Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, December 2, 2020

رہبر جونپوری اور پروفیسر مختار شمیم کا انتقال اردو زبان و ادب کا نا قابل تلافی نقصان

پروفیسر مختار شمیم اور رہبر جونپوری دونوں کا آبائی وطن بھوپال نہیں تھا مگر دونوں نے بھوپال کو اپنا میدان عمل بناکر اردو ادب کے جو قیمتی شہ پارے تخلیق کئے ہیں انہیں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔

بھوپال.مدھیہ پردیش /صداٸے وقت /ذراٸع۔/ڈاکٹر مہتاب عالم کی رپورٹ۔
==============================
 کورونا قہر میں اردو زبان و ادب کے ایسے ایسے گوہر نایاب ہم سے دور ہو گئے ہیں، جن کی تلافی کبھی ممکن نہیں ہو سکتی ہے۔ پروفیسر مختار شمیم اور رہبر جونپوری کی آج ہوئی رحلت  اردو ادب کا ایک ایسا خسارہ ہے، جس کی تلافی کسی بھی صورت ممکن نہیں ہے۔ پروفیسر مختار شمیم اور رہبر جونپوری دونوں کا آبائی وطن بھوپال نہیں تھا مگر دونوں نے بھوپال کو اپنا میدان عمل بناکر اردو ادب کے جو قیمتی شہ پارے تخلیق کئے ہیں انہیں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔
پروفیسر مختار شمیم کی ولادت تیرہ اگست انیس سو پیانتالیس کو مدھیہ پردیش کے سرونج میں ہوئی۔ مختار شمیم نے سرونج سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھوپال کے حیمدیہ گونمنٹ ڈگری کالج سے اعلی تعلیم حاصل کی اور درس و تدریس کے پیشہ سے وابستہ ہوئے۔پروفیسر مختار شمیم نے ظہیر دہلوی فن و شخصیت پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔وہ ایک بہترین محقق کے ساتھ ،شاعر،افسانہ نگار،انشا پرداز تھے۔ مختار شمیم کی تصانیف میں ظہیر دہلوی شخصیت و فن ،ریاست ٹونک میں اردو شاعری،مدھیہ پردیش میں اردو تحقیق،سواد حرفف،نامہ گل،دریچہ گل،پس غبار،حرف حرف آئینہ،تناظر وشخصیت،ہجر کی صبح ہجر کی شام کے نام قابل ذکر ہیں ۔ انہوں نے ظہیر دہلوی کی کلیات شائع کرنے کے ساتھ مشاہیر کے خطوط ڈاکٹر ابومحمد سحر کے نام سے بھی کتاب تالیف کی تھی۔مختار شمیم کا انتقال بھوپال میں ہوا مگر انہیں انکے آبائی وطن سرونج میں آبائی  قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔
رہبر جونپوری کی ولادت اترپردیش کے ضلع جونپور کے موضع جیہگاں میں دو جون انیس سو انتالیس کو ہوئی تھی۔رہبر جونپوری کی تعلیم و تربیت جونپورمیں ہوئی۔ تحصیل علم کے بعد رہبر انیس سوچھپن میں بھوپال میں واقع بی ایچ ای ایل کمپنی سے وابستہ ہوئے اور یہیں سے وظیفہ حسن و خدمت پر ریٹائر ہوئے۔ رہبر جونپوری تقریبا ستاون سال تک بھوپال کی بود و باش کا حصہ رہے ۔ رہبر جونپوری کا انتقال آج لکھنؤ میں ہوا اور انہیں آبائی قبرستان جیگہاں میں سپردخاک کیاگیا۔رہبر جونپوری کا شمار نظم کے بڑے شعرا میں ہوتا تھا۔ رہبر جونپوری کی اہم تصانیف میں  آوازہ زنجیر،موج سراب،متاع فکر،بولتے حرف اور پیغام حق کے نام قابل ذکر ہیں ۔ پیغام حق میں رہبر جونپوری نے تاریخ اسلام کو منظوم رقم کیا ہے۔یہ رہبر جونپوری کا ایسااہم کام ہے جسے اردو ادب کی تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔ پیغام حق میں اسلام کی منظوم تاریخ کو رہبر جونپوری نے بطرز آلہ لکھا ہے ۔
رہبر جونپوری اور مختار شمیم کے سانحہ ارتحال کی خبر نے بھوپال کی ادبی فضا کو مغموم کردیاہے۔ شعری اکادمی کے زیر اہتمام دونوں فنکاروں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے کورونا قہر کے سبب مختصر سی تقریب کا انعقاد کیاگیا۔ ممتاز ادیب ڈاکٹر انجم بارہ بنکوی  کہتے ہیں کہ پروفیسر مختار شمیم اور رہبر جونپوری کی ادبی تحریروں پر اہل بھوپال کو اور اہل اردو کو فخر ہے ۔دونوں ہی ادیبوں نے اپنی تحقیق اور تحریر سے اردو زبان و ادب میں اضافہ کا کام کیا ہے۔جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔
شعری اکادمی کے زیر اہتمام منعقدہ ادبی تعزیتی جلسے کی صدارت کرتے ہوئے ممتازادیب ضیا فاروقی کہتے ہیں کہ کورونا کا ایسا قہر جاری ہے کہ ہم اپنے ادیبوں کی شایان شان پروگرام کا انعقاد بھی نہیں کرسکتے ہیں۔دونوں فنکاروں کا سانحہ ارتحال نہ صرف میرا ذاتی نقصان ہے بلکہ اردو زبان و ادب کا بھی ناقابل تلافی نقصان ہے جسکی تلافی ممکن نہیں ہے۔ پروفیسرمختار شمیم اور رہبر جونپوری نے جو تحریریں چھوڑی ہیں ہمارے کوشش ہوگی کہ اس پر تحقیق کا کام کیاجائے تاکہ نئی نسل اس سے استفادہ کر سکے۔ شعری اکادمی کے رکن ڈاکٹر قمر علی شاہ کہتے ہیں کہ  پروفیسر مختار شمیم اور رہبر جونپوری دونوں نے نصف صدی سے زیادہ عرہصہ تک بھوپال کی ادبی تہذیب کا حصہ رہے ہیں۔ ایک ہی دن میں دو فنکاروں کا سانحہ ارتحال اردو والوں پر ایسا غم ہے جسے ہم لفظوں میں بیان نہیں کر سکتےہیں۔ ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ دونوں فنکاروں کو جوار رحمت میں اعلی مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے۔