Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, January 1, 2021

نیپال ‏میں ‏سیاسی ‏طوفان۔۔۔۔۔۔

                    تحریر 
مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ۔
                صداٸے وقت 
 نیپال کے وزیر اعظم کے پی شرما او لی نے پارلیامنٹ تحلیل کرکے نئے انتخاب کے فیصلے سے نیپال ہی  نہیں ، ہندوستان کو بھی حیرت میں ڈال دیا ہے ، حکمراں پارٹی کے اندر اختلافات کی خبریں عام تھیں، لیکن وزیر اعظم اس حد تک چلے جائیں گے اس کا اندازہ کسی کو نہیں تھا، ادھر وزیر اعظم کولی نے وزارت سے یہ تجویز پاس کراکر صدر ودیا دیوی بھنڈاری کی خدمت میں پیش کیا اور انہوں نے نیپال کے دستور کی دفعہ ۷۶کے شق ایک اور سات اور دفعہ ۸۵ کے مطابق ان کی تجویز تسلیم کرکے ایوان کی تحلیل اور مارچ اپریل میں نئے انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا ہے، یہ انتخابات اگلے سال ۳۰؍ اپریل اور ۱۰؍ مئی کو کرائے جائیں گے ، کولی نے اس غیر معمولی قدم پر صفائی پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی ہی پارٹی کے کچھ لوگ حکومت کے کاموں میں رکاوٹیں کھڑی کر رہے تھے، جس سے ملک کی ترقی اور حکومت کے کام کاج میں دشواری پیش آ رہی تھی ، اس لیے اس کے علاوہ میرے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں رہ گیا تھا کہ میں دوبارہ عوام کے پاس جاؤں اور ان کی حمایت سے جیت کر دو بارہ حکومت بناؤں۔ 
 جیسا کہ معلوم ہے کہ نیپال کمیونسٹ پارٹی( این اس پی) کے سینئر لیڈران پشپ کمل داہال پر چنڈ مادھو کمار نیپال جھال ناتھ کھنال اور ان کے ہم نوا اولی کی سخت مخالفت کر رہے تھے ۔۲۰۱۷ء میں ان کی پارٹی کی جیت ہوئی تھی اور انہوں نے نیپال کمیونسٹ پارٹی (ماؤوادی) کی حمایت سےدو تہائ اکثریت کے ساتھ وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالاتھا۔
 اُولی کے عہد حکومت میں نیپال اور ہندوستان کے تعلقات سرد مہری کا شکار رہے ، بلکہ ہندوستان کے بعض علاقوں پر نیپال نے اپنا دعویٰ ٹھونکا تھا، جس سے دوریاں بڑھ گئی تھیں، حال میں سیاسی گفت وشنید کے ذریعہ یہ مسئلہ ٹھنڈا پڑا تھا اور توقع کی جارہی تھی کہ ہندونیپال تعلقات میں مزید بہتری آئے گی ، لیکن وزیر اعظم نیپال کے اس قدم نے ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا۔
کے پی شرمااولی کی پارٹی نے ان کے خلاف کاروائی کے فیصلے کے لیے میٹنگ بلائی ، اُولی نے یہ کہہ کر اسے رد کر دیا  کہ میں پارٹی کا اول صدر ہوں کسی دوسرےکے ذریعہ بلائی جانے والی میٹنگ غیر قانونی ہوگی اور اس کے ذریعہ میرے خلاف کوئی کارروائی قابل قبول نہیں ہوگی، جب کہ پارٹی کے سینئر لیڈران اُولی کے اس قدم کو غیر جمہوری ، غیر آئینی اور ان کی ذاتی رائے قرار دے کر ان کے خلاف کارروائی کے لیے مصر ہیں۔ادھر نیپال کی عدالت نے بھی سماعت کے لئے کئ درخواستوں کو قبول کر لیا ہے. 
 نیپال کی عوام بھی دو خیموں میں بنٹ گئی ہے اور ہندوستان کی سرحد سے متصل اضلاع ویر گنج، روتہٹ اور وراٹ نگر میں بڑے پیمانے پر احتجاج اور مظاہرے جاری ہیں، مستقبل قریب میں اس میں تیزی آنے کا امکان ہے، اس طرح نیپال کا سیاسی طوفان وہاں کی سیاست کو تو متاثر کرے گا ہی ، اس کی وجہ سے ہندونیپال تعلقات بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔کیوں کہ ہندو نیپال کارشتہ دو پڑوسی ملک کا ہی نہیں بیٹی روٹی کا بھی ہے. 
(بشکریہ نقیب)