Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, January 15, 2021

ڈاکٹر ‏مشتاق ‏احمد ‏مشتاق۔۔۔۔

                       تحریر
*مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ*
                      صداٸے وقت 
==============================
 ویمنس کالج حاجی پور ضلع ویشالی کے صدر شعبۂ اردو ، کئی کتابوں کے مصنف، حاجی پور میں اردو تحریک کے مضبوط ستون ، انجمن ترقی اردو ضلع ویشالی کے سابق اور کاروان ادب ضلع ویشالی کے جوائنٹ سکریٹری، انجمن ترقی اردو بہار کی مجلس عاملہ کے سابق رکن اور کاؤنسلر، مرنجا مرنج ، خود دار، وضع دار، قناعت پسند اور راضی برضائے الٰہی کی عملی اور حقیقی تصویر ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق نے صرف انسٹھ(۵۹) سال کی عمر میں داعیٔ اجل کو لبیک کہا ، عوارض کئی تھے، جسے وہ برسوں سے جسم وجان پر اٹھائے زندگی کی گاڑی کھینچ رہے تھے، سائیکل ان کی پسندیدہ سواری تھی، لیکن درد کی وجہ سے اس پر سواری دشوار ہو گئی تو دوسری عوامی سواری کا استعمال کرنے لگے، آخری وقت میں ہچکیوں کا غلبہ تھا، ہمارے دیار میں مشہور ہے کہ ہچکیاں کسی کے یاد کرنے سے آتی ہیں، اگر چہ یہ بات تجربے اور مشاہدہ کی بنیاد پر کہی جاتی رہی ہے، شرعی اس کی کوئی اہمیت کسی درجہ میں نہیں ہے، ہچکیوں کی کثرت سے ایسا لگ رہا تھا تھا کہ اللہ انہیں اپنے پاس بلانا چاہتے ہیں، تکلیف زیادہ تھی، اس لیے ان کے آبائی گاؤں بھیرو پور سے اٹھا کر اوما ہوسپیٹل کنکڑ باغ میں انہیں بھرتی کرایا گیا ، جہاں انہوں نے ۳؍ دسمبر ۲۰۲۰ء مطابق ۱۷؍ ربیع الثانی ۱۴۴۲ھ ، ۳؍ اگہن ۱۴۲۸ فصلی شب جمعہ بوقت نو بجے آنکھیں موندلیں، جنازہ کی نماز اگلے دن بعد نماز جمعہ ۳؍ بجے شام میں ادا کی گئی ، ان کے ماموں زاد بھائی مولانا ولی الرحمان اشاعتی نے جنازہ کی نماز پڑھائی اور بھیرو پور (حاجی پور، ویشالی) کے مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں صرف اہلیہ ارشدی فاطمہ ، ایک بھائی اور چار بہن کو چھوڑا، والدین پہلے ہی جنت مکانی ہو چکے تھے۔
                 ڈاکٹر مشتاق احمد 

 ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق بن ممتاز احمد (م ۲۰۰۴ئ) بن عبد المجید بن عبد الشکور کی ولادت ۸؍ فروری ۱۹۶۱ء موضع بھیرو پور (بدر پور) حاجی پور ضلع ویشالی میں ان کی نانی ہال میں ہوئی ، والدہ اصغری خاتون بنت عبد الحفیظ کا انتقال ابھی چند سال پہلے ہوا، ان کی دادی ہال چک جادو درگاہ بیلا موجودہ ضلع ویشالی تھی، لیکن ان کے والد نقل مکانی کرکے اپنی سسرال میں آ بسے تھے، ابتدائی تعلیم ناظرہ قرآن وغیرہ انہوں نے جامع مسجد بھیرو پور کے امام اور گاؤں کے معلم حافظ عزیز الرحمان مرحوم سے حاصل کیا، حافظ عزیز الرحمان صاحب کھیری بانکا ضلع مدھوبنی