Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, January 14, 2021

کھلا ‏خط۔۔امت ‏کے ‏نام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک ‏مراسلہ

مرسل / محمد ابصار صدیقی / صداٸے وقت 
==============================
 مکرمی سلام مسنون۔۔

گزشتہ چند دنوں سے  امت کے سیاسی حلقے میں یہ باز گشت پھر سے دوڑ رہی ہے کی آیا سیکولر سیاست کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں ۔یہ حالات تب پیدا ہوئے ہیں جب ایک معروف اور ممتاز ممبر آف پارلیمنٹ کا پروانچل دورہ ہوا۔ امت کے بیشتر حلقے میں یہ ایک خوبصورت روایت ابھی بھی موجود ہے کی سیاسی بصیرت الحمدللہ بہت حد تک ناکامیاب صحیح مگر کام کرتی ہے۔ ہے انتہا دلیل اور سیاق و سباق سے بھرپور ۔ مگر ایسے سیاسی حالات میں اگر حق کی ایک آواز کہیں سے بلند ہوتی ہے تو گویا امت کو یہ محسوس ہونے لگتا ہے کی فرقہ پرست طاقتوں کی مضبوطی کا اثر یہ ہی اسباب ہیں۔  آزاد ہندوستان میں امت کی اسی سادہ لوحی کا سیاسی فائدہ بہت سے علماء نے جہاں اٹھایا وہی سیاسی رہبروں نے بھی نام نہاد سیکولر کا لبادہ اوڑھ کر اٹھایا ہی۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ کا یہ ایک المناک باب رہا ہے کی کس طرح امت کو ٹھگا گیا ہے۔ آزادی کے فوراً بعد لکھنؤ کے جلسہ میں جہاں مولانا ابول کلام آزاد صاحب کو بھیجا گیا کہ مسلمانوں کو سیاست سے توبہ کرائی جائے ۔ اور اس جلسے میں  جس نے مولانا کی مخالفت کی اور کانگریس کے موقف کو رد کیا  آج ان ہی  لوگوں کے جانشین امت کی ایک   سیاسی شخصیت  ہیں اور ایک آواز بن کر موجود ہیں پارلیمنٹ میں۔ ہماری قوم نے  پوری طرح سے سیاسی رو  میں شرلاک ہومز کو بھی فیل کر دیا ہے۔ سیاسی طور پر میں ذاتی مبارکباد دینا چاہتا ہو ہمارے وزیر اعظم کو  جنہوں نے اس طلسم کو توڑ کر رکھ دیا کی اقلیت ابھی تک اسی بھرم میں تھی کی ھمارے بنا حکومت نہیں بن سکتی۔۔کیا شاعر۔کیا دانشور۔کیا ادیب۔کیا علماء۔ سب کے منہ پر گویا تالا لگ گیا ۔۔ مگر وقت کی ستم ظریفی کا کیا کیا جائے کی ابھی بھی سیکولر کے حامی حواری اسی طلسم میں جی رہے ہیں اور جس سیکولرزم کا جنازہ نکل گیا ہے اسی کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔۔ مگر یقین کی حد تک اگر صرف بات سیکولر بنیاد کو مضبوط کرنے کی ہوتی تی بات کچھ حد تک سمجھ میں آ سکتی ہے مگر بےچینی انکی زیادہ دکھائی دی جو سیکولر کی آڑ میں  اپنی ذاتی فائدے کی بنیاد مضبوط کر رہے تھے۔۔
جن کندھوں پر سیکولر اقدار کو مضبوط کرنے کا بوجھ ہے کیا وہ خود یہ ذمےداری اٹھا رہے ہیں۔جواب بالکل نفی میں ہوگا اور حالات واضح ہیں پوری طرح۔ قوم کی سیاسی حالت اس خارش زدہ جانور کی ہو گئی ہے جس کو روٹی تو ملتی ہے خیرات کی مگر اُسکا صحیح علاج نہیں ملتا ۔ اگر کبھی ان حالات کو بدلنے کی ایک ایماندار کوشش ہوتی ہے تو ہمارے بیچ موجود حواری پوری طرح شرلاک ہومز بن جاتے ہیں۔جبکہ تلخ حقیقت یہ ہے کی ہمارے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا۔ قوم کا دردناک المیہ یہ ہے کی ہمکو نتائج فوری چاہیے۔ ایک سے زائد مرحلے ایسے آئے ہیں جہاں سیکولرزم کا دم بھرنے والے ایک چوں تک نہیں کر پائے۔ مشہور فقرہ ہے استعمال کرو اور پھینکو۔ یہ ہے کم و بیش آزادی کے بعد سے قوم کے ساتھ استعمال کیا گیا۔اور ارباب سیاست ہمسے  کھیلتے چلے آئے ہیں۔ ہم اب نہیں جاگے تو ہماری آنی والی نسلوں کو ہم کیا سیاسی مستقبل دینگے یہ صاف ظاہر ہے۔سیکولرزم کا جو بوجھ ہم نے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے یہ ہی ہماری سب سے بڑی سیاسی غلطی ہے شمالی ہندوستان میں۔  بہ حیثیت ایک قوم کیرالا آندھرا تمل ناڈو کے مسلمان ہمسے کہیں زیادہ سیاسی شعور اور زندگی کے ہر میدان میں ہمسے آگے ہیں۔ اور اسکی وجہ بالکل صاف ہے۔  اس کے بر عکس شمالی ہندوستان کے مسلمانوں کے حالات  آزادی کے بعد سے ہی سیکولرزم کے بوجھ اٹھاتے اٹھاتے کندھے  ٹوٹ چکے ہیں۔اور سب سے دلچسپ امر یہ ہے کی ان ہی علاقوں میں فرقہ پرست طاقتیں مضبوط ہوئی ہیں سب سے زیادہ۔۔شمالی ہندوستان کے مسلمانوں کو یہ سمجھ آ جانا چاہیے آزادی کے بعد سے ہمکو مسلمان لیڈر شپ نہیں ہمکو مداری کے بندر سونپے گئے ہیں ایک سازش کے تحت۔۔وقت کی اشد ضرورت ہے کی ہم حالات کو اور خراب ہونے سے خود بچائیں اور بلا تفریق ایک قائد کے پیچھے متحد ہوں۔ ورنہ علامہ اقبال یہ الفاظ کافی ہونگے۔۔
بتوں سے انکو  امیدیں خدا سے نو امیدی۔
مجھے بتا تو سہی اور کافر ی کیا ہے۔۔۔

محمد ابصار صدیقی۔
پھولپور۔ اعظم گڑھ۔۔
نوٹ۔۔۔مضمون نگار کے خیالات سے صداٸے وقت کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