Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, December 30, 2020

ترکی کے خلاف امریکی پابندیوں پر حالات کشیدہ..روس سے اسلحہ خریدنے پر واشنگٹن برہم ۔ بائیڈن پر نگاہیں مرکوز.

از /مسعود ابدالی /صداٸے وقت ( بشکریہ دعوت نیوز ڈاٹ کام ).
==============================
امریکہ نے ترکی پر اقتصادی پابندیاں لگانے کا اعلان کر دیا ہے۔ ترکی شمالی اوقیانوس معاہدہ (NATO) کا رکن اور اس کے ابتدائی دستخط کنندگان میں شامل ہے۔ یہ نیٹو کی 71 سالہ تاریخ میں پہلا موقع ہے جب ایک اتحادی نے دوسرے کے خلاف تادیبی پابندیاں عائد کی ہوں۔ تاہم ترکی، امریکی مطلق العنانیت کا پہلا شکار نہیں۔ ولادتِ نیٹو کے صرف 9 سال بعد یعنی 1958میں نیٹو پر امریکہ اور برطانیہ کے اجارہ داری کی حد تک غیر معمولی اثرو رسوخ سے فرانس کو سخت شکایات پیدا ہوئیں، چنانچہ صدر چارلس ڈیگال نے امریکی صدر آئزن ہاور اور برطانوی وزیراعظم ہیرالڈ میک ملن کو ایک خط لکھا جس میں انھوں نے اتحادیوں کے درمیان غیر مساویانہ اثرات و اختیارات کو ناقابل قبول قرار دیا۔ فرانسیسی صدر کا کہنا تھا کہ نیٹو کی قیادت کے لیے امریکہ وبرطانیہ کے درمیان معاہدہ پیرس کو قبول نہیں اور اس دستاویز کو سہ فریقی بندوبست یا Tripartite Directorate میں تبدیل کر کے فرانس کے مرتبہ ومقام کا احترام کیا جائے۔ لندن و واشنگٹن سے تسلی بخش جواب نہ آنے پر فرانسیسی بحریہ کو نیٹو کے بحر روم بیڑے سے نکال لیا گیا۔ اسی کے ساتھ جنرل ڈیگال نے فرانس کی سرزمین سے نیٹو کی تمام جوہری تنصیبات ہٹا لینے کا حکم جاری کر دیا۔ فرانس نیٹو کا رکن تو رہا لیکن 1967 کے بعد فرانس نے صرف محدود مشترکہ مشق میں حصہ لیا۔ 2001 کے افغان حملے کے بعد فرانس اور نیٹو کے درمیان تعلقات بہتر ہوئے اور امریکی صدر اوباما کی یقینی دہانیوں کے نتیجے میں صدر نکولس سرکوزی نے اپنے ملک کو دوبارہ مرکزی کمان (Structural Command) کا حصہ بنا لیا۔ عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ پیرس کے سجدہ سہو کی وجہ بحر روم میں ترک بحریہ کا بڑھتا ہوا اثرو رسوخ اور گزشتہ دس بارہ سالوں کے دوران دفاعی مصنوعات کے میدان ترکی کی چشم کشا ترقی ہے۔
اپنے محل وقوع کے اعتبار سے مشرق کے کمیونسٹ اور مغرب کے ساہوکار دونوں ہی ترکی سے دوستانہ تعلقات کے خواہش مند ہیں۔ بحر اسود سے نکلنے کا واحد راستہ ترکی سے ہو کر گزرتا ہے چنانچہ روس کے لیے ترکی سے دوستی بہت ضروری ہے تو دوسری طرف مغربی یورپ و امریکہ بھی انقرہ سے کشیدگی کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔
