Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, January 24, 2021

امارت ‏شرعیہ ‏کی ‏تعلیمی ‏تحریک ‏وقت ‏کی ‏اہم ‏ضرورت ‏۔


از / احمدحسین قاسمی
 (معاون ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ).
                  صداٸے وقت 
==============================
امارت شرعیہ بہاراڈیشہ وجھارکھنڈ وطن عزیز کے مسلمانوں کے لئے اللہ کی بڑی نعمت ہے، اس کی انسانی وملی خدمات کا دائرہ کافی وسیع ہے ،سوسالوں سے مسلسل اس نے خدمت خلق کے ساتھ تمام شعبہ حیات میں اپنی بساط سے بڑھ کر ملت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیاہے، اورمشکل سے مشکل حالات میں بھی پوری ہمت وجرأت سے سفینہ ملت کی ناخدائی کی ہے، پچھلے چند برسوں سے ملک کا سیاسی دھارا ایک خاص سمت میں بہہ رہاہے جس سے ملک کی اقلیت خاص کر مسلمانوں کی تعلیم وتہذیب ،زبان وثقافت اورملی تشخص وامتیاز کو خطرات لاحق ہیں، حال کا آئینہ مستقبل کی تصویر دکھارہاہے،ایسے میں ضروری ہے کہ وقت سے پہلے اپنے آشیانے کی حفاظت کے لئے ممکنہ تدابیراختیارکی جائیں اور سب سے بڑے سرمایہ اپنی نئی نسل کی تعلیم وتربیت کی دل وجان سے فکر کی جائے تاکہ آنے والے ہرطوفان کا مقابلہ کرنا اس کے لئے آسان ہو اوروہ مشکل وقت میں بھی اخلاق وکردارکےساتھ زندگی کی راہیں نکالنے کی پوزیشن میں ہو، چنانچہ امارت شرعیہ نے اپنے دیگر شعبوں کے ساتھ شعبہ تعلیم بھی قائم کیاجس کے ذریعہ شروع دن سے ہی تعلیم کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کیا، اوردینی وعصری دونوں تعلیم کے میدانوں میں ملک وملت کی مضبوطی کے ساتھ رہنمائی کی ہے، مکاتب دینیہ کی تحریک سے لے کر مدارس اسلامیہ اورعصری تعلیمی اداروں کے قیام تک اس نےقابل تقلید کوشش کی اورماضی تاحال ان  کوششوں کےنتیجہ میں ہزاروں تعلیم کی شمعیں روشن ہوئیں جن سے اہل نظر باخبر ہیں،اسی کے پیش نظر مفکراسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی زیدمجدہم امیر شریعت بہاراڈیشہ وجھارکھنڈ کی خصوصی ہدایت پر امارت شرعیہ نے بنیادی دینی تعلیم کی فکر،معیاری عصری تعلیمی اداروں کے قیام اورتحفظ اردوزبان کےعنوان سے متعلقہ تین ریاستوں بہاراڈیشہ وجھارکھنڈ میں پرزور تحریک شروع کی ہے، یہ تحریک گرچہ امارت شرعیہ کے کاموں کا پہلے سے ہی اہم حصہ رہی ہے تاہم ترجیحی بنیاد پر کرنے کے کاموں میں اسے مقدم رکھاگیاہے،تاکہ پوری ملت اس جانب متوجہ ہو۔ باضابطہ اسے مہم اورتحریک کی شکل دے کر تینوں ریاستوں میں بالترتیب ”ہفتہ برائے ترغیب تعلیم وتحفظ اردو“ منایاجارہاہے،پہلے مرحلہ میں ریاست بہار کے تمام اضلاع میں یکم فروری تا سات فروری ہرضلع ہیڈ کواٹرمیں خواص اوراہل فکر ونظر حضرات پر مشتمل ایک مشاورتی اجلاس منعقد ہوگا، جس میں ان مذکورہ موضوعات پر بسط وتفصیل کے ساتھ تبادلہخیال ہوگا،پھر ان مقاصد کو آبادی میں روبہ عمل لانے کے لئے طریقہ کار پیش کئے جائیں گے۔ اس تحریک کی پہلی کڑی”بنیادی دینی تعلیم کی فکر“ہے، جوفرد سے لے کر جماعت اورگھر سے لے کر ریاست تک مسلم معاشرہ کے لئے پہلی اینٹ کا درجہ رکھتی ہے، ہمارے سینوں میں جودین توحیدکی امانت ہے، اسے آنے والی نسل کے دلوں تک منتقل کرنا تمام فرائض پر مقدم ہے،اگر اس میں ہم نے ذرہ برابر کوتاہی  برتی توہم اپنی نسل اوراولاد کے حق میں سب سے بڑے مجرم ہوں گے، ان کے دیگر سارے حقوق کی ادائیگی کی بہ نسبت یہ حق تعلیم ہرلحاظ سے بڑھاہوا ہے، اس لئے کہ ہم انہیں دنیا کی تمام دولت