Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, December 1, 2020

شاہین ‏باغ ‏کی ‏آہنی ‏خاتون ‏، ‏کسان ‏آندولن ‏اور ‏مسلمان۔۔۔۔۔

از / سمیع اللہ خان /صداٸے وقت۔١ دسمبر ٢٠٢٠
==============================
 آج شاہین باغ کی مشہور بلقیس دادی کو دہلی پولیس نے اس وقت حراست میں لے لیا جب وہ  سِندھو بارڈر پر احتجاج کررہے کسانوں کے آندولن میں شریک ہونے جارہی تھیں _
 بلقیس بانو ۸۲ سالہ بزرگ خاتون ہیں، انہوں نے  NRC اور ظالمانہ شہریت ترمیمی قانون کےخلاف ملک گیر آندولن والے مرکزی شاہین باغ کی قیادت کی تھی، ملک گیر شاہین باغ برپا کرنے والی یہ معمر خاتون تھکی نہیں، ڈری نہیں، اور کسانوں کے انقلابی آندولن میں شریک ہونے کے لیے چل پڑیں، لیکن پولیس نے انہیں پہنچنے نہیں دیا اور حراست میں لے لیا _
امیت شاہ کی دہلی پولیس اور مودی سرکار کا استعماری ہندوتوا سامراج ایک معمر اور ضعیف بوڑھی عورت سے کسقدر خوفزدہ ہے، بلقیس بانو کی پولیس حراست اصل میں ناجائز سرکاری طاقتوں کی ہار ہے، یہ عادلانہ عزائم کے سامنے ظالمانہ ہتھیاروں کی شکست ہے
 جب سے کسان آندولن شروع ہوا ہے کئی بار تقاضا ہوا کہ اس پر اردو میں کچھ لکھوں بعض لوگوں نے کچھ تنظیموں کی شرکت پر لکھنے کہا تھا لیکن ایسا کوئی پہلو نظر نہیں آتا تھا کہ اس حوالے سے لکھا جائے، اب شاید وہ بھی سمجھ جائیں کہ اُن کے پیر و مرشد ہوں یا ان کے پسندیدہ مقررین یہ حضرات ملکی دھارے میں بے اثر ہوتے جارہےہیں، 
 *کسانوں کے آندولن میں بہت سارے گلی محلے مسلک تنظیم اور مریدوں کے لیڈر شریک ہو ہو کر فوٹو کھنچا رہےہیں تاکہ ان کے مان لیواؤں کے حلقے خوش و خرم رہ سکیں لیکن انہیں کسی نے روکا ٹوکا نہیں البته بلقیس بانو جب اس احتجاج میں شریک ہونے کے لیے سڑک پر آئیں تو پولیس اور سیکوریٹی ایجنسیاں حرکت میں آگئیں اور انہیں راستے سے ہی حراست میں لے لیا گیا، اس میں ہر ذی شعور اور عقلمند کے لیے نشانیاں ہیں، یہ درحقیقت امت، قومیت اور انسانیت کے مسائل سے انحراف اور ان میں خیانت کرنے والوں کے قدرتی انہدام کا اعلامیہ ہے، مسلک، پارٹی،  امیر، صدر، پریزیڈنٹ، حضرت، آنریبل اور تنظیم والوں سے اب حکومتوں پر فرق نہیں پڑتا، اور نا یہ القاب و لاحقے والے عوامی رائے سازی میں کوئی اثر رکھتےہیں، انہیں ان سرکاروں نے بے حیثيت بنادیا ہے، اب عدل و انصاف کی قوتِ گویائی اس ملک میں شاہین صفت افراد میں سمٹ آئی ہے، وہ خالد سیفی، شرجیل امام، آصف، عمر خالد اور بلقیس دادی کی صورت میں ظالموں کو پے در پے چوٹ پہنچاتے نظر آتے ہیں _*

 یہ وقت مسلمانوں سے شدید تقاضا کرتاہے کہ وہ بھارت میں ہندوتوا استعمار کےخلاف اکٹھے ہوں، عارضی، غیر ضروری، نان ایشوز اور گروہی جھگڑوں کو پس پشت ڈال کر متحد ہوجائیں تاکہ ان کی نسلوں کو یہاں جگہ مل سکے، مگر مسلمانوں کا رخ افسوسناک ہے، 
*سچی بات یہ ہیکہ، کسان آندولن اور پنجابی سِکھوں کی جراتمندانہ اور مدبرانہ حکمتِ عملی نے مودی۔شاہ والی آمرانہ حکومت کو ناکوں چنے چبوا رکھے ہیں،* 
بلقیس دادی کی پولیس حراست کےخلاف پرزور آواز اٹھائی جانی چاہیے، بلقیس دادی سے حکومت کا یہ ڈر اہلِ دانش کے لیے سبق ہیکہ عزت کی زندگی عزیمت والوں کو ہی ملتی ہے، کسانوں کا آندولن جسے پنجابی سِکھوں نے برپا کیا ہوا ہے اس میں اندرونی طورپر مسلمانوں کو سِکھوں کا زبردست معاون بننا چاہیے، یہ پورا آندولن سبق آموز ہے، یہی وہ وقت ہے جب مسلمانوں اور سِکھوں کا مضبوط عملی اتحاد قائم ہو، جو آئندہ اس کثیر ثقافتی ملک میں ہندوراشٹر کی بالادستی کے خلاف مؤثر کردار ادا کرسکے_

*سمیع اللّٰہ خان*
۱ دسمبر.  بروز منگل، ۲۰۲۰ 
ksamikhann@gmail.com