Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, December 15, 2020

اسلامی ‏کی ‏اعتدال ‏پسندی ‏اور ‏روشن ‏خیالی۔۔۔۔

                      تحریر 
مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ۔
                صداٸے وقت 
============================
اسلام کی تعلیما ت اورقرآن واحا دیث کے احکا م وہدایات کاسرسری طور پر بھی مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوجا تی ہے کہ اسلام میں روشن خیالی بھی ہے اور اعتدال پسندی بھی، اس سے الگ ہوکرجو کچھ کیا جائے گا ، اس میں اعتدال پسندی بھی نہیں ہوگی اور روشن خیالی بھی نہیں، ہوسکتاہے بعض لو گ بغیر سمجھے بو جھے ان الفاظ کا استعما ل کر رہے ہو ں اور انہیں اسلام مخالف کام میں ہی اعتدال پسندی نظر آتا ہو ،اور اسلام کی حمایت میں اٹھنے والی ہر آواز دہشت گردی کے مترادف وہ سمجھتے ہوں ۔ حالاں کہ ظلم و جو ر کے خلا ف احتجاج ہر صا لح سماج کیلئے ضروری ہے، ورنہ ظالم اور ظلم پر جر ی ہو گا اورمظلوم کی چیخ وپکا ر اقتدار اورطاقت کے گلیا روں میں سنانے کا حو صلہ ماند پڑ جا ئے گا اوراس کی کو کھ سے تشدد اور تاریک خیالی جنم لے گی ۔
اسلام میں خَیْرُ الْاُمُوْرِ اَوْسَطُھَا کی جو بات کہی گئی ہے وہ اعتدال پسندی کا سلوگن اور موٹو ہے ۔ چلنے پھر نے ، کھانے پینے ، سونے جاگنے ، بولنے لکھنے ، سب میں اسے اپنانے کا مشورہ دیا گیا ہے۔اعتدال کا مطلب میانہ روی ہے ۔ قرآن کریم میں فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کا بھائی کہا گیا ہے اوروَلَا تَبْسُطْھَا کُلََّ الْبَسْطِ کہہ کر افراط کے مزاج کو قابو کیا گیا اسی طرح یہ بھی فرمایا کہ اپنے ہاتھوں کو گردن سے مت لپیٹ لو ، یعنی بخالت پر مت اتر آؤ، یہ تفریط سے اجتناب کی تلقین ہے ۔ اس کے بیچ کا جو راستہ ہے وہ اعتدال ہے ۔ اور وہ یہ کہ جو کچھ اللہ نے دیا ہے اس میں ںسے خرچ کیا جائے بغیر افراط وتفریط کے ۔ 
اسی طرح زمین پر اکڑ کر چلنے سے منع کیا  اور نرم روی کو رحمن کے بندوں کی صفت قرار دیا اور چال میں میانہ روی اختیار کرو اور اپنے چلنے میں میانہ روی اختیار کرو اور اپنی آواز پست کروکہہ کر زور سے بولنے کی ممانعت کی گئی اوراللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کسی کی برائی اعلانیہ زبان پر لائی جائے، الا یہ کہ کسی پر ظلم ہوا ہوکہہ کر اعتدال کیساتھ بات کرنے کا طریقہ بتایا ، ادب وشاعری میں اختر شماری کو ناپسند یدہ قرار دیا، قول وعمل میں تضاد سے منع کیا ، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ ایمان وعمل صالح ، ذکر اللہ اور دفاع کے لئے اس کا استعمال مستحسن ہے ۔ 