ترکی و امریکا کے درمیان مہر ومحبت کا آغاز دوسری جنگ عظیم کے دوران اس وقت ہوا جب ترکی نے اس عالمی جنگ سے خود کو الگ تھلگ رکھنے کا فیصلہ کیا۔ تزویراتی (اسٹریٹیجک) محل وقوع کی بنا پر امریکہ اور برطانیہ کی خواہش تھی کہ ترکی اس جنگ میں اتحادیوں کا ساتھ دے۔ چنانچہ امریکی و برطانوی قیادت نے ترکی یاترا کی خواہش ظاہر کی لیکن غیر جانب داری کے عزم پر قائم رہتے ہوئے انقرہ نے معذرت کرلی۔ جس کے بعد قاہرہ میں مذاکرات کی میز بچھائی گئی جہاں دسمبر 1943 میں امریکی صدر روزویلٹ، برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل اور ترک صدر عصمت انونو کے درمیان دو روزہ مذاکرات ہوئے۔ عصمت انونو غیر جانب داری کے فیصلے پر ڈٹے رہے۔ آخر کار اس بات پر اتفاق ہو گیا کہ ترکی غیر جانب داری پر قائم رہتے ہوئے آبنائے باسفورس تک اٹلی، نازی اور جرمنوں کی رسائی محدود کر دے گا۔ ان دشمنوں کو اتحادی ’روم۔برلن ٹوکیو مثلث‘ کہتے تھے۔ امریکہ کے اصرار پر فروری 1945 میں ترکی نے اتحادیوں کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا جس کے نتیجے میں آبنائے باسفورس روسی جنگی جہازوں کے لیے کھول دی گئی۔ روسیوں کا اصرار تھا کہ آبنائے کے دہانے پر انھیں بحری تنصیبات قائم کرنے کی اجازت دی جائے۔ جلد ہی یہ ملتجانیہ درخواست دھمکی میں تبدیل ہو گئی اور یہیں سے ترکی اور امریکا کے درمیان عسکری رومانس کا آغاز ہوا، 1947 میں امریکی صدر ہیری ٹرومن نے روسی ‘توسیع پسندی’ کے خلاف ترکی کا ساتھ دینے کا اعلان کیا جسے ٹرومن ڈاکٹرائن کا نام دیا گیا۔ 1950 میں جنگ کوریا کا آغاز ہوا تو ترکی نے امریکا کی نصرت کے لیے اپنے فوجی بھیج دیے جس کے بعد 1952 میں ترکی نیٹو کا رکن بن گیا۔ کہتے ہیں کہ وزیر اعظم عدنان میندریس ابتدا میں نیٹو کا حصہ بننے کے خلاف تھے لیکن جب روایتی حریف یونان نے نیٹو کی رکنیت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تو ترکی کے لیے نیٹو میں شامل ہونے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا کہ روسی کشیدگی کے ساتھ یونان کی دشمنی سے ترکی کی سالمیت کو سخت خطرہ لاحق تھا جس کے مقابلے کے لیے انقرہ نیٹو کی چھتری تلے آگیا۔ 1955 میں ترکی نے بحر روم کے ساحل پر اضنہ کے انسرلیک فوجی اڈے کا ایک حصہ نیٹو کے لیے وقف کر دیا۔ اس اڈے پر امریکا اور برطانیہ کے ساڑھے پانچ ہزار فوجی تعینات ہیں۔ 50 سے زیادہ مسلح بمبار طیارے ہر وقت پرواز کے لیے تیار ہیں کچھ بمباروں پر جوہری ہتھیار بھی نصب ہیں۔
ساتویں دہائی سے اس صدی کے اختتام تک ترک انتخابات میں کسی بھی جماعت کو واضح اکثریت نہیں مل سکی اور مخلوط حکومتیں بہت کمزور رہیں جبکہ سیکولرازم کے سرپرست اور ضامن کی حیثیت سے فوج کو سیاسی معاملات میں مداخلت کا آئینی تحفظ حاصل تھا جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ترک جرنیلوں نے امریکا سے براہ راست رابطے استوار کر لیے، نتیجے کے طور پر امریکا کے اثرات بہت گہرے ہو گئے۔ 2002 کے انتخابات میں طیب ایردوان کی AK پارٹی نے واضح اکثریت حاصل کرکے ایک مضبوط حکومت تشکیل دی اور سویلین وزیر اعظم نے نیٹو کے معاملات کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔انقرہ واشنگٹن کشیدگی کا آغاز اس وقت ہوا جب 2003 میں ترک وزارت دفاع نے عراق پر حملے کے لیے انسرلیک سے امریکی جنگی جہازوں کے اڑنے پر پابندی لگا دی۔ صدر بش خاصے ناراض ہوئے لیکن وزیر اعظم ایردوان کا موقف تھا کہ جنگ اقوام متحدہ یا نیٹو کی اجازت کے بغیر چھیڑی جا رہی ہے لہٰذا ترک سر زمین عراق پر حملے میں استعمال نہیں ہو گی۔
