Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, December 8, 2020

کمزور ‏ہوتا ‏دفاقی ‏ڈھانچہ۔۔۔۔۔

                      تحریر
 مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ وجھار کھنڈ۔
                    صداٸے وقت 
ہندوستان میں ریاستوں کا ایک وفاق ہے، یہ وفاق مرکز کے ذریعہ تمام ملک کو جوڑتاہے، دستور میں بعض معاملات مرکزی حکومت کے حوالے ہیں اوربعض ریاست کے ،کچھ معاملات ایسے بھی ہیں جن کا تعلق مرکز اورریاست دونوں سے ہے ،جیسے تعلیم، دستورساز کمیٹی نے برطانیہ سے پارلیمانی نظام اور امریکہ سے وفاقی ڈھانچہ لیا تھا، اس نظام کو دفعہ ۲۴۶ کے تحت ایک دھاگے میں پرونے کاکام کیا گیا، تاکہ مرکز وفاقی ریاستوں کو نظرانداز نہ کرے اور ریاستوں کی آزادی بھی ملک کے مفاد میں ایک دائرہ تک محدود رہے،مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین کے مطابق ریاست کی مدد کرے اورکسی بھی ریاست کے ساتھ سوتیلاسلوک روانہ رکھے،لیکن جب سے مرکز میں بی جے پی کی حکومت آئی ہے یہ وفاقی ڈھانچہ دن بدن کمزور پڑتاجارہاہے،اس کی بنیادی وجہ مرکزی حکومت کے ذریعہ ریاست میں غیرضروری دخل اندازی، منتخب حکومتوں میں توڑپھوڑ اورپھر صدرراج کا نفاذ کرکے حکومت کو ناجائز طور پر اپنے قبضے میں لیناجیسے امور شامل ہیں، جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت نہیں ہے وہاں معاشی پیکیج دینے میں بھی مرکزی حکومت کی جانب سے ٹال مٹول ہوتارہتاہے، اس رویہ کی وجہ سے اس وقت پورا ملک دوحصو ں میں تقسیم ہوگیاہے، ایک گروپ وہ ہے جو بی جے پی اوراس کی حلیف ہونے کی وجہ سے مرکزی حکومت کے چشم وابرو پر چل رہی ہے اوردوسری وہ ریاستیں ہیں جہاں غیر بی جے پی کی حکومت ہے، ان کا خیمہ واضح طورپر الگ ہے، اوروہ مرکزی حکومت کے تمام غلط فیصلوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوگئی ہیں، یا کم از کم انہوں نے خاموشی اختیار کررکھی ہے، اس صورت حال سے ملک کی سالمیت کو خطرہ لاحق ہورہاہے۔
اس خطرے کی گھنٹی کی آوازکوڈ۔۱۹کے موقع سے خاص طورسے سنی گئی ،صحت کا معاملہ ریاستی حکومت سے جڑا ہوا ہے، لیکن ۱۸۹۷ء کے وبائی قانون کا سہارا لے کر مرکزنے سب کچھ اپنے ہاتھ میں لے لیا، ۲۰۰۵ء کے قومی مصیبت قانون کے تحت صحت سے متعلق ہدایات جاری کیں اورغیر منصوبہ بندانداز میں لاک ڈائون لگایاگیا، جس کی مخالفت کیرل ،مغربی بنگال، مہاراشٹر اورراجستھان جیسی ریاستوں نے کیا، ان تمام میں غیر بی جے پی حکومت ہے، سرحدیں سیل ہوگئیں ، ہندوستان کے شہریوں کا ایک ریاست سے دوسری ریاست میں داخلہ ممنوع ہوگیا، جس کی وجہ سے ریاستیں بھی ایک دوسرے سے الجھتی رہیں، حکومت نے سخت رویہ اختیارکرکے اسے دبایا، اورجب اس نے محسوس کیاکہ معاملہ بگڑتاجارہاہے تو کوڈ۔۱۹ کے سلسلے میں ریاستوں کوان کا حق واپس کرکے اپنی جان چھڑانے میں عافیت محسوس کیا۔
دوسرا معاملہ زرعی قانون کا ہے، یہاں بھی ریاستیں مرکز کے بے جا قانون کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئیں، ان ریاستوں میں کسانوں کی تحریک زیادہ مضبوط ہورہی ہے جہاں غیر بی جے پی حکومتیں ہیں، پنجاب خصوصی طورپر زراعتی ریاست ہے ،یہاں کے وزیراعلیٰ بھی اس تحریک کے ساتھ ہیں۔
تیسرا معاملہ سی بی آئی جانچ کا ہے، گذشتہ چندسالوں میں آندھراپردیش ،مغربی بنگال، چھتیس گڑھ، راجستھان اورمہاراشٹرنے سی بی آئی جانچ کے لئے ریاست کی منظوری کو ضروری قرار دیاتھا، کئی موقعوں پران ریاستوں نے سی بی آئی جانچ کی منظوری نہیں دی تھی اوربالآخر عدالت نے ریاستوں کے اس فیصلے کو درست اور پورے ہندوستان میں جس ریاست کا معاملہ ہو اس کی منظوری کو ضروری قراردے کر اس قضیہ کا خاتمہ کردیا۔ان حالات میں ضروری ہے کہ مرکز کسی بھی اہم معاملہ کو ریاستوں پر نافذ کرنے کے قبل اس سے مشورہ اورتبادلہ خیال کرلیاکرے تاکہ مرکزکی جانب سے فیصلہ تھوپنے کی بات سامنے نہ آئے، خوب اچھی طرح یہ بات ذہن نشیں کرلینی چاہئے کہ مرکزی حکومت ملک کا مرکز ومحور ہے، اور ملک کے وفاقی ڈھانچہ کو مضبوط طورپر پروئے رکھنے کا ایک نظام ہے، جس سے ہرریاست کو بخوبی آگے بڑھنے کا راستہ ملتاہے، احتیاط یہ بھی کی جائے کہ معاملات سڑکوں کے بجائے گفت وشنید سے حل کرنے کی راہ نکالی جائے ورنہ اندیشہ ہے کہ ملک کا وفاقی ڈھانچہ کمزور ہوکر ٹوٹ نہ جائے۔(بشکریہ نقیب)