Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, November 9, 2020

اردو ‏میں ‏قصہ ‏نگاری ‏کی ‏روایت ‏۔۔۔۔اسلامی ‏ادب ‏کے ‏حوالے ‏سے۔

عالمی یوم اردو کے موقع پر خصوصی مضمون۔
از/ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
==============================
                  صداٸے وقت 
               .....................
انسان بنیادی طور پر قصہ گو واقع ہوا ہے ۔ زمانۂ قدیم میںدن بھر کی معاشی جد و جہد کے بعد تھکا ہارا انسان جب اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھتا تو دن بھر کے واقعات مزے لے لے کر سناتا اور دوسروں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا لیتا ۔اس طرح قصہ گو کی نفسیات کو تسکین ملتی اور سامعین بھی جب مجلس سے اٹھتے تو دن بھر کی تکان بھول جاتے ۔دھیرے دھیرے قصہ گوئی نے ایک فن کی حیثیت حاصل کر لی ، اور شعراء کے اشعار کی طرح قصہ نے بھی جغرافیائی حدوں کو توڑ کر ملکوں ملکوں کا سفر کیا اور سینہ بسینہ نسلاً بعد نسلٍ منتقل ہوتی چلی گئی ،ہمارے گھروں میں دادی ماں اور نانی ماں کے ذریعہ یہ قصے ہم تک پہنچے ،جدیدذرائع ابلاغ نے گو قصہ گوئی اور قصوں کی سماعت کی روایت کو سخت نقصان پہنچایا ہے ۔لیکن آج بھی وہ دیہات جہاں صنعتی انقلاب نے اپنے پائوں نہیں پھیلائے ہیں اور وہ علاقے جو بجلی کی سہولیات سے آج بھی محروم ہیں وہاں برگد کے پیڑ کے نیچے چوپال لگتی ہے اور بچے دادی ماں سے قصہ سنانے کی ضدکیاکرتے ہیں، اس طرح دیکھا جائے تو قصہ گوئی نئی چیز نہیں ہے۔علی عباس حسینی نے لکھا ہے:
 ’’ قصہ کی ابتدا ء وہیں سے ہوتی ہے جب ابن آدم مدنیت وعمرانیت کے پہلے زینہ پر ملتا ہے....وہ دس دس بیس بیس کی ٹولیوں میں ایک ساتھ رہتا ہے ، و ہ پیٹ بھرنے کے لئے اپنے سے کمزور جانوروں کا شکار کرتا ہے اور شام کو الائو کے گرد بیٹھ کر ایک دوسرے سے دن کے واقعات ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں بیان کرتا ہے ، جہاں الفاظ کا سرمایہ کم پڑتا ہے وہ مسرت و غم ، فتح و شکست ، خوف و تہور کے جذبات کو حرکات سے ظاہر کرتا ہے ۔‘‘(ناول کی تاریخ اور تنقید ص۳)
زمانۂ قدیم میں قصہ کے موضوعات غیر معمولی واقعات ، خونیں حادثات ، جنگ کے احوال ، دہشت و ہیبت ،اسرار و رموز، افسون اور بھوت پریت کے قصے ،پریوں کے افسانے ، عورت اور عشق نیز جانوروں کے احوال ہوا کرتے تھے، ہندوستان کے قدیم قصوں کو دیکھیں تو ان کے موضوعات بھی یہی کچھ ہیں۔