مئی 2010 میں ترکی سے امدادی سامان کے ساتھ کشتیوں کا ایک قافلہ غزہ کے لیے روانہ ہوا۔ ایک کشتی پر پاکستانی صحافی طلعت حسین بھی سوار تھے۔ اس قافلے پر اسرائیلی بحریہ نے حملہ کیا جس میں 9سماجی کارکن مارے گئے۔ اپنے مذمتی بیان میں جناب ایردوان نے صاف صاف کہا کہ ’سپرطاقت‘ کی شہ کے بغیر اسرائیل اس خونریزی کی ہمت نہیں کر سکتا تھا۔ ترکی کے اس دو ٹوک موقف سے ترکی و امریکا کے درمیان تعلقات میں مزید تناؤ آگیا۔
شام و عراق کی خانہ جنگی اور داعش کے ظہور میں آنے پر حالات مزید خراب ہوئے۔ امریکا نے داعش کی سرکوبی کے لیے ترکی کے کرد علیحدگی پسندوں کی پشت پناہی کی۔ دمشق سرکار نے شامی فوج آزادی (SDF) کے نام سے ملیشیا تشکیل دے دی جسے امریکی فوج نے اسلحہ فراہم کیا۔ ترکی کا کہنا ہے کہ اسد حکومت نے YPG دہشت گردوں کو SDF کی وردیاں پہنا کر ترک سرحد کی طرف دھکیل دیا۔ YPG کو ترکی کی عدالت عظمیٰ کے ساتھ خود امریکا نے بھی دہشت گرد قرار دیا ہے۔
2015 تک صورت حال یہ ہوگئی کہ ترکی کی عراق و شام سے ملنے والی سرحدوں پر SDF اور YPG نے مورچہ لگایا ہوا تھا۔ شمال مشرق میں آرمینیا سے صورت حال کشیدہ تھی۔ اسی کے ساتھ مشرقی بحر روم میں یونانی قبرص اور یونان نے آنکھیں دکھانی شروع کر دیں۔ ترک ساحل کے قریب بہت سے یونانی جزائر ہیں، دو ایک جزائر کا ترکی سے فاصلہ صرف تین کلو میٹر ہے۔ یونان کا اصرار ہے کہ ان جزائر کی آبی حدود کئی سو کلو میٹر تک ہیں۔ اگر اس دعوے کا مان لیا جائے تو یونان کی آبی سرحدیں ترکی کے ساحل تک ہیں۔ یہ بات ترکی کے لیے قابل قبول نہیں کہ بحر روم اور بحر اسود میں ترکی کا ساحل سب سے طویل ہے۔ شمالی قبرص اور ترکی کے درمیان سمندری فاصلہ بہت کم ہے اور بحر روم کا یہ علاقہ تیل و گیس کی دولت سے مالا مال ہے۔ اسرائیل اور مصر نے مشرقی بحر روم میں کئی بڑے گیس کے میدان دریافت کیے ہیں۔ یونانی قبرص کی حکومت سمندر میں تیل و گیس کی تلاش کا کام کرنا چاہتی ہے۔ ترکی کا کہنا ہے کہ تلاش و ترقی کے یہ سمندری یا Offshore Blocks اس کی آبی (maritime) حدود میں ہیں جنہیں ارضیات کی اصطلاح میں Continental Shelf کہتے ہیں۔اس سال فروری میں اطالوی تیل کمپنی Eni کنواں کھودنے کے لیے شمالی قبرص کے قریب ایک جہاز (Drill-ship) لے کر آئی لیکن ترک بحریہ کے جنگی جہازوں نے اسے فرار ہونے پر مجبور کر دیا۔ چند ماہ پہلے یونانی قبرص کی وزارت معدنیات نے بلاک 7 کا ٹھیکہ امریکا کی ایکزون موبل ExxonMobil کی قیادت میں بننے والے مشارکہ کو دے دیا جس کے دوسرے حصہ دار Eni اور فرانس کی ٹوٹل (TOTAL) ہیں۔ ایک دوسرا بلاک جسے نمبر 10 کا نام دیا گیا ہے ایکزون موبل اور قطر پیٹرولیم کے مشارکہ کو عطا کر دیا گیا۔ جیسے ہی ایکزون موبل کے وائس چئیر مین نیل چیپمین نے اعلان کیا کہ ان کی کمپنی اس سال کے اختتام پر بلاک 10 میں آزمائشی کنوویں کی کھدائی شروع کری گی۔ ترک وزارت خارجہ نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ترکی کسی کو اپنے معدنی وسائل لوٹنے نہیں دے گا اور مشرقی بحر روم میں مہم جوئی کرنے والوں کو کچل دیا جائے گا۔ اس دھمکی پر ایکسون نے کھدائی کا منصوبہ غیر معینہ مدت کے لیے موخر کر دیا۔ ترک بحریہ نے اپنی حدود سے فرانسیسی رگز (RIGS) کو بھی ڈبونے کی دھمکی دے کر علاقے سے باہر نکل جانے پر مجبور کر دیا۔ اس سال کے آغاز پر ترکی کی سائزمک کشتیوں نے تیل و گیس کی تلاش کے لیے آزمائش و پیمائش کی مہم کا آغاز کیا۔ یونان نے فرانس اور یورپی یونین کی پشت پناہی میں ترکی کو آنکھیں دکھائیں اور کئی بار دونوں ملکوں کے بحری اور لڑاکا جہاز خطرناک حد تک ایک دوسرے کے قریب آگئے تھے تاہم تصادم نہ ہوا۔
امریکا اور ترکی کے درمیان سخت کشیدگی اس وقت پیدا ہوئی جب جولائی 2016 میں ایردوان کے خلاف ناکام فوجی کارروائی کے دورانباغی طیاروں نے انسر لیک کے امریکی اڈے سے اڑان بھری۔ جس پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ترک وزارت دفاع نے انسرلیک اڈے کا انتظام سنبھال لیا اور اب اس اڈے کی نگرانی ترک فضائیہ کے ہاتھ میں ہے۔
صدر ایردوان نے اقتدار سنبھالتے ہی دفاعی پیدوار کی صنعت کی طرف توجہ دی اور بہت جلد ترک ساختہ بنکر شکن میزائیل، ڈرون، آبدوز اور صحرائی ٹینک بہت مقبول ہوگئے۔ اس سال ستمبر تک ایسا لگ رہا تھا کہ روس، فرانس، اسرائیل، مصر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے تعاون سے کھڑی کی جانے والی حفتر ملیشیا بس چند ہی ہفتوں میں لیبیا کے دارالحکومت طرابلس کو فتح کر لے گی لیکن لیبیا حکومت کے ترک ساختہ ڈرون نے پانسہ پلٹ دیا۔ انھیں ڈرونز کی ہلاکت خیز کارروائی کے باعث آرمینیا کی فوج نے نگورنو کاراباخ میں ہتھیار ڈالے۔ دفاعی صنعت کے میدان میں ترکی کی کامیابی سے مصر، اسرائیل اور خلیجی ممالک کے ساتھ امریکا و مغربی یورپ کو بھی تشویش ہے۔
ترکی اپنے فضائی دفاع کی جانب سے خاصا فکر مند ہے۔ اس کے پاس امریکی ساخت کے جدید حملہ آور اور بمبار طیارے تو ہیں لیکن فضائی حملوں کے خلاف دفاع کے معاملے میں ترک جرنیلوں کو ایک جدید ترین نظام کی تلاش تھی۔ امریکا فضائی دفاع کا پیٹریاٹ نظام فروخت کرنے کے لیے تیار ہے لیکن ترک ماہرین اس کی استعداد پر مطمئن نہ تھے۔ ترک وزارت دفاع کو امریکیوں کی تلون مزاجی پر بھی شدید تحفظات ہیں کہ پابندیوں کی تلوار ہر وقت سر پر لٹکتی رہتی ہے۔ مشرقی بحر روم کی سمندری حدود کے معاملے میں یورپی یونین سے ترکی کے تعلقات خاصے کشیدہ ہیں اور اگر تصادم کے وقت امریکا بہادر نے پابندیاں لگا دیں تو فوج کے لیے سخت مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں چنانچہ روسی ساختہ S-400 طیارہ شکن دفاعی نظام کا جائزہ لیا گیا۔