کے رہنے والے تھے اور پچاس سال سے زائد یہاں امامت کے فرائض انجام دیے، گاؤں کے لوگوں نے ان کی پچاس سالہ خدمات کے اعتراف میں ایک شاندار تقریب کا انعقاد غالبا گولڈن جبلی کے عنوان سے کیا تھا، مشتاق صاحب نے اس موقع سے عزیز الرحمان صاحب کی آپ بیتی اور بیاض کو کتابی شکل دی تھی، انہوں نے خود بھی ایک مضمون حافظ عزیز الرحمان صاحب پر لکھا تھا اور مجھ سے بھی کہہ سن کر لکھوایا تھا، یہ مضمون یادوں کے چراغ جلد دوم میں حافظ عزیز الرحمان صاحب کی زندگی میں ہی شائع ہو گیا تھا۔
مکتب سے نکلنے کے بعد انہوں نے عصری تعلیمی اداروں کا رخ کیا، دسویں (میٹرک) کا امتحان جنتا ہائی اسکول پانا پور سے پاس کرنے کے بعد انہوں نے آر این کالج حاجی پور میں داخلہ لیا اور انٹر اور بی اے کی تعلیم اسی کالج سے مکمل کی ، یہاں انہیں پروفیسر ثوبان فاروقی جیسے نامور شاعر، ادیب، نقاد اور ڈرامہ نگار سے شرف تلمذ حاصل ہوا، اقبال شناس ، ادیب ونقاد، ڈاکٹر ممتاز احمد خان نے یہیں انہیں مضمون نگاری کے اصول وجزئیات کی عملی مشق کرائی، ڈاکٹر ممتاز احمد خان کے تحقیقی مقالہ کی تسوید وتبیض میں ہاتھ بٹا کر تحقیق کے فن سے آشنا ہوئے، انوار الحسن وسطوی نے انجمن ترقی اردو ، کاروان ادب سے جوڑ کر اردو کی محبت ان کی گھٹی میں پلائی، اس طرح ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق کی علمی وادبی صلاحیتیں پروان چڑھیں، اردو کی ترویج واشاعت کے کاموں میں  تازندگی مشتاق احمد مشتاق ان کے ساتھ مل کر مثلث بناتے رہے ، اسی درمیان ۱۹۸۸ء میں انہوں نے بہار یونیورسٹی مظفر پور سے ایم اے اردو میں کامیابی حاصل کی اور طویل وقفہ کے بعد ڈاکٹر ممتاز احمد خان کی نگرانی میں’’ اردو شاعری میں طنز ومزاح کی روایت اور رضا نقوی واہی کی شاعری‘‘ پر مقالہ لکھ کر ۲۰۰۳ء میں ڈاکٹریٹ کرلیا، ان کا یہ تحقیقی مقالہ اب تک زیور طبع سے آراستہ نہیں ہو سکا ہے۔ 
۱۹۹۰ء میں وہ ویمنس کالج حاجی پور شعبہ اردو سے بحیثیت صدر شعبہ منسلک ہوئے اور کوئی تیس سال پورے خلوص دلجمعی سے طلبہ کو اردو پڑھانے کا کام کیا وہ تا حیات اس منصب پر فائز رہے۔
ان کی سب سے پہلی تصنیف ’’مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی شخصیت اور خدمات‘‘ تھی جسے انہوں نے قلمی مجلد شکل میں حاجی پور سمینار میں مجھے پیش کیا تھا، یہ سمینار انجمن ترقی اردو ضلع ویشالی نے منعقد کیا تھا اور میری ذات، اور فن کو موضوع سخن بنایا تھا، یہ سمینار ۲۰۰۳ء میں ہواتھا، اور یہ کتاب ۲۰۰۵ء میں پہلی بار طبع ہو ئی تھی، بعد میں اس کا دوسرا ایڈیشن نظر ثانی ، اضافے اور جدید ترتیب کے ساتھ شائع ہوا۔