پھر قصہ گو کے قصے محفوظ ہو جائیں اس کے لئے انہیں ڈائری ، روزنامچے وغیرہ میں محفوظ کیا جانے لگا تاکہ مرور زمانہ سے یہ قصے ناپید نہ ہو جائیںاور آنے والی نسل کے لئے تاریخی اور واقعاتی طور پر اسے محفوظ رکھا جا سکے ۔ اس احساس نے قصہ نگاری کے فن کو رواج بخشا، شروع میں یہ قصے انتہائی سادہ ہوتے تھے ، ان میں واقعاتی تسلسل ہوتا تھا ، صنعت و استعارہ ، فصاحت و بلاغت سے خالی یہ قصے دل سے نکلتے اور دل تک پہنچتے تھے۔
سب سے پہلا قصہ جو اس روئے زمین پر وجود میں آیا وہ اس پہلے انسان کا قصہ ہے جسے قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے ۔ پھر کار جہاں دراز ہوتا گیا، ابلیسی طاقتوں نے جب جب سر اٹھایا انبیاء کرام بھیجے گئے اور ان کی حیات مبارکہ کو قرآن میں ذکر کیا گیا ۔اس صنف کی پاکیزگی کا اندازہ اس سے لگایاجا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کے قصہ کو احسن القصص کہا اور قصہ گوئی کی نسبت اپنی ذات کی طرف کیا۔
 ارشاد ربانی ہے ’’نحن نقص علیک احسن القصص بما اوحینا الیک ھٰذا القرآن و ان کنت من قبلہ لمن الغٰفلین‘‘(یوسف ۳:۱۲)  (ہم اس قرآن کے ذریعہ سے جو ہم نے تمہاری طرف بھیجا ہے ایک نہایت اچھا قصہ(واقعہ ) سناتے ہیں اور تم اس سے پہلے بے خبر تھے)،منہم من قصصناعلیک و رسلاً قد قصصنا علیک من قبل(النساء)، تلک القری نقص علیک من انباء ھا(الاعراف۱۰۱:۷)، کلاً نقص علیک من انباء الرسل(ہود ۱۲۰:۱۱)،نحن نقص علیک نبأہم بالحق(الکہف ۱۳:۱۸) کذالک نقص علیک من انباء ماقد سبق(طٰہٰ۹۹:۲۰)، ذالک من انباء القری نقصہ علیک (الانعام ۱۰۰ :۶) جیسی آ یات اس حقیقت کو واضح کرنے کے لئے کافی ہیں ، ان قصوں کے موضوعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مولا نا حفظ الرحمن سیوہاروی ؒ نے بجا طور پر لکھا ہے کہ :
’’ قرآن مجید کے قصص و واقعات کا سلسلہ بیش تر گذشتہ امتوں اور ان کی جانب بھیجے ہوئے پیغمبروں سے وابستہ ہے اور جستہ جستہ بعض واقعات بھی اس ضمن میں آگئے ہیں اور یہ تمام تر حق و باطل کے مجادلوںاور اولیاء اللہ اور اولیاء شیطان کے معرکوں کا ایک عبرت آموز اور بصیرت خیز وبے مثل ذخیرہ ہے۔‘‘(قصص القرآن ص ۸)
یہاں ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ قرآن کریم میں جو قصے مذکور ہیں وہ صرف عبرت حاصل کرنے کے لئے ہیں ، اسی لئے قرآن کریم کے قصص میں واقعاتی اور تاریخی تسلسل ملحوظ نہیں رکھا گیا ہے ،بلکہ جتنے حصے کی ضرورت جہاں سمجھی گئی ،ذکر کیا گیا،اعادہ کی ضرورت ہوئی تو مکرر ذکر کیا۔ حضرت مفتی شفیع صاحب ؒ لکھتے ہیں: 
اسی لئے ان قصوں کے بیان میں واقعاتی ترتیب کی رعایت نہیں کی گئی ، بعض جگہ قصہ کا ابتدائی حصہ بعد میں اور آخری حصہ پہلے ذکر کر دیا گیا، اس خاص اسلوب قرآنی میں یہ مستقل ہدایت ہے کہ دنیا کی تاریخ اور اس کے گذشتہ واقعات کا پڑھنا ، یاد رکھنا خود کوئی مقصد نہیں بلکہ انسان کا مقصد ہر قصہ و خبر سے کوئی عبرت و نصیحت حاصل کرنا ہونا چاہئے۔‘‘(معارف القرآن ج۵ ص ۱۶)