بھی دیدیں اوردین کی بنیادی تعلیم وتربیت سے محروم رکھیں تواس کے بغیر وہ ساری دولت کسی کام کی نہیں،پھر ہمارے اوردوسروں کے درمیان کوئی خط امتیازباقی نہیں رہ جاتا،ہمارا یقین ہے کہ اس دنیا کی سب سے عظیم دولت ایمان واسلام کی دولت ہے، اس کےباوجوداگر ہم نے اپنی اولاد کوان کی ابتدائی عمر میں ہی دینی تعلیم وتربیت کے سانچے میں نہیں ڈھالا تویادرکھیں ہم اپنے بعد اپنے گھروں میں اہل ایمان کی جماعت نہیں بلکہ غیرشعوری طورپر ایک باغی اوردین بیزار گروہ کو چھوڑکر جارہے ہیں،ملک کی موجودہ صورت حال سے ہرکوئی واقف ہے ،اورملک کی برسراقتدار حکومت کی منشاءبھی بالکل واضح ہے، تہذیبوں کی کشمکش اوراختلاط حق وباطل کے اس پُرخطردور میں اپنے دینی تشخص وامتیاز کی بقاءاوراسلامی اخلاقی کردار کا تحفظ مزید مشکل ہوتاجارہاہے، ملت کے دردمند اورمخلصین حضرات ا سے بخوبی محسوس کررہے ہیں، گذشتہ چند سالوں سے نئی نسلوں میں جو بے راہ روی اوردین سے دوری پیدا ہوئی ہے، بڑے بڑے دیندار گھرانے بھی اس طوفان سے محفوظ نہیں رہ سکے، حال کے آئینہ میں اگر مستقبل کی تصویر دیکھنے کی کوشش کی جائے توکلیجہ منہ کوآتاہے، چند دہائیوں پہلے کسی قدر مسلم آبادیوں میں مکتب کا نظام قائم تھا اوراس نظام کو متاثرکرنے والے دوسرے نظام تعلیم کا پھیلاﺅ بھی اس طرح نہیں تھا، جس سے وہ قدیم دینی تربیتی نظام کمزور ہوتامگر جب سے عصری تعلیم کا دائرہ وسیع ہوااوراس نےہرچہارجانب زور پکڑا تو مسلمانوں کے لئےبےتوجہی کےسبب دونوں تعلیم کے حصول میں راہ اعتدال اختیارکرنا دشوار ہوگیا اورجس کانتیجہ انتہائی افسوسناک ظاہر ہوااورمسلمان”نہ خداہی ملانہ وصال صنم“ کے مصداق ٹھہرے ،رواں وقت میں مسلمانوں کے لئے سب سے بڑا چیلنج اپنی نسل کے دین وایمان کا تحفظ ہے، اگرآج ان نونہالان امت کے ذہن ودل پر دین اسلام کی صداقت وحقانیت کے نقوش بٹھادئے گئے اورانہیں تعلیمات اسلام کے سانچے میں ڈھال دیا گیا توآنے والے بے دینی کے سخت سے سخت طوفان بھی ان کے دل ودماغ کو میلا نہیں کرسکتے،ظاہرہےعمر کے ابتدائی نقوش واثرات دیر پا ثابت ہوتے ہیں،مشکل ترین حالات میں بھی وہ باوقاراسلامی زندگی گذار سکتے ہیں،اوراگراس کے برعکس حالت رہی تواسپین واندولس کی تاریخ عبرت کے لئے ہمارے سامنے ہے۔امارت شرعیہ حالات کی اسی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے ترجیحی بنیادپرنسل نو کی دینی تعلیم وتربیت کی فکر لے کر اٹھی ہے،جو بلاشبہ وقت کا سب سے حساس موضوع  اورنازک مسئلہ ہے، یہ وہ کام ہے جسے ہم بآسانی کرسکتے ہیں، اوراس میں کسی جانب سے مداخلت بھی نہیں ، خاموشی سے اگر اس کام کو کرنے میں ہم کامیاب رہے تو یاد رکھیں آنے والے حالات ہماری نسلوں کا بال بیکا نہیں کرسکتے،حالات ان پر نہیں بلکہ یہ خودحالات پر اثر انداز ہوں گے،اللہ کا ہزار شکرہےکہ اس ملک کی ہرآبادی میں علماءکرام بکھرے موتی کی طرح نظرآتے ہیں جودر حقیقت مدارس اور منبرومحراب کی زینت ہیں جن کی فکروتوجہ سےیہ کام آسانی سےانجام پاسکتاہے اس کے لئے ضروری ہے کہ تمام مسلم آبادیوں میں مسجدوں کو مرکز بنایا جائےاور ہرمسجد کے تحت مکتب کا خود کفیل نظام قائم کیاجائے،ائمہ مساجد کی تنخواہوں میں حسب خواہ اضافہ کیاجائے, ان کی ان خدمات پرشایان شان اکرام کیاجائے اوراس آبادی کے سارے مسلم بچے بچیوں کی دینی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری انہیں سونپی جائے،علاقے کے مرکزی مدارس بھی اس کام کو اپنی شاخوں کی حیثیت سے بحسن وخوبی انجام دے سکتے ہیں اور اس جہت میں بعض مرکزی مدارس نے قابل قدر پیش رفت بھی کی ہے اس لحاظ سے ملت پر ان کا بڑااحسان ہے۔