Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, January 5, 2021

ایک ‏ہو ‏جاٸیں ‏تو ‏بن ‏سکتے ‏ہیں ‏خورشید ‏مبیں۔۔۔۔۔۔۔

                  تحریر 
،شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی امام جامع مسجد شاہ میاں رہوا ویشالی بہار۔
                 صداٸے وقت 
=============================
قارئین کرام ۔ 
یہ حقیقت ہے کہ آج ہم مسلمان ٹکڑیوں میں بٹے ہوئے نظر آرہے ہیں ہمارا تشخص حسد ونفاق کے درمیان مٹتا  نظر آرہا ہے اور یہی اختلاف ہمیں صدیوں پیچھے ڈھکیل رہا ہے ہر خانقاہ دوسری خانقاہوں سے چپقلش رکھتی ہے اکثر  دارالعلوم آپس میں چشمک رکھتے ہیں ایک پیر دوسرے پیر پر اپنی برتری ثابت کرنے میں مصروف ہے ہر عالم دوسرے کو کمتر سمجھتے ہوئے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنا لیتا ہے فروعی قسم کے مسائل پر بھی منفی شور بپا ہو جاتا ہے جو مستقبل کے لیے نہایت ہی خطرناک بھی ہے اور افسوسناک بھی 
حالانکہ امت کا کوئی بھی اختلاف ایسا نہیں جس کا تصفیہ نہ ہو سکے دنیا میں ہزاروں مسائل ایسے ہیں جہاں فقہی احکام اور مسائل میں علماء صوفیاء کا اختلاف ہوتا نظر آیا دلائل کے اختلافات آج بھی فقہی مسائل میں موجود ہیں مگر یہ اختلاف زحمت نہیں بلکہ تحقیق اور تدقیق کی راہ میں رحمت ہیں لیکن آج چونکہ ہم میں ایک دوسرے کی فکر اور تحقیق کو برداشت کرنے کی صلاحیت مفقود ہو چکی ہے  جو اتحاد کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے
یہ بات تو ڈھکی چھپی نہیں کہ اس وقت بحثیت مجموعی مسلمانوں کی ہوا اکھڑ چکی ہے نہ ان کی عزت و عظمت ہے نہ رعب و دبدبہ دنیا کا کوئی ملک بھی ان سے نہیں ڈرتا اور وہ ہر کسی سے ڈرتے ہیں عالمی سطح پر ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے ان کو ایک کمزور امت تصور کیا جاتا ہے حد تو یہ ہے کہ ان کے محبوب رہبر و رہنما اور کائنات کے سردار حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمسخر کیا جارہا ہے ازواج مطہرات  کی بے حرمتی کی جا رہی ہے اسلام کے پہلے جانثاروں یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف کتابیں لکھی جارہی ہیں یہ سب کچھ اس لئے ہو رہا ہے کہ اقوام عالم میں مسلمانوں کا وقار اور رعب و دبدبہ ختم ہو چکا ہے جس مسلمان سے کبھی قیصر و کسریٰ جیسی سپر طاقت لرزہ بر اندام تھیں آج وہ ہر کسی سے ڈرے اور سہمے رہتے ہیں  ان سے چھوٹے  اور ماتحت افراد بھی نہیں ڈرتے اور یہ بھی سن لیں کہ عالمی سطح پر مسلمانوں کو کمزور اور ذلیل کرنے والے جو مختلف اسباب ہیں ان میں سب سے بڑا سبب مسلمانوں کا باہمی جنگ و جدل اور نزاع اور اختلاف و افتراق ہے مسلمان امت چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں فرقوں اور جماعتوں میں بٹی ہوئی ہے ہر شخص اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد الگ بنانے کی فکر میں ہے کفر کے فتوے لگ رہے ہیں ایک دوسرے کو ختم کرنے کی کوشش جاری ہے  مسلمان کا خون مسلمان ہی بہارہا ہے ۔ 
یہ  وہ امت ہے۔ 