قرآن کریم میں واضح طور پر اللہ تعالیٰ نے قصہ کا مقصدعبرت کا حصول قرار دیا ، ارشاد فرمایا: لقد کان فی قصصہم عبرۃً لاولی الالباب(یوسف۱۱۱:۱۲)غوروفکر نیز عبرت و موعظت کے بنیادی مقصد کے حصول کے لئے ہی اللہ تعالیٰ نے قصہ بیان کرنے کا حکم دیا اور فرمایا: فاقصص القصص لعلہم یتفکرون(الاعراف۱۷۶:۷)
یہیں سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ اسلام میں قصہ نگاری کی اہمیت محض اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لئے ہے ، ایسے قصے جن کی وجہ سے انسان کے اندر خود شناسی اور خدا شناسی پیدا ہو سکے ، عبرت و موعظت کے لئے مفید ہو اور انسان کو اعلیٰ اخلاقی قدروں سے روشناس کرا سکے ، اسلام اس کو پسند کرتا ہے بلکہ کہنا چاہئے کہ اسی نے اس کی طرح ڈالی ہے۔ مقصد کے حصول کے لئے قصہ میں جس ہیئت کا سہارا لیا جاتا ہے، ان کی حیثیت ثانوی ہے، قصہ سے اگر مقصد یت فوت ہو جائے تو یہ صرف وقت گذاری بلکہ وقت کی بربادی کا ذریعہ رہ جا تا ہے لکھنے والوں کے لئے بھی اور پڑھنے والوں کے لئے بھی ۔منشی پریم چند نے بجا لکھا ہے کہ:
’’ ادیب کا کام صرف قارئین کا دل بہلانا نہیں ہے ، یہ تو بھانٹوں ، مداریوں اور مسخروں کاکام ہے ، ادیب کا منصب اس سے کہیں اونچا ہے، وہ ہمارا رہنما ہوتا ہے، وہ ہماری انسانیت کو جگا تا ہے ، ہم میں نیک خوا ہشات جاری کرتا ہے ، ہماری نظر میں وسعت دیتا ہے، کم سے کم اس کا یہی مقصدہونا چاہئے۔‘‘
قصہ نگاری کا یہ فن جب اور ترقی پذیر ہواتو واقعات کی نگارش میں قصہ نگار کے اپنے خیالات و نظریات ، سماجی و سیاسی حالات کا ذکر بھی ہونے لگا۔اور دھیرے دھیرے اسلام کے مطلوبہ مقاصد سے انحراف ا ورصرف نظر کیا جانے لگا۔اس طرح قصہ نگاری کاتخلیقی عمل قصہ نگار کے ذہن و مزاج کے ساتھ بدلتا چلا گیا ، زمان و مکان کی تبدیلیاں بھی اس پر اثر انداز ہونے لگیں اور قصہ نگاری امکانا ت و تجربات کے مراحل سے گذرنے لگی، موضوعاتی تنوع کی وجہ سے ان کے الگ الگ نام رکھے جانے لگے ، معاشی و سماجی حالات جس قدر سنجیدہ اور مرکب ہوتے گئے قصہ نگاری کی ہئیت و ماہیت میں گہرائی اور گیرائی آتی چلی گئی،لیکن اسے کئی طرح کے تضاد ، تصادم اور تذبذب سے دو چار ہونا پڑا، لیکن اس کا بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اس فن میں قوت نمو بڑھی اور یہ فن ارتقا کے منازل طے کرتا چلا گیا۔ ان سب کے باوجوداس کاقصہ پن باقی رہا ، قصہ پن نہ ہو تو تخلیق کو قصہ قرار ہی نہیں دیا جا سکتا۔
