو بھی اپنے ہاتھوں سے پلاییں گے‌۔نمستے ٹرمپ کی جگہ اب ویلکم جوباییڈن کا انعقاد ہوگا۔ دوستی امریکہ اور بھارت کی ہے ٹرمپ اور مودی کی نہیں۔
بھارت میں ہی دیکھ لیجیے مسلمانوں کا ماننا تھا کہ اڈوانی سے خطرناک کویی اور نہیں ہوسکتا ہے پھر نریندر مودی کا چہرہ سامنے آیا تو لگا کہ اڈوانی صحیح تھا مودی خطرناک ہے۔اب لگ رہا ہےکہ مودی بھی کسی حد تک درست ہے امت شاہ خطرناک ہے اس کے بعد اب لوگ کہہ رہے ہیں کو یوگی سے اصل خطرہ ہے‌۔
یہ سب دراصل نفسیاتی خوف کا نتیجہ ہے۔پالیسی اور تنظیم اصل ہے چہرہ نہیں۔ میرا خیال ہے کسی کی ہار اور کسی کی موت ہمارے مسلے کا حل نہیں ہےاور ایسی چیزوں پر جشن منانا سراسر حماقت ہے۔
عالم اسلام کی 1400 سالہ تاریخ میں  مسلمانوں نے ہی اس دنیا پر حکومت کی ہے اور وہی سب لمبے عرصے تک سپر پاور رہے ہیں۔ کبھی خلافت راشدہ کی شکل میں۔ کبھی خلافت بنو امیہ کی شکل میں۔ کبھی خلافت عباسیہ کی شکل میں اور کبھی خلافت عثمانیہ کی شکل میں‌۔آدھے سے زیادہ یورپ پر مسلمانوں کی حکومت تھی۔فرانس کے حکمران کا فیصلہ قسطنطنیہ کے توپ کاپی محل سے ہوتا تھا۔ امریکہ ان ممالک میں شامل ہے جس نے خلافت عثمانیہ کو برسوں تک ٹیکس ادا کیاہے۔
شمس تبریز قاسمی