صحیح بات یہ ہے کہ روشن خیالی کا لفظ میڈیا آج جن معنوں میں استعمال کر رہا ہے اس کی حیثیت بس ایک خوش کن نعرہ کی ہے اور اس کے پیچھے مغرب کا یہ ذہن کا م کر رہا ہے کہ ہر سمت سے جدت اور اباحت پسندی کو را ہ دی جائے ، تعلیم ، لباس ، تہذیب وثقافت ، کلچر سب میں اس کے مظاہر کھلے آنکھوں دیکھے جا سکتے ہیں ۔اگر روشن خیالی یہی ہے کہ عورتیں غیر مردوں کی باہوں میں جھولتی رہیں ، آزادی کے نام پر انہیں رقاصہ بنا دیا جائے ، جسم سے کپڑے اتار لئے جائیں، خاندان کا وجود پا رہ پارہ ہو کر رہ جائے ، بوڑھے والدین کو اولڈ ہاؤس بھیج دیا جائے ، ماں بہنوں کی عزتیں محفوظ نہ رہیں اور جوع البطن کے جذبہ سے ملکوں کو تاراج کیا جائے ۔ ہم جنسی کو قانونی تحفظ حاصل ہو اور جسم فروشی کو پیشہ کا درجہ دیا جائے تو یہ روشن خیالی مغرب کو مبارک ہو اور میں سو بار یہ کہنے کو تیار ہوں کہ ایسی روشن خیالی سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں ہے اور اسلام اس پر سو بار لعنتیں بھیجتا ہے ۔ 
اسلام کی روشن خیالی یہ ہے کہ دوسرے کے معبودوں کو برا بھلا نہ کہو،اسلام کی روشن خیالی یہ ہے کہ اگر کسی جان کو ناحق قتل کر دیا تو اس نے انسانیت کا قتل کر دیا اور اگر کسی کی جان بچالیا تو انسانیت کو بچا لیا، اسلام کی روشن خیالی یہ ہے کہ دوسروں کی بہو بیٹیوں کا احترام اپنی بہو بیٹیوں کی طرح کرو ، ان پر نگاہ مت ڈالو اور اپنی نگاہیں جھکی رکھو ، شرمگاہ کی حفاظت کرو،اسلام کی روشن خیالی یہ ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کے نام پر بچوں کو قتل مت کرو اور یہ کہ رزق کی ذمہ داری اللہ کی ہے ، جو بچہ پیدا ہوتا ہے وہ اپنے ساتھ ایک سوچنے والا دماغ اور کام کرنے والا ہاتھ لے کر آتا ہے ۔ یتامیٰ اور ضعفاء کے مال کی طرف نگاہ مت ڈالو، سارے لوگ برابر ہیں اور ان میں کسی قسم کی تفریق نہیں ہونی چاہئے ۔ یہ وہ روشن خیالی ہے جس کی مثال کسی دوسرے مذہب میں نہیں ملتی ۔ 
جس روشن خیالی کا میں نے اوپر کی سطروں میں تذکرہ کیا ہے یہ ہماری ضرورت ہے ۔ یہ روشن خیالی مذہبی اقدار پر عمل اور اسلام کی معتدل عملی شکلوں کو اپنا کر حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ اس کی وجہ سے سماج افراط وتفریط اور بہت سارے نواہی سے بچ سکتا ہے ۔ اسے اپنا کر ایک مثالی سماج کی تشکیل کی جاسکتی ہے، جس میں خیر کا عنصر غالب ہو گا اور یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔ اس نقطۂ نظر میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ۔ دنیا جس روشن خیالی کے پیچھے پا گل ہے، اسے سمجھ لینا چاہئے کہ یہ روشن خیالی اور اعتدال پسندی نہیں بلکہ یہ صالح سماجی قدروں کے خلاف بغاوت ہے ۔ اس زاویۂ نظر کی تبدیلی سے سیاسی ، سماجی ہر سطح پر اس کے مثبت اثرات پڑیں گے ۔ اور یہ دنیا جسے طاقتوروں نے ظلم کا میدان بنا رکھا ہے ، امن وسکون ، صلح وآشتی ، باہمی رواداری اور محبت والفت کے ایسے مناظر پیش کرے گی کہ یہی دنیا جنت نشاں بن جائے گی ۔