تجربے اور ماہیاتی کشمکش سے گذرتی قصہ نگاری نے آگے چل کر داستان کا روپ لے لیا اور انسانی نفسیات کی تسکین اور احساس برتری کو تقویت دینے کے لئے ان میں مافوق الفطرت اور دیو مالائی کرداروں کو وجود بخشا گیا اور محیر العقول کا رناموں کے ذکر سے قصہ کو بو جھل بنانے کی کو شش کی گئی ۔ ایسے قصوں میںداستان امیر حمزہ ، طلسم ہو ش ربا، فسانۂ عجائب، وغیرہ کو مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے،ان داستانوں میں فرضی قصے ، حسن و عشق اور وصل و ہجر کے تذکرے اس انداز میں کیے گئے ہیں کہ قاری تمام کرداروں کی حرکات و سکنات کو اسی پس منظر میں دیکھتا ہے، اور قصہ سے بندھا رہتا ہے ، اس کی دلچسپی قائم رہتی ہے ، واقعہ نگاری میں رنگ آمیزی ، اسلوب کی چاشنی ، کرداروں کی سنجیدگی اور اس کے ساتھ مبالغہ آمیزی اور مضحکہ خیزی کا عجیب و غریب انداز قاری پر جادوئی اثر کرتا ہے ۔ اس کی وجہ سے بیش تر داستانوںکی عبارت میں آمد نہیں آورد اور برجستگی نہیں تصنع کا بول بالا نظر آتا ہے۔
ڈپٹی نذیر احمد اور خواجہ الطاف حسین حالی نے قصہ نگاری کو داستانی دور سے باہر نکالنے کا بڑا کام کیا انہوں نے قصہ نگاری سے معاشرہ کی اصلاح کا کام لیا، خواجہ الطاف حسین حالی کی’’ مجالس النساء‘‘ نے اس باب میں شہرت پائی، ۱۸۷۴ءمیں’’مجالس النساء ‘‘کی تالیف ہوئی ، ڈپٹی نذیر احمد نے مرأۃ العروس ، ابن الوقت ، توبۃ النصوح لکھ کر قصہ نگاری کو کام کی چیزبنا دیا اور شاید پہلی باراردو میں کسی قصہ نگار نے محض حظ نفس کے بجائے قصہ نگاری کو مکارم اخلاق کے حصول اور گناہوں سے ندامت اور شرمندگی کے لئے استعمال کیا ، ان کتابوںمیں زندگی کی ٹھوس حقیقتیں اچھلتی کودتی اور مچلتی نظر آتی ہیں ،ا سی وجہ سے ان نقادوں نے جو ادب برائے ادب کے قائل ہیںان کتابوں پر سخت تنقید کی ہے اور لکھا ہے:
’’ نذیر احمد کے ابتدائی دوقصوں میں واقعات کے ربط ، تسلسل اور ارتفا کا احساس سرے سے ناپید ہے ،ا ن واقعات کی منطق فنکار کی منطق ہونے کے بجائے واعظ، مصلح اور کہیں کہیں مولوی کی منطق ہے۔‘‘(داستان سے افسانے تک ص۶۲)
اس کے باوجود واقعہ یہ ہے کہ ان قصوں نے پہلی بار یہ احساس دلایا کہ معاشرہ کے مسائل قصے میں ایسے مؤثراور دلنشیں انداز میں پیش کئے جا سکتے ہیں جن میں ادب کی چاشنی کے ساتھ معاشرتی زندگی کے مسائل کی مصوری اور ایک خاص قسم کی فکر، اصلاحی ، مذہبی اور تبلیغی جذبے کے ساتھ لوگوں تک پہنچائی جائے۔ان قصوں کو پڑھ کر پہلی بار یہ احساس ہوتا ہے کہ اخلاق حسنہ ، سیدھے سادے اور سچے کردار کے ذریعہ بھی قصہ نگاری کی جاسکتی ہے۔