ہر محلہ کے ذمہ داران،باشعور افراد،مسجد کے متولیان واراکین پر یہ فرض عائد ہوتاہے کہ اجتماعی کاموں میں اسے سب سے مقدم رکھیں اوراپنےذاتی کاموں کی طرح اس دینی کام کواہم جانتے ہوئے پورے احساس ذمہ داری کے ساتھ انجام دیں،ان مکاتب میں فقط نورانی قاعدہ، قرآن پاک، اوراردو کا نصاب نہ ہو بلکہ ایک ایساجامع اورمختصر نصا ب ہوجس میں عقائد،معاملات،معاشرت اوراخلاقیات کے بنیادی اوراہم مضامین شامل ہوں،جس سے بچوں کی ہمہ جہت دینی وفکری تربیت ہوسکے،اس تحریک سے امارت شرعیہ کی یہی فکرمقصود ہے۔اس کےلئے امارت شرعیہ کادینیاتی نصاب بھی ایک جامع اور بہترین نصاب ہے۔ امیدہے کہ  ضلعی سطح پرمنعقدہونےوالے  مشاورتی اجلاس میں شرکاءاور ملت کے خواص حضرات اس خاکہ میں رنگ بھرنے کی عملی کوشش فرمائیں گے۔
اس تحریک کی دوسری اہم کڑی ”معیاری عصری تعلیمی اداروں کاقیام“ہے،یہ بھی کرنے کے اہم کاموں میں ہے،حالات شدید اس کاتقاضہ کرررہے ہیں، ملک کی تعلیمی پالیسی آزادی کے بعد اب تک جس سمت میں جارہی ہے اس سے پڑھا لکھاہر شخص اچھی طرح واقف ہے، خاص کر نئی قومی تعلیمی پالیسی 2020کے خدوخال سے جو واضح ہورہاہے،اس سے صاف ظاہر ہے کہ اہل اقتدار کی منشاءپس پردہ بہت کچھ ہے، اس پس منظر کے ساتھ یہ بھی ایک سچائی ہے کہ ہمارے ہاتھوں سے قوم وملت کی ترقی اور آنے والی نسل کے مستقبل کے لئے جو ادارے قائم ہوسکتے تھے وہ نہیں ہوسکے، ماضی بعید میں ہمارے آباءواجداد نے مشکل حالات میں ملک وملت کو شاندار اورزندگی بخش ادارے عطاکئے تھے مگرماضی قریب میں یہ سلسلہ رک گیا،حالاں کہ ایک زندہ قوم کی نشانی ہے کہ زیادہ سے زیادہ  اس کے اپنے معیاری تعلیمی ادارے ہوں،جہاں سے وہ اپنے دین ومذہب کے مطابق اعلیٰ اخلاق وکردار کے حامل باصلاحیت  افراد تیار کرسکے اور ملک وقوم کی خدمت کے کام ان سے لے سکے،یہ شرم اورعار کی بات ہے کہ نسلیں توہماری ہوں مگر ان کی تعلیم وتربیت کے لئے ادارے کوئی اورتعمیر کرے،اس جانب مسلمانوں کی واقعتا جو توجہ ہونی چاہئے تھی وہ نہیں ہوسکی۔جس امت کے مذہب کا پہلا لفظ ”اقرأ“ ہو وہ تعلیم کے میدان میں دوسری قوموں کی تعلیم گاہوں کی محتاج ہوکر رہ جائے یہ اسے ہرگز زیب نہیں دیتا،یہ ایک حقیقت ہے کہ اہل مغرب جس وقت تاریکیوں میں زندگی بسر کررہے تھے ،مسلم قوم دینی تعلیم کے ساتھ سائنس اورٹکنالوجی کے میدان میں عروج پر تھی،جس قوم کی لکھی ہوئی سائنسی کتابیں صدیوں یورپ کی تعلیم گاہوں میں شامل نصاب رہیں آج وہ قوم اپنی تعلیم ضرورت پوری کرنے سے قاصر ہے، یہ مقام افسوس نہیں بلکہ مقام عبرت ہے،امارت شرعیہ اپنے آغاز ہی سے اس جانب بھی مسلسل ملت کی رہنمائی کرتی رہی ہے،اس میدان میں اس نے مختلف مقامات پر سی بی ایس ای کے طرز پر ”امارت پبلک اسکول“ کے برانڈ نیم کے ساتھ چھ معیاری اسکول،سات ٹیکنیکل آئی ٹی آئی،کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ اورپارامیڈیکل قائم کئے ہیں، اس کا منصوبہ ہے کہ ہرضلع میں کم از کم نمونہ کے طورپر اسلامی ماحول میں ایک معیاری اسکول قائم کرے، جس میں دینیات کی تعلیم بھی لازمی ہو،اسی طرح مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کےلئےہرآبادی میں پچےاوربچیوں کے علٰیحدہ علیٰحدہ کوچنگ سینٹرزبھی ہوں جووقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔حضرت امیر شریعت مدظلہ کی اس