حیرت ہوتی ہے کہ یہ وہی امت ہے جسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلسل محنت اور تربیت کے بعد باہم شیروشکر  بنا دیا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ مختلف علاقوں کے رہنے والے تھے مختلف قبیلوں سے تعلق رکھتے تھے ان کی زبان اور رنگ بھی مختلف تھے مگر انہوں نے زبان نسل اور قومیت کے تمام امتیازات مٹا دیئے تھے اور اب وہ آپس میں بھائی بھائی بن کر رہتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں سلمان فارسی تھے بلال حبشی تھے صہیب رومی تھے تھے ابوسفیان اموی تھے عدی طائ تھے ضماد ازدی تھے سراقہ جعشمی تھے  مگر جو بھی تھے بھائی بھائی تھے اور بھائی بھی ایسے۔ انما ا لمو منون اخوۃ کی تفسیر عملی طور پر سمجھ آتی تھی  خود بھوکے رہ کر دوسرے کو کھلا تے تھے خود پیاسے رہ کر دوسرے کو سیراب کرتے تھے بلکہ حد یہ کہ پیاس کی وجہ سے جان سے گزرنا تو گوارا کرلیتے تھے مگر دوسرے بھائی کو پیاسا دیکھنا انہیں برداشت نہ تھا۔  اخوت ہو تو ایسی ۔  حضرت ابو جہم بن حذیفہ  کہتے ہیں کہ یرموک کی لڑائی میں اپنے چچا زاد بھائی کی تلاش میں نکلا وہ لڑائی میں شریک تھے اور ایک مشکیزہ پانی کا میں نے اپنے ساتھ لیا کہ ممکن ہے وہ پیاسے ہوں تو پانی پلاؤں اتفاق سے وہ ایک جگہ اس حالت میں پڑے ہوئے ملے کہ دم توڑ رہے تھے اور جان کنی شروع تھی میں نے پوچھا پانی کا گھونٹ دوں انہوں نے اشارہ سے ہاں کی اتنے میں دوسرے صاحب نے جو قریب ہی پڑے تھے اور وہ بھی مرنے کے قریب تھے آہ کی میرے چچا زاد بھائی نے آواز سنی تو مجھے ان کے پاس جانے کا اشارہ کیا میں ان کے پاس پانی لے کر گیا وہ ہشام بن العاص تھے ان کے پاس پہنچا ہی تھا کہ ان کے قریب ایک تیسرے صاحب صاحب اسی حال میں پڑے دم توڑ رہے تھے انہوں نے آہ کی ہشام بن العاص نے مجھے ان کے پاس جانے کا اشارہ کیا میں ان کے پاس پہنچا تو ان کا دم نکل چکا تھا ہشام کے پاس واپس آیا تو وہ بھی جاں بحق، ہوچکے تھے  ان کے پاس سے اپنے بھائی کے پاس لوٹا تو اتنے میں وہ بھی ختم ہو چکے تھے کیا انتہا ہے اس ایثار کی کہ اپنا بھائی آخری دم توڑ رہا ہو اور پیاسا ہو ایسی حالت میں کسی دوسرے کی طرف توجہ کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے چہ جائیکہ اس کو چھوڑ کر دوسرے کو پانی پلانے چلا جائے اور مرنے والوں کی روحوں کو اللہ  اپنے فضل سے نواز یں کہ  مرنے کے وقت بھی جب ہوش و حواس سب ہی جواب دے دیتے ہیں یہ لوگ ہمدردی میں جان دیتے ہیں۔ 
بکرے کی سری کا چکر کاٹ کر واپس آنا ۔ 
حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک صحابی کو کسی شخص نے بکرے کی سری ہدیہ کے طور پر دی انہوں نے خیال فرمایا کہ میرے فلاں ساتھی زیادہ ضرورت مند ہیں کنبہ والے ہیں اور ان کے گھر والے زیادہ محتاج ہیں اس لئے ان کے پاس بھیج دی ان کو ایک تیسرے صاحب کے متعلق یہ  خیال پیدا ہوا اور ان کے پاس بھیج دی غرض  اسی طرح سات گھروں میں پھر کر وہ سری  سب سے پہلے  صحابی کے گھر لوٹ آئی۔ اس قصہ سے ان حضرات کا عام طور سے محتاج اور ضرورتمند ہونا بھی معلوم ہوتا ہے اور یہ بھی کہ ہر شخص کو دوسرے کی ضرورت اپنے سے مقدم معلوم ہوتی تھی۔ 