قصہ نگاری کا جو فن ان دونوں کے یہاں ملتا ہے اس میں کمی اور خامیاں چاہے جتنی نکا لی جائیں، واقعہ یہ ہے کہ یہ قصے ہی اردو ناولوں کے لئے اساس اور بنیاد بنے۔اور چونکہ فن ترقی پذیر ہوتا ہے ، اس میں نامیت ہوتی ہے اس لئے یہ قصے ناول بن کرہمارے سامنے آئے۔ بعد کے دنوں میںصادقؔ سردھونوی، نسیم حجازی وغیرہ نے اپنے ناولوں میں اسلامی تاریخ کوقصہ نگاری میںزیب داستان کے لئے بڑھا چڑھا کراستعمال کیا، اور تاریخی ناول نگاری میں نمایاں اور ممتاز مقام حاصل کیا، سماجی اور معاشرتی مسائل کو اٹھانے میں خدیجہ ؔمستور، صالحہ عابد حسین کی قصہ نگاری نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے ، ایم اسلم ، قیس رام پوری اور رئیس جعفری کا بھی قصہ نگاری میں اہم مقام رہا ہے ۔راشد الخیری ، محمد علی طیب کے قصے بھی ہمارے ادبی سرمایہ میں اضافہ ہیں اور بڑی حد تک ادب اسلامی سے قریب تر ہیں۔
صنعتی انقلاب اور معاشرتی تگ و دو نے انسانوں کو اتنا مصروف کر دیا ہے کہ اب اس کے پاس طلسم ہوش ربا ، داستان الف لیلہ،فسانۂ آزاد اور ضخیم ناولوں کے پڑھنے کا وقت گھٹتا جا رہا ہے ، وہ مسلسل بھا گ رہا ہے، اس کے پاس بیوی بچوں کو دینے کے لئے بھی وقت نہیں ہے ، ایسے میں مختصر قصہ نگاری نے عروج پایا، جسے ہم افسانے کے نام سے جانتے ہیں ۔ پریم چند نے اسے زمینی حقائق سے جوڑا اور موضوعاتی اعتبار سے اسے انسانوں کے کام کا بنا دیا۔ یہ روایت آگے بڑھتی چلی گئی، پھر جدیدیت کا دور آیا اور علامتی قصے لکھے جانے لگے ایمائیت اور رمزیت کی وجہ سے قاری اور قصہ کا رشتہ کمزور ہوتا چلا گیا، ترقی پسندوں نے اسے معاشی مسائل سے جوڑا جس کی وجہ سے دوسرے بہت سارے مسائل پس پشت چلے گئے، اور اب ہم مابعد جدیدیت کے جس دور سے گذر رہے ہیں اس میں قصہ بڑی تیزی سے اپنی پرانی روش پر آتا چلا جا رہا ہے۔ اور یہ فن اب ارتفاء کی اس منزل تک پہنچ گیا ہے جہاںاس میں قصہ پن بھی ہے اور ادبی رکھ رکھائو بھی۔ممتاز مفتی، احمد ندیم قاسمی وغیرہ کے افسانوں میں صالح اسلامی قدروں  پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔
بہار میں مختصر قصہ نگاری کا فن ہر دور میں عروج پر رہا ہے ، ہم فہرست سازی کر کے اسے طول دینا نہیں چاہتے ، عصر حاضر میں شفیع مشہدی ، شوکت حیات اور عبید قمر کا خاص طور پر نام لینا چاہوں گا، یہ حضرات اسلا می ادب کا پروپیگنڈہ نہیں کرتے ، خاموشی کے ساتھ ان موضوعات پر قصہ لکھتے ہیں جو اسلامی اقدار اور مکارم اخلاق کے مطابق ہیں۔
ہمارے بعض قصہ نگاروں نے مختصر ترین قصہ نگاری کے فن کو رواج دیاجن میں قصہ کے اجزاء ترکیبی تو پورے طور پر پائے جاتے ہیں لیکن وہ قصہ سے زیادہ لطیفہ معلوم ہوتے ہیں۔جیسے :
