Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, December 20, 2020

مسلم ‏یونیورسٹی ‏علیگڑھ، ‏” ‏صد ‏سالہ ‏تقریبات۔۔۔۔۔۔۔۔ایک ‏نٸی ‏صبح ‏کا ‏آغاذ

از / محمد خالد /صداٸے وقت /٢٠ دسمبر ٢٠٢٠۔
==============================
مسلم یونیورسٹی علی گڑھ 22 دسمبر 2020 کو اپنے ملک ہی نہیں بلکہ پورے عالم انسانی میں ایک اہم تاریخ بننے کو بیتاب ھے. سر سید احمد خان نے اب سے ایک صدی پہلے جب اس پودے کا بیج بویا تھا تو اس وقت کے اہل دانش اور ملت اسلامیہ ہند کے سربرآوردہ اشخاص نے اس کی ستائش بہت کم اور بڑے پیمانے پر مخالفت زیادہ کی تھی اور بڑے اعتماد اور یقین کے ساتھ کہا جا رہا تھا کہ یہ ادارہ پہلے تو قائم ہو پانا ہی مشکل ھے اور اگر کسی طرح قائم ہو بھی گیا تو یہاں تعلیم حاصل کرنے والے بچے انگریزوں کے غلام اور آلہ کار بنیں گے جس کی وجہ سے ملت اسلامیہ ہند کو بہت زیادہ نقصان پہنچے گا. پوری شدت سے اس طرح کے خیالات پھیلنے کا نتیجہ یہ ہوا تھا کہ عام مسلمان تو کیا جو لوگ سر سید احمد خان کے شانہ بشانہ کھڑے رہتے تھے ان میں سے بھی بہت سے لوگ ہمت چھوڑ بیٹھے تھے مگر انسانی تاریخ شاہد ھے کہ جب خالقِ کائنات  اللہ رب العزت اپنے کسی بندے سے کوئی خاص کام لینے کا فیصلہ کر لیتا ھے تو پھر اس بندے میں اس کام کو انجام دینے کی نہ صرف صلاحیت پیدا کرتا ھے بلکہ اس کام کی راہ میں آنے والے تمام مسائل اور مشکلات پر قابو پانے کا حوصلہ اور ہنر بھی عطا فرما دیتا ھے. 
اسی حوصلہ اور ہنر کا نتیجہ ھے کہ اب سے ایک صدی قبل لگایا گیا پودا آج پورے زمانے کو اپنے سائے سے سرفراز کر رہا ھے. دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا حصہ ہو جہاں علیگ حضرات موجود نہ ہوں. قابل تعریف ہیں موجودہ شیخ الجامعہ اور ان کی پوری ٹیم کہ جن کی لگن اور محنت سے آج مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے مقام اور مرتبہ کو غیر معمولی عروج حاصل ہوا ھے. 
مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے صد سالہ جشن میں بطور مہمان خصوصی ملک کے وزیر اعظم کی شرکت ثابت کرتی ھے کہ کسی بھی شخص یا ادارے کے عمل سے ناواقفیت یا تنگ نظری کی وجہ سے بغض و عداوت تو کی جا سکتی ھے مگر عمل کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہوتا.
مسلم یونیورسٹی علی گڑھ نے اپنے شاندار عمل کے ایک سو سال کی تاریخ سے اپنی حیثیت اور اہمیت کو ثابت کر دیا ھے.متعلقین مسلم یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ ملت اسلامیہ ہند کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ پر فخر کرنا عین فطرت ھے.
آج کچھ لوگ ٹھیک اُسی طرح ملک کے وزیراعظم کو مہمان خصوصی بنانے کی مخالفت میں لگے ہوئے ہیں جس طرح کی مخالفت سر سید احمد خان کے ذریعہ اس پودے کے لگانے کے وقت کی گئی تھی مگر انتہائی معذرت کے ساتھ عرض ھے کہ اس عظیم الشان صد سالہ جشن کی مخالفت کرنے والے حضرات کیا سر سید احمد خان کے مخالفین کی طرح گمنام ہو جانا چاہتے ہیں یا موجودہ شیخ الجامعہ اور ان کی ٹیم کے اس فیصلے کا شاندار استقبال کر کے خود کو روشن اور نمایاں کرنا چاہتے ہیں. کیونکہ بقول شاعر : "لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزا پائی". 
اللہ سے دعا ھے کہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی یہ شاندار کارکردگی صدا بہار ہو اور سب کو مبارک ہو.
محمد خالد ایشو
20 دسمبر 2020