ایمان اور اتحاد کی طاقت ۔ 
جب تک مسلمانوں میں اخوت و محبت اور اتحاد و اتفاق کا یہ رشتہ برقرار رہا وہ ساری دنیا پر چھائے رہے اور جب سے انہوں نے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے اور ایک دوسرے کو گرانے کا عمل شروع کیا ہے وہ اقوام عالم میں ذلیل و خوار ہوتے جارہے ہیں پہلے مسلمانوں کے پاس سونے چاندی کی دولت نہیں تھی بلکہ ایمان کی دولت تھی ان کے پاس پیٹرول اور معدنیات  کے ذخائر نہیں تھے البتہ اللہ کی ذات پر یقین اور اعتماد کا عظیم ذخیرہ ان کے پاس تھا  آپس میں اتحادو اتفاق کی قوت ان کے پاس تھی۔ اللہ کے بندو  تمہاری کمزوری کی وجہ سازوسامان کی کمی نہیں تمہاری کمزوری کی وجہ ایمان و یقین اور اتحاد و اتفاق کا فقدان ہے کفر کی بڑی بڑی طاقتیں صحابہ سے ان کے سازوسامان کی وجہ سے نہیں ڈرتی تھی بلکہ ان کے یقین محکم اور بے مثال اتحاد کی وجہ سے ڈرتی تھی جب مسلمانوں میں یہ چیز باقی نہ رہی تو ان کا رعب اور دبدبہ بھی باقی نہ رہا۔ 
اندلس میں کیا ہوا ۔ 
اندلس جس کے ساحل پر مشہور اسلامی جرنیل طارق بن زیاد نے کشتیاں جلا ڈالی تھیں جہاں آٹھ سو سال تک مسلمانوں نے انتہائی شان و شوکت سے حکمرانی کی جہاں کی جامع مسجد قرطبہ آج بھی مسلمانوں کی عظمت رفتہ پر آنسو بہا رہی ہے جہاں کی نہریں اور باغات محل اور کوٹھیاں آج بھی اپنے معماروں کو یاد کرتی ہیں آپ جانتے ہیں وہاں کیسے اور کب زوال آیا وہاں اسی وقت زوال آیا جب مسلمانوں نے کلام اللہ کو پس پشت ڈال دیا تھا اور وہ فرقوں اور گروہوں میں بٹ گئے تھے وہ ایک دوسرے پر فتوے لگا رہے تھے اور اسلام کے بجائے اپنے خاندانوں اور قومیتوں پر فخر کرتے تھے ایک مسلمان سردار دوسرے مسلمان سردار کو دیکھنا گوارہ نہیں کرتا تھا بلکہ ایک دوسرے کے خلاف عیسائیوں سے بھی مدد طلب کر لیتے تھے مسلمانوں نے خود عیسائیوں کے ہاتھوں سے خوشی خوشی مسلمانوں کو ذبح کرایا جس کی وجہ سے اس کے دل سے اسلام اور مسلمانوں کا وقار اور رعب ختم ہو گیا  جب مسلمانوں نے قرآن مجید کا حکم تم سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو کو نظر انداز کیا اور باہمی اختلاف کا شکار ہوئے اور مسائل میں الجھ گئے ان کو تباہی بربادی ذلت و خواری کا منہ دیکھنا پڑا اندلس میں مسلمانوں نے سیکڑوں سال تک بڑی شان و شوکت کے ساتھ حکومت کی اس وقت کی بنی عمارتیں اس وقت کی تہذیب و تمدن اور آباد کی ہوئی نشانیاں  علم و ثقافت کے معیار سے یورپی ممالک نے سبق حاصل کیا ایک وہ وقت آیا کہ ان کو اپنے محل و تمام تر آثار چھوڑ کر جانا پڑا اس لیے کہ جب تک وہ موحد تھے کلمہ توحید کی بنیاد پر مربوط تھے سب کچھ ٹھیک تھا جب اختلافات کا شکار ہوئے قبائلی عصبیت پیدا ہوئی علاقائی جھگڑے جگہ جگہ طول پکڑنے لگے تو عیسائیوں نے اندلس پر قبضہ کرلیا مسلمانوں کا قتل عام کیا اور ان کی عزت و وقار کو خاک آلود کردیا اور بڑی ہی ذلت و رسوائی کا سامنا کرناپڑا۔  علامہ اقبال نے اسی کی جانب اشارہ کیا ہے۔ 
