Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, November 26, 2020

تین ‏لڑکیاں۔۔۔۔۔۔۔مسلم ‏معاشرے ‏کی ‏ایک ‏تصویر۔۔۔سبق ‏آموز ‏تحریر ‏



از / اختر سلطان اصلاحی/صداٸے وقت۔
              اختر سلطان اصلاحی۔
==============================
یہ انیس اگست 2018 کی بات ہے, میں بھیونڈی سے وسئی کے لیئےروانہ ہوا۔
یہ سفر بذریعہ ٹرین ہورہا تھا۔
دس بج کراڑتیس منٹ کی پنویل وسئی گاڑی میں کافی بھیڑ تھی۔
بیٹھنے کی کوئی جگہ نہ تھی۔بہت سے مسافر کھڑے تھے۔میں بھی ایک کنارے دروازے کے پاس کھڑا ہوگیا۔
دوسری بوگی سے تین لڑکیاں جو نقاب پہنے ہوے تھیں آئیں اور میرے قریب کھڑی ہوگئیں۔ان کے پیچھے  تین چار لڑکے بھی آے۔لڑکے شائد ان کے کلاس فیلو یادوست رہے ہوں گے۔
اب زمانہ بہت بدل چکا ہے. پہلے تو یہ سوچا بھی نہ جا سکتا تھا مگر اب بہت سی مسلم لڑکیوں کے دوست بھی لڑکے  ہوتے ہیں۔
پھر مسلم لڑکے ہی کیوں، کچھ لڑکیاں تو غیر مسلم لڑکوں سے بھی دوستی کر لیتی ہیں اور کچھ تو اللہ معاف کرے ان سے شادی بیاہ کے رشتے بھی قائم کر لیتی ہیں. 
لوجہاد کے مفروضے پر تو بڑا بوال ہے مگر اس سے بڑا مسئلہ تو یہ آوارگی ہے کہ کتنے ہی غیر مسلم گھروں میں اب مسلمان لڑکیاں بیوی اور بہو کی شکل میں موجود ہیں. 
        تین لڑکیاں۔۔۔علامتی تصویر۔۔فوٹو۔۔سوشل میڈیا۔