ترک ماہرین کا خیال ہے کہ S-400 امریکی پیٹریاٹ سے بہتر، استعمال میں آسان، سستا اور زیاد موثر ہے۔ سب سے بڑی بات کہ روس اس میزایل شکن نظام کی ترکی میں تیاری پر نہ صرف رضا مند ہے بلکہ معاہدے کے تحت ترک و روسی ماہرین اس کی بہتری کے لیے مل کر کام کریں گے۔ ان پرکشش شرائط کی بنا پر ترکی نے S-400 خریدنے کا معاہدہ کرلیا۔ سودے کی خبر سامنے آتے ہی امریکا بہادر آپے سے باہر ہو گئے اور ایردوان مخالف سینیٹروں نے ترکی کو نشانے پر رکھ لیا۔ 2017 میں امریکی مقننہ نے ’پابندیوں کے ذریعے دشمنوں سے مقابلے کا ایکٹ‘ یا CAATSA منظور کیا ہے۔ اس قانون کے تحت امریکا کے نامزد تین بڑے دشمنوں یعنی ایران، شمالی کوریا اور روس سے فوجی تعاون، اسلحے کی خریداری اور خفیہ و عسکری معلومات کا تبادلہ غیر قانونی ہے۔ سودے پر معترض سینیٹرز کا کہنا ہے کہ روس سے اسلحہ خرید کر ترکی CAATSA کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے لہٰذا انقرہ کے خلات سخت پابندیاں لگنی چاہئیں۔ صدر ٹرمپ نے کانگریس کی قرارداد پر کان نہ دھرا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایردوان ایک اہم اتحادی ہیں اور اس قسم کی تادیبی کارروائی سے علاقے میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ترکی کے ساتھ ہندوستان نے بھی S-400 خریدنے کا معاہدہ کیا ہے لیکن اس کے خلاف کارروائی کی کوئی قرارداد تو دور کی بات رسمی مذمت کی بازگشت بھی سنائی نہ دی۔اس ماہ کے آغاز پر جب امریکی کانگریس کے سامنے دفاعی بجٹ پیش ہوا تو اس میں CAATSA کے تحت ترکی کے خلاف پابندی اور افغانستان سے امریکی فوج کے واپسی کے لیے امن و امان کی شرط بھی لگادی گئی ہے۔ ایک سے زیادہ امور کو واحد بل میں سمونے کے عمل کو امریکا کی پارلیمانی اصطلاح میں اومنی بس بل کہتے ہیں۔ اومنی بس بل کا بنیادی مقصد مختلف مفادات کو یک جا کر کے اعتراضات کے بغیر بل کی جلد از جلد منظوری ہے۔ یہ بل ایوان زیریں سے 78 کے مقابلے میں 335 اور سینیٹ سے 13 کے مقابلے میں 84 ووٹوں سے منظور ہوگیا اور 14 دسمبر سے ترکی پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔
پابندیوں کے تحت ترکی کو F-35 طیاروں کے ترقیاتی پروگرام سے الگ کر دیا گیا ہے۔ اس غیر مرئی (Stealth) بمبار کی تیاری میں امریکا، فرانس، برطانیہ اور ترکی شامل ہیں۔ اس کا بیرونی ڈھانچہ یا شیل ترک فولاد سے بنایا جاتا ہے۔ اب تک یہ بات واضح نہیں کہ طیارہ ساز ادارہ لاک ہیڈ مارٹن اب بھی یہ شیل ترکی سے بنوائے گا یا اسے متبادل ڈھونڈنے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔ ترک دفاعی صنعت SSB کے سربراہ اسماعیل دمیر اور ادارے کے تین سینئر افسران پر سفری پابندیاں بھی عائد کردی گئی ہیں۔
پابندیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے ترک صدر ایردوان نے کہا کہ جب سے CAATSA منظور ہوا ہے پہلی بار اس کا اطلاق کیا جا رہا ہے اور وہ بھی نیٹو کے مخلص ترین رکن پر۔ ہم ترک عوام کو کیا بتائیں کہ یہ کس قسم کا اتحاد ہے؟ ترک صدر نے کہا کہ ان پابندیوں کا مقصد ترک دفاعی صنعت کو نقصان پہنچانا ہے تاکہ ہم اپنے دفاع کے لیے بڑی طاقتوں کے رحم و کرم پر رہیں۔ ترک ملت اسے اپنی سلامتی و خود مختاری پر حملہ سمجھتی ہے جس کی بھرپور مزاحمت کی جائے گی۔ جناب ایردوان نے کہا کس ملک سے کیا خریدیں اس کا فیصلہ صرف اور صرف منتخب ترک قیادت کرے گی، ہمیں کسی سے اجازت لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جناب ایردوان نے واضح کیا کہ اللہ کی مہربانیوں سے ترکی اس مقام تک پہنچ چکا ہے جب پابندیاں ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں اور اب ہم اپنے دفاع کو خود مختار بنانے کے لیے دگنی محنت کریں گے۔ ترک صدر نے کہا کہ امریکا ترکی کی دفاعی ضروریات پوری کرنے میں ناکام رہا ہے اور ترک قوم اپنے دفاع کی طرف سے غافل نہیں رہ سکتی۔
امریکی حکومت کے فیصلے پر نیٹو نے بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اتحاد کے سربراہ جینس اسٹولٹن برگ Jens Stoltenberg نے برسلز میں اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ اتحادیوں کے درمیان تمام تنازعات بات چیت کے ذریعے حل ہونے چاہئیں اور پابندیاں لگانے سے قابل قبول اور مثبت حل کی راہ مسدود ہو سکتی ہے۔ روسی وزیر خارجہ سرجی لاوروو Sergey Lavrov نے پابندیوں کو امریکی تکبر کی ایک مثال قرار دیا۔
ترک وزیر خارجہ مولوت چاوش اوگلو نے دھمکی دی ہے کہ امریکا نے ترکی پر جو پابندیاں عائد کی ہیں ان کے رد عمل میں جوابی اقدامات کیے جائیں گے۔ ترکی نے روس سے میزائل دفاعی نظام کی خریداری کا فیصلہ ضرورت کے تحت کیا ہے کیونکہ اسے نیٹو کے کسی اتحادی ملک سے اطمینان بخش شرائط پر میزائل نہیں مل رہے تھے۔
نیٹو اتحادی پر پابندیوں کا فیصلہ ایسے وقت کیا گیا ہے جب امریکا میں ایک ماہ بعد نئی انتظامیہ اختیارات سنبھال رہی ہے۔ نو منتخب صدر جو بائیڈن صدر ایردوان کو امریکا و اسرائیل مخالف سمجھتے ہیں اور انتخابی مہم کے دوران کہہ چکے ہیں کہ وہ آئندہ انتخابات کے دوران ترکی میں اقتدار کی تبدیلی یا Regime Change کی کوشش کریں گے۔ دوسرے ملکوں میں دخل اندازی کا یہ بھونڈا انداز اب چلنے والا نہیں ہے۔ ترکی میں حکم رانی کس کی ہوگی اس فیصلے کا حق صرف اور صرف ترک عوام کو ہے۔ 2013 میں جو بائیڈن اپنے باس بارک اوباما سے مل کر مصری تاریخ کی پہلی منتخب حکومت اور جمہوریت پر شب خون مار چکے ہیں۔ لیکن ترکی اب 1960 والا ترکی نہیں ہے جب منتخب وزیر اعظم عدنان میندریس کو پھانسی دے دی گئی۔ دنیا، جمہوریت و آزادی سے ترک عوام کی وابستگی جولائی 2016 میں دیکھ چکی ہے جب امریکا نواز مسلح وردی والوں کی نہتے عوام نے مشکیں کس دی تھیں۔
(مسعود ابدالی معروف کالم نویس ہیں جو مشرق وسطیٰ ، مسلم دنیا اور عالمی سیاست پر لکھتے رہے ہیں)