اے گلستان اندلس وہ دن ہیں یاد تجھ کو۔ 
تھا تیری ڈالیوں پہ جب آشیاں ہمارا۔ 
قرآن اور سنت میں غور کرنے سے یہ بات واضح ہو کر سامنے آجاتی ہے کہ اللہ تعالی اور اللہ کے رسول صلی اللہ وسلم کو مسلمانوں کے باہمی جھگڑے کسی قیمت پر پسند نہیں مسلمانوں کے درمیان لڑائی ہو یا جھگڑا ہو یا ایک دوسرے سے کھچاؤ اور تناؤ کی صورت پیدا ہو یا رنجش ہو یہ اللہ تعالی کو پسندیدہ نہیں بلکہ حکم یہ ہے کہ ان کی رنجشوں اور جھگڑوں کو باہمی نفرتوں اور عداوتوں کو کسی طرح ختم کرو  ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ میں تم کو وہ چیز نہ بتاؤں جو نماز روزے اور صدقہ سے بھی افضل ہے ارشاد فرمایا لوگوں کے درمیان صلح کرانا  اس لئے اس کے جھگڑے مونڈنے والے ہیں یعنی مسلمانوں کے درمیان آپس میں جھگڑے  کھڑے ہو جائیں فساد برپا ہو جائے ایک دوسرے کا نام لینے کے روادار نہ رہیں ایک دوسرے سے بات نہ کریں بلکہ ایک دوسرے سے زبان اور ہاتھ سے لڑائی کریں یہ چیزیں انسان کے دین کو مونڈ دینے والی ہیں کسی انسان کے اندر جو دین کا جذبہ ہے اطاعت کا جذبہ ہے اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی اطاعت کا جو جذبہ ہے وہ اس کے ذریعہ ختم ہو جاتا ہے بالآخر انسان کا دین تباہ ہو جاتا ہے اس لئے فرمایا کہ آپس کے جھگڑے اور فساد سے بچو ۔ 
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا کہ تم آپس میں ایک دوسرے کے درمیان محبت کا ماحول پیدا کرو اتحاد اور جوڑ کی رسی کو ہاتھ سے جانے مت دو ۔ یہی اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے۔ مفہوم۔ اللہ کے دین کی رسی کو متحد ہو کر کے پکڑو اور تمہارا اتحاد ٹوٹنے نہ پائے اور تمہارے درمیان تفرقہ پیدا نہ ہونے پائے اور اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جس کا اللہ نے تمہارے اوپر احسان فرمایا ہے جب کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے پھر تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی تو تم اللہ کے فضل و نعمت سے بھائی بھائی ہو گئے۔  اتحاد ایک مضبوط عمارت ہے ۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے اتحاد کو ایک مثال سے بیان فرمایا کہ مسلمانوں کا اتحاد ایک مضبوط ترین عمارت ہے جیسا کہ کسی عمارت کے مختلف اجزاء  الگ الگ ہونے کی حالت میں کمزور ہوتے ہیں اور کمزور جزء کو جہاں چاہے لے جایا جا سکتا ہے اور جس طرح جس جگہ چاہے لگایا جاسکتا ہے اور جہاں چاہے پھنیکا جاسکتا ہے لیکن تمام اجزاء ایک عمارت میں مضبوط مسالوں کے ساتھ مل کر جڑ جائیں  گے تو تمام اجزاء سے مل کر کے ایک مضبوط ترین عمارت بن جاتی ہے اس کا کوئی جزء آسانی کے ساتھ عمارت سے الگ نہیں کیا جاسکتا ہے ایسا ہی حال مسلمانوں کا حال ہے کہ اگر  تمام مسلمان متحد ہو کر ایک ہو جائیں تو ان میں سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ 
,,ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے ,,,