خیر بات ہورہی تھی تین لڑکیوں کی، تینوں لڑکیوں کے چہرے کھلے ہوے تھے۔نہ معلوم کہ وہ گھر سے ہی چہرہ کھولے نکلی تھیں یا پھر انھوں نے ٹرین میں سوار ہونے کے بعد چہرہ کھولا تھا۔؟
نہ جانے  ان کے گھروالوں کو ان کے پردے کا حال معلوم تھا یا نہیں؟
اب تو اچھے خاصے دیندار گھرانوں کو بھی علم نہیں ہے کہ ان کی بیٹیاں باہر نکل کر کیا کیا گل کھلا رہی ہیں؟
تینوں لڑکیان اچھے خاصے میک اپ میں تھیں ۔دو نے تو بہت شوخ لپ اسٹک بھی لگا رکھی تھی۔اب یا تو ان کے والدین بہت ماڈرن ہوں گے جو لڑکیوں کے اس طرح رہنے کو فیشن اور ترقی سمجھتے ہوں گے؟
یا انھوں نے گھر سے نکلنے کے بعد راستے میں کہیں بیٹھ کر میک اپ کرلیا تھا؟
ان کی حرکتوں سے لگتا تھا کہ یہ  لڑکیاں بہت گئے گزرے گھرانوں کی ہوں گی جن کے یہاں پشتہا پشت سے پردے  یا دوسری اسلامی قدروں  کا کوئی تصور نہ رہا ہوگا۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ شریف گھرانوں کی بیٹیاں ہوں. جنھوں نے یہ سب موبائل اور اپنی سہیلیوں سے سیکھا ہو؟
نقاب ڈالنے کا یہ بھی ایک فائدہ ہوتا ہے کہ سب ایک جیسی ہوجاتی ہیں. کوئی پتہ نہیں لگا سکتا کہ ان کا تعلق کس طبقے سے ہے؟ 
ان کی اوٹ پٹانگ حرکتیں مستقل جاری تھیں۔وہ ہر خوف اور ہر بدنامی سے بے نیاز تھیں۔
ان میں سے ایک کا نام مریم تھا۔اس کی سہیلیاں اس کو اسی کے نام سے پکارتی تھیں.
ہوسکتا ہے یہ اس کا ٹوکن نام ہو؟
نہ جانے اس کے والدین نے کیا سوچ کر مریم نام رکھا ہوگا؟
ہوسکتا ہے خاندان میں کسی کا نام مریم رہا ہو
یا کسی مولوی صاحب نے مریم نام رکھنے کا مشورہ دیا ہو؟
یا شائد والدین  کی خواہش رہی ہوگی کہ ان کی بیٹی بڑی ہوکر مریم کی طرح پاکیزہ اور عفت و عصمت کی پیکر بنے۔لوگ اس کی پاکیزگی اور شرم و حیا کی مثالیں دیں۔
مگر؟ 
یہ مریم تو ایسی حرکتیں کررہی تھی کہ شرم و حیاکو اس سے شرم آرہی تھی، حیا اس پر سو سو لعنتیں کرتی ہوگی۔
مریم کی پاکیزگی اور عفت وعصمت سے  اسے کوئی حصہ نہ ملا تھا.
دوسری لڑکی کا نام شائد زیبا تھا۔
اس نے اپنا ایک خواب بیان کیا۔
"ارے حنا سن! صبح سات بجے جب کہ میں گہری نیند میں تھی۔
میں نے ایک خواب دیکھا. میں نے دیکھا کہ میں تیار ہوکر گھر سے نکلی ہوں.
ارے ہاں میں نے یہی کالا دوپٹہ گلے میں ڈال رکھا ہے. اتنے میں گلی سے ایک بڑا سا کتا نکلا، وہ مجھے دیکھ کر دوڑا، میں بہت تیزی سے بھاگی اور ایک گھر میں داخل ہوگئی،ایمان سے کتنا ڈر لگ رہا تھا.
اللہ نہ جانے کس کا گھر تھا؟لیکن تھا بہت اچھا، گھر میں کئی لوگ تھے، ان لوگوں نے کتے کو مار کر بھگایا. 
ایک لڑکا بول پڑا:
"سیورلی، میرا ہی گھر رہا ہوگا، میں نے بھی آج ایسا ہی خواب دیکھا تھا.،،
دوسرا لڑکا:
" مریم مر جاے گی مگر تمہارے گھر میں داخل نہ ہوگی، تم کسی  کتے سے کم ڈینجر ہو کیا.،،؟
تینوں لڑکیاں ایک ساتھ تالیاں پیٹ کر ہنسیں. اس میں سے ایک لڑکی نے ایک لڑکے کی پشت پر دھب سے ایک ہاتھ لگایا. لڑکے کو چوٹ تو لگی مگر وہ کچھ نہ بولا.
اس لڑکے کے لیے شائد یہ بھی ایک اعزاز تھا.
وہ لڑکی باری باری تمام لڑکوں کو ایک ایک دھب لگاتی رہتی تھی مگر کسی لڑکے کو خراب نہیں لگ رہا تھا. ان لڑکوں کی قوت برداشت قابل دید تھی. 
ایک لڑکا اس کے ہاتھ میں سونے کے کڑے تھے. لال دھاگوں کا گچھا تھا، پیشانی پہ بہت باریک سا تلک کا نشان تھا. ایسا لگتا تھا کہ یہ تینوں لڑکیوں کا مشترکہ دوست تھا.
پورے قافلے کی رہنمائی وہی کررہا تھا. ایسا لگتا تھا کہ تینوں سو سو جان سے اس پر واری تھیں. تینوں کی نگاہوں میں اس کے لیے پیار ومحبت کا دریا موجزن  تھا.
وہ لڑکا. وہ غیر مسلم لڑکا. بہانے بہانے سے کسی کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتا تو کسی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتا. ٹرین کی رفتار کچھ بے ڈھب ہوتی اور کوئی اوئی اللہ کہہ کر لڑکھڑاتی تو یہی دائیں بائیں سے سہارا دیتا.
اس کا نام شائد لڈن یا لٹن تھا.
بس زیبا  نے ایک بار اس کا یہی نام لیا تھا.
مجھے ایک نہیں ہزاروں حیرتیں تھیں.
ایک بار دل میں آیا لاو اس گروپ کی ایک تصویر لی جاے؟
مگر سوچا اس کا انجام برا بھی ہوسکتا تھا. وہ لڑکیاں اگر اشارہ کردیتیں تو وہ لڑکے میرا کیا حشر کرتے؟
پھر اس تصویر کا فائدہ کیا ہوتا؟
ٹرین وسئی میں رکی. کڑا پہنے ہوے لڑکوں نے تینوں لڑکیوں کو بہت احتیاط سے ہاتھ سے سہارا دے کر نیچے اتارا.
ظاہر ہے وہ ان سے بہت محبت کرتا تھا اور یہ تینوں ایک ساتھ اس سے بہت محبت کرتی تھیں.
میں سوچنے لگا.
کیا یہ لڑکیاں اپنی بدنامی سے ڈرتی تھیں؟
نہیں ہرگز نہیں.
کیا ان لڑکیوں کے والدین اپنی شہزادیوں کے کرتوت سے ناواقف ہیں.؟
کچھ تو ضرور واقف ہوں گے؟
مگر نظر انداز کرتے ہوں گے یا سنجیدگی سے نہیں لیتے ہوں گے.
ابھی ان کی عمر ہی کیا ہے؟
بے چاری اٹھارہ انیس سال کی ناسمجھ لڑکیاں. یہی تو ان کی موج مستی کے گھومنے پھرنے کے دن ہیں.
کیا ان والدین کو اس کی کوئی فکر ہے کہ گھر سے نکلنے کے بعد ان کی لاڈلیاں کیا کیا گل کھلا رہی ہیں؟
یا انھیں سب کچھ معلوم ہے؟
مگر
اس ماڈرن دور میں تو یہ عام بات ہے. نوجوان لڑکیاں ہیں. پڑھی لکھی ہیں. اپنا اچھا برا سمجھتی ہیں. وہ کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں گی جس سے ان کے والدین کی بدنامی ہو.
اور  یہ لڑکیاں اتنی سمجھ دار ہیں کہ سب کچھ کرتی ہیں مگر سماج اور ان کے والدین کو ہوا بھی نہیں لگتی.
اللہ رحم کرے. میں دیر تک سوچتا رہا. مجھے غصہ بھی تھا. افسوس بھی تھا.تکلیف بھی تھی. 
والدین کی بے حسی کا گلہ بھی تھا. اپنی بے بسی کا اندازہ بھی تھا.
آخر میں کیا کرسکتا تھا؟
سواے کڑھنے کے. خود ہی جلنے اور بھننے کے؟
فرسودہ، دقیانوسی مولوی. اس سے زیادہ اور کیا تھا؟
سوچیے اگر آپ ہوتے تو آپ کیا کرتے؟
..