Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, November 13, 2020

بہار ‏الیکشن۔۔مہارت ‏گٹبندھن ‏کے ‏مسلم ‏امیدوار ‏کو ‏ہندو ‏ووٹ ‏کتنے ‏فیصد ‏؟۔۔۔۔۔۔۔ایک ‏تجزیہ

از/ڈاکٹر سکندر علی اصلاحی /صداٸے وقت۔
==============================
بھارت بالخصوص شمالی ہند میں صورتحال یہ ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں چاہتی ہیں کہ انہیں مسلمانوں کا ووٹ ملتا رہے لیکن اس کے بدلے میں انہیں کچھ دینا نہ پڑے ۔چند مسلمانوں کو بمشکل الیکشن لڑنے کے لیے ٹکٹ دیا جاتا ہے مگر اس کے بعد بھی انہیں نظر انداز کیا جاتا ہے ۔پارٹیاں خود چاہتی ہیں کہ مسلمان کنڈیڈیٹ کامیاب نہ ہونے پاے ۔
دوسری جانب ہندو ووٹرس کا ذہن فرقہ پرستی کے زہر سے اس قدر بھر دیا گیا ہے کہ وہ مسلمان کو کسی صورت ووٹ دینے کو تیار نہیں ہے ۔خواہ مسلم امیدوار ان کی پارٹی ہی کا کیوں نہ ہو ۔
چنانچہ آپ جایزہ لیں اور دیکھیں کہ بہار میں مہا گٹبندھن  کے مسلم امیدواروں کو کتنے فیصد ہندو ووٹ حاصل ہوے ہیں۔ بیشتر مسلم امیدوار کے ہارنے کی وجہ یہی نظر آرہی ہے کہ ہندو ووٹرس اور یادو برادری نے بھی مسلم امیدوار کو ووٹ نہ دے کر بی جے پی کو ووٹ دیا ہے ۔ یہی صورت حال اترپردیش میں بھی رہی تھی کہ یادو سماج نے اپنی پارٹی کے مسلم امیدوار کو ووٹ نہ دے کر بی جے پی کو ووٹ دیا ۔ یہ عام صورتحال ہے ۔
اسد الدین اویسی کی پارٹی مجلس اتحاد المسلمین کے پانچ امیدوار کامیاب ہوگیے تو تمام پارٹیوں کی نیند حرام ہوگیی اور الزام دیا جارہاہے کہ اس کی وجہ سے مہاگٹھ بندھن کی سیٹیں کم ہوگئیں ۔دوسری پارٹی نے کس کو کتنا نقصان پہنچا یا اس پر غور نہیں کریں گے ۔کیوں کہ سب ہندو پارٹی ہیں ۔مگر مسلم پارٹی  جو بیشتر مسلم ووٹوں ہی سے کامیاب ہوے ہیں وہ بھی انہیں برداشت نہیں ہے ۔ اترپردیش میں ڈاکٹر ایوب کی پارٹی کے ساتھ یہی معاملہ رہا۔
بات اس پر ہونی چاہئے کہ
1۔ آبادی کے تناسب سے اسمبلی اور پارلیمنٹ اور دیگر تمام اداروں ہر کمیونٹی کا حصہ ہونا چاہئے ۔پنڈت اپنی آبادی سے کیی گنا زیادہ تمام اداروں میں ہیں ۔ہندو دلتوں کو بھی ان کی آبادی کے تناسب سے حصہ ملنا چاہیے مگر مسلمانوں کو بھی تو ان کا جائز حق ملنا چاہیے ۔جس کے لیے کوی تیار نہیں ہے ۔
2  اس پر بات کیجیےُ کہ کویی بھی امیدوار کامیاب ہونے کے بعد پارٹی چھوڑ کر کسی دوسری پارٹی میں نہیں جا سکتا۔اور اگر جاتا ہے تو اس کی اسمبلی رکنیت خود بخود ختم ہو جائے گی ۔یہ تو ووٹرس کے ساتھ مذاق ہے ۔ ان کو دھوکا دینا ہوا کہ انہوں نے ووٹ نتیش کمار اور کی پارٹی کی دیا اور وہ پوری  پارٹی کے ساتھ بی جے پی سے جا ملے ۔ووٹرس منہ دیکھتے رہ گیے ۔۔اس پر قانون بناییے ۔
3.  ای وی ایم مشینوں کا بایکاٹ پہلے سے کیجیےُ ۔یہ کیا بات ہویی کہ جیت گیے تو سب کچھ ٹھیک ہے اور ہار گئے تو مشین میں گھپلہ ہوا ہے ۔

مسلمانوں کو غور وفکر کرنے اور نیی راہیں تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔ملکی سطح پر ڈبیٹ کرنے اور الیکشنی سیاست کی خرابیوں کی اصلاح کیسے ہو اور کیا کیا گوشے ہیں جن کی اصلاح کی ضرورت ہے ۔ مسلمانوں کو ملک کے نظام میں فٹ ہونے اور اس کا حصہ بننے کی فکر کرنے کے بجائے نظام اور سسٹم کو درست کرنے اور درست رکھنے کی فکر کرنی چاہئے ۔
اس نظام اور طرز حکومت کی خرابیوں کے علاجِ پر بات کیجیےُ ۔ورنہ موجودہ جمہوری نظام جو سروں کو شمار کرتا ہے اس میں اقلیت ہمیشہ ناکام رہے گی ۔۔
جہاں سے مسلم امیدوار اپنے بل پر جیت رہے ہیں اس سیٹ کو اوبی سی  یا خواتین کے لیے محفوظ کردیں گے یا حلقے کو اس طرح تقسیم کر دیں گے کہ آبادی کا تناسب بگڑ جاے ۔اسدالدین اویسی اگر اترپردیش میں ہوتے تو ان کا حال وہی ہوتا جو اعظم خان اور ڈاکٹر ایوب وغیرہ کا ہوا ۔ کویی بھی موقع ملا تو تلنگانہ میں بھی ایسا ہوسکتا ہے ۔اسدالدین اویسی کو بھی اس پر سوچنا چاہیے کہ وہ اپنے انداز سے فرقہ پرستوں کو تقویت تو نہیں پہنچا رہے ہیں ؟
ڈاکٹر سکندر علی اصلاحی