Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, December 8, 2020

اب ‏یہ ‏پورے ‏ملک ‏میں ‏ہوگا۔۔۔۔۔ن


از / ایم ودود ساجد/ صداٸے وقت۔
=============================
یوپی میں انسداد تبدیلی مذہب آرڈننس کے نفاذ کے بعد رونما ہونے والے مندرجہ ذیل دو واقعات ملاحظہ کیجئے :
1- بریلی میں ایک مسلمان لڑکی کے باپ نے پولیس سے شکایت کی کہ دو لوگوں کے ساتھ مل کر ایک غیر مسلم لڑکے نے اس کی 22 سالہ لڑکی کو اغوا کیا اور اس کا مذہب تبدیل کرانے کے بعد اس سے شادی کرلی۔۔۔ 
پولیس نے باپ کی اس شکایت پر کان نہیں دھرا اور لڑکی سے پہلے تھانے میں بیان لیا اور پھر مجسٹریٹ کے سامنے بیان دلواکر واپس اسے اس کے ہندو "شوہر" کے پاس چھوڑ آئی۔۔۔ پولیس کے مطابق لڑکی کہتی ہے کہ وہ بالغ ہے اور اس نے اپنی مرضی سے (اپنا مذہب بدل کر ہندو لڑکے امن کے ساتھ ایک مندر میں) شادی کی ہے۔۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ان دونوں نے نیا قانون نافذ ہونے سے پہلے ستمبر 2020 میں شادی کی تھی اس لئے ان پر یہ قانون لاگو نہیں ہوتا۔۔۔

اب دوسرا واقعہ دیکھئے۔۔۔۔

2- مراد آباد میں ایک مسلمان لڑکا اپنے بھائی کے ساتھ ایک غیر مسلم لڑکی کو عدالت کی طرف لے کر جارہا تھا۔۔ وہاں دونوں کا ارادہ " کورٹ میریج" کا تھا۔۔ پولیس نے دونوں بھائیوں کو نئے قانون کے تحت گرفتار کرکے 14 دنوں کیلئے جیل بھیج دیا۔۔ یہاں لڑکی کہہ رہی ہے کہ  وہ بالغ ہے' اس نے اپنا مذہب تبدیل نہیں کیا ہے اور دونوں نے ہندو رواج کے مطابق جولائی میں شادی کرلی تھی۔۔۔ لیکن یہاں پولیس نے لڑکی کی ایک نہیں سنی۔۔۔ 
دونوں واقعات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ نئے قانون کا مقصد ایک طرف جہاں یکطرفہ طور پر ہندو لڑکیوں کو اپنا مذہب تبدیل کرکے مسلمان لڑکوں سے شادی کرنے سے روکنا ہے وہیں یکطرفہ طور پر ان مسلمان لڑکوں کو گرفتار کرکے جیل بھیجنا ہے جو ہندو لڑکیوں سے ان کا مذہب تبدیل کرائے بغیر بھی شادی کرنے کی "جرات" کرتے ہیں ۔۔۔ اس کے برخلاف پولیس یا قانون کو مسلمان لڑکی کے ہندو ہوجانے اور ہندو لڑکے سے شادی کرلینے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔۔ 
آپ نے دیکھا کہ جس ہندو لڑکی نے ستمبر سے بھی پہلے جولائی میں مذہب تبدیل کئے بغیر شادی کی تھی اس کے بیان پر یقین نہیں کیا گیا اور مسلمان لڑکے کو اس کے بھائی سمیت جیل بھیج دیا گیا ۔۔ جبکہ جولائی کے کافی بعد یعنی ستمبر میں مذہب تبدیل کرنے کے بعد ایک ہندو لڑکے سے شادی کرنے والی مسلمان لڑکی کا بیان تسلیم کرلیا۔۔۔ اور وہ بھی اُس وقت کہ جب مسلمان لڑکی کا باپ شکایت کر رہا ہے کہ دفتر میں ساتھ کرنے والے امن نے اسے اغوا کرکے بالجبر مذہب بدلواکر شادی کی ہے۔۔۔ 
میرا تجزیہ' اندیشہ اور خدشہ یہ ہے کہ پورے ملک میں اور خاص طور پر یوپی میں اب ایسے ڈھیروں واقعات روشنی میں آئیں گے۔۔۔ اس ہندو لڑکے کو پورا تحفظ دیا جائے گا جو ایک مسلمان لڑکی کو ہندو بناکر اس سے شادی کرے گا اور اس مسلمان لڑکے کو جیل بھیجا جائے گا جو ایک ہندو لڑکی سے اس کا مذہب تبدیل کرائے بغیر بھی شادی کرے گا۔۔۔ 
مذکورہ دو واقعات الہ آباد ہائیکورٹ میں ایک مشترکہ رٹ ڈالنے کیلئے بہترین اور فٹ کیس ہیں ۔۔۔ لیکن یہ کام کیسے ہوگا۔۔۔ مسلم لڑکی کا خاندان بریلی کا ہے۔۔۔ مسلم لڑکے کا خاندان مراد آباد کا ہے۔۔۔ ہائیکورٹ میں موثر پیروی ہوگی تو دونوں خاندانوں کو یقینی طور پر نہ صرف یہ کہ انصاف ملے گا بلکہ اس قانون پر عمل آوری اور پولیس کے متعصب اور امتیازی سلوک پر بھی قدغن لگے گی۔۔۔
 لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ یوپی میں مسلمان' ان کی جماعتیں اور علاقائی تنظیمیں سر جوڑ کر بیٹھیں' ریاستی سطح پر ایک "لیگل کو آرڈی نیشن سیل" بنائیں اور ہر ضلع اور ہر شہر میں علاقائی سطح کی کمیٹیاں قائم کریں ۔۔۔ یہ مشترکہ محاذ اس طرح کے واقعات کی خبر سامنے آتے ہی ان کی تفصیلات جمع کرے' متاثرین سے رابطہ کرے اور پھر ان کی معرفت عدالت سے رجوع کرے۔۔۔یوپی میں مسلمانوں پر آنے والی بھیانک افتاد سے نپٹنے اور اپنے مذہب اور عقیدے کا تحفظ کرنے کیلئے اس کے علاوہ کوئی دوسری صورت کارگر نہیں ہوگی۔۔