’’ دو گدھ نے ایک مردار کو دیکھا ، ایک نے دوسرے سے کہا چلو ! اپنے دوستوں کو بلا کر لاتے ہیں سب مل بانٹ کرکھائیں گے ۔دوسرے نے کہا مت بلائو!ہم دونوں دیر تک اس سے فائدہ اٹھائیں گے، پہلے گدھ نے کہا لگتا ہے یار تو بھی انسان ہو گیا۔‘‘
اس میں قصہ پن بھی ہے ،مکالمہ بھی ہے اور کلائمکس بھی صرف اس کے اختصار نے اسے لطیفہ بنا دیاہے۔قصہ کا یہ رنگ و روپ تیزی سے فروغ پا رہا ہے اور افسانچے کے عنوان سے جانا جاتا ہے۔
تحریک ادب اسلامی نے قصوں کو مقصدیت کے اعتبار سے نئی جہت اور نئی بلندیوں سے روشناس کرایا ، مائلؔ خیرآبادی ، طالبؔ ہاشمی، ابن فریدؔ وغیرہ کے قصے ہمارے ادب کا بیش قیمت اثاثہ ہیں ، جن کے ذریعہ سماج میں اعلیٰ اخلاقی قدروں کو فروغ ملا اور ادب اسلامی کی اہمیت کو لوگوں نے سمجھا۔ عامرؔعثمانی نے مزاحیہ قصہ نگاری کو عروج بخشا، ’’مسجد سے میخانے تک ‘‘ کے طویل سلسلے میں طنز و مزاح کی چاشنی کے ساتھ قصہ کا فن پورے آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے، یہی وجہ ہے کہ قاری مطالعہ شروع کرنے کے بعد اسے ختم کئے بغیر نہیں رکھ سکتا۔
قصہ نگاری کا ایک بڑا حصہ نظموں اور مثنویوں کے ذریعہ ہم تک پہنچا ہے ، اس سلسلہ میں اسماعیل میرٹھی کی نظموں کا خاص طور پر ذکر کیا جا سکتا ہے جن میں قصہ اور حکایات کی شکل میں اخلاق حسنہ کی تبلیغ کی گئی ہے۔یہاں میں شاہنامہ اسلام کا خاص طور پر ذکر کر نا چاہوں گا ،جس میں اسلامی تاریخ اور وقائع کو نظم کیا گیا ہے ۔عربی اور فارسی قصوں سے ترجمہ کا کام بھی اردو ادب میں نمایا ں رہا ہے ، قرآنی قصوں پر بھی اردو میں بڑا کام ہوا ہے ،ا س سلسلے میں مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کی قصص القرآن کو ممتا ز مقام حاصل ہے، اخلاق محسنی، اخلاق جلالی، کلیلہ و دمنہ، گلستاں و بوستاں کے قصے اردو نثر و نظم میں کثر ت سے منقول ہیں اور مستقل کتابیں ان پر وجود میں آچکی ہیں، یہ کتابیں مقاصد کی ترسیل میں معاون ہونے کی حیثیت سے بہت اہم ہیں اور کردار سازی کے لئے انتہائی مفید بھی۔
مختصر یہ کہ اردو میں قصہ نگاری کا فن مختلف مراحل سے گذر کر ارتقا کی آخری منزل پر ہے ، ضرورت ہے کہ موضوع کے اعتبار سے ان قصوں کو عوامی اور قاری سے قریب کرنے کی کوشش کی جائے ، واقعہ یہ ہے کہ اردو قصوں کا قاری دن بدن الکٹرونک میڈیا کی وسعتوں میں کھوتا چلا جا رہا ہے، پھر سے اس کی تلاش اور اس فن سے عوام و خواص کو جوڑنے کی کوشش کرنی چاہئے، ایک معاملہ قصوں کے موضوعات کا ہے ،گلوبلائزیشن کے اس دور میں ساری دنیا کے مسائل و مشکلات ، مصائب و پریشانیاں، واقعات و حالات ، حوادثات و معاملات ہمارے اپنے ہو گئے ہیں اور ہمارا قاری اس تلاش میں ہے کہ آج کا قصہ نگار کس طرح ان وسعتوں کو اپنے قصے میں سمیٹتا ہے اور یہ کا م آسان نہیں ہے۔