ان کی دوسری کتاب’’ ذکی احمد شخصیت اور شاعری‘‘ ۲۰۰۹ء میں منظر عام پر آئی ، ’’ڈاکٹر ممتاز احمد خان ، ایک شخص ایک کارواں‘‘ کی ترتیب ۲۰۱۵ء میں مکمل ہوئی اور چھپ بھی گئی ، اسی درمیان انہوں نے اپنے مضامین کا مجموعہ ’’ذوق ادب‘‘ مرتب کرکے شائع کر دیا ، ان کا دوسرا مجموعہ بھی ’’برگہائے ادب ‘‘ کے نام سے تیار تھا، لیکن وسائل کی عدم فراہمی کی وجہ سے وہ قارئین کی نظروں سے اب تک اوجھل ہے، ان کا یہ مسودہ مالی امداد کے لیے اردو ڈائرکٹوریٹ میں جمع ہے، زندگی کے آخری ایام میں پروفیسر ثوبان فاروقی مرحوم پر بھی وہ کتاب ترتیب دے رہے تھے اس مجموعہ کے لیے ایک مضمون انہوں نے مجھ سے بھی لکھوانے میں کامیابی حاصل کر لی تھی ۔
اردو کے لیے ان کی اس خدمت کو دیکھتے ہوئے دانش مرکز پھلواری شریف نے ۲۰۱۵ء میں انہیں پروفیسر وہاب اشرفی یادگاری ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔
معاشی بست وکشاد اور بہنوں کی شادی وغیرہ نے ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق کو اپنا گھر بسانے کے خیال سے دور رکھا ، ہم لوگ ولیمہ کی خواہش کا اظہار کرتے رہے، لیکن حالات اس کی اجازت نہیں دے رہے تھے، بالآخر ۲۵؍ جولائی ۲۰۱۱ء کویہ روز سعید آیا کہ وہ حکیم افتخار منظر مرحوم عالم گنج پٹنہ کی دختر نیک سے رشتۂ ازدواج میں بندھ گئے، کم وبیش دس سال بلکہ آخری دم تک رفاقت رہی، مگر اولاد سے محروم رہے، اللہ رب العزت کا اس سلسلے میں واضح ارشاد ہے کہ وہ جسے چاہتا ہے لڑکا دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکی دیتا ہے، جسے چاہتا ہے دونوں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ بنا دیتا ہے، چنانچہ ان کے حصے میں اولاد کی مسرت نہیں آئی، لیکن وہ راضی برضائے الٰہی تھے، اس لیے کبھی کسی کے سامنے معاشی تنگی اور اولاد کی محرومی کا ذکر نہیں کرتے، وہ اسے اپنی خود داری کے خلاف سمجھتے، ہم جیسے لوگ بھی ان کے سامنے ان دونوں موضوع پر گفتگو سے گریز کرتے کہ مبادا یہ گفتگو ان کے اوپر بار نہ ہو۔
 اردو تدریس کے ساتھ اردو تحریک کے حوالہ سے بھی ان کا نام وکام بہار میں معتبر تھا، وہ کوئی بیس سال (۲۰۰۹۔ ۱۹۸۹) انجمن ترقی اردو ضلع ویشالی شاخ کے جوائنٹ سکریڑی رہے، انجمن ترقی اردو بہار کے کاؤنسلر اور صوبائی مجلس عاملہ کے رکن کے طور پر کام کیا، ۲۰۱۱ء سے وہ کاروان ادب حاجی پور کے جوائنٹ سکریٹری تھے اور جناب انوار الحسن وسطوی کے معاون کے طور پر کام کر رہے تھے، واقعہ یہ ہے کہ ادبی پروگراموں میں شرکت کا ان کا جیب متحمل نہیں تھا، لیکن ضلع ویشالی اور راجدھانی پٹنہ کی ادبی تقریبات جواردو کے حوالے سے منعقد ہوتیں اس میں وہ ضرور شرکت کرتے، یہ پروگرام ان کی روح کی غذا تھی اور وہ جسم کو توانائی پہونچانے کے لیے غذائی اجناس کے استعمال کی طرح ہی اردو کے پروگراموں میں شرکت کو روحانی ، علمی اور لسانی ضرورت سمجھتے تھے، اس لیے اس کے لیے وقت نکالتے ، سفر کی صعوبت برداشت کرتے اور آمد ورفت کے اخراجات کے لیے زیر بار بھی ہوتے، لیکن اردو کے ساتھ عاشقانہ وابستگی اور جنون انہیں یہ سب کرنے پر آمادہ کرتا اور وہ شرکت سے کبھی انکار نہیں کرتے۔ یہ تعلق اور شیفتگی ان کی مشاعروں میں بڑھ جاتی تھی وہ اچھے شعروں پر داد دیتے؛ بلکہ مقالہ سنتے وقت بھی اچھے جملوں اور بہترین تعبیرات پر مچل جاتے اور داد دینا شروع کر دیتے۔ تواضع اور انکساری ان کی پہچان اور قناعت ان کی شان تھی، مرنجا مرنج ہونے کی وجہ سے لوگ ان سے قریب ہوتے، محبت کرتے، جان چھڑکتے اور گرویدگی کے عروج پر پہونچ جاتے۔
 مجھ پر انہوں نے اچھا خاصہ کام کیا تھا اور کہنا چاہیے کہ مجھے اس وقت پہچان لیا تھا، جب میرے روابط محدود تھے، انہوں نے مجھ پر کتاب مرتب کر ڈالی، ایک ایسے آدمی پر جس سے ان کا کسی طرح کا مفاد وابستہ نہیں تھا، مولوی ، دعاؤں کے علاوہ اور دے بھی کیا سکتا ہے، مجھے اس کا احساس بہت ہوتا ہے کہ میں ان کی محبت کا کوئی صلہ انہیں نہیں دے سکا، قلم ہاتھ میں تھا، لیکن ان کے لیے بہت کچھ لکھ بھی نہیں سکا، ذکی احمد پر جو کتاب انہوں نے مرتب کی تھی، اس پر ایک مضمون لکھ دیا تھا، جو اس کتاب کے اجراء کے موقع سے ڈاکٹر ممتاز احمد خان صاحب کے دولت کدہ ساجدہ منزل میں خودہی پڑھ دیا تھا اور بس اللہ اللہ خیر صلی 
پھر جب میرا امارت شرعیہ آنا ہوا، تو فطری طور پر ان کی دلچسپی امارت شرعیہ سے بڑھی ، گاؤں کی تنظیم کے وہ پہلے سے ممبر تھے اور قومی محصول بڑی پابندی سے ادا کرتے تھے، ویشالی میں وفد کے دوروں کی ترتیب بنتی اور ان کا گاؤں بھی اس میں شامل ہوتا تو خصوصی دلچسپی لیتے اور وفد کی آمد کو ہر اعتبار سے کامیاب کرنے کی کوشش کرتے، یہی حال ان کا گاؤں کی دوسری سیرت کے جلسے اور کسی بھی پروگرام کے موقع سے ہوا کرتا، ایک زمانہ میں ان کے گاؤں کے ہر چھوٹے بڑے پروگرام میں مجھے شرکت کی دعوت ملتی اور میں شریک بھی ہوتا، ان دعوتوں میں ان کی دلچسپی کا بھی عمل دخل ہوتا، جب تک میرا قیام وہاں ہوتا مسلسل ساتھ لگے رہتے۔
ان کی جدائی پر دل خون کے آنسو روتا ہے، مگر زبان پر وہی کلمہ جو آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا ہے للہ ما اخذ ولہ ما اعطی وکل شئی عندہ لاجل مسمی ۔ اللہ ہی کے لیے وہ سب کچھ ہے جو اس نے لیا، دیا اور ہر چیز کا اس کے پاس ایک وقت مقرر ہے، اس کا مطلب ہے کہ ہم ان کی موت کو بے وقت کی موت بھی نہیں کہہ سکتے، اور ان کے انتقال پر رنج بھی نہیں کر سکتے کیوں کہ موت تو اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ کے کسی کام پر بندوں کو رنج کا حق نہیں ہے ، ہاں غم سبھی کو ہے اور یہ غم تو اب حرز جاں سا ہو گیا ہے ، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین وصلی اللہ علی النبی الکریم وعلی اٰلہ وصحبہ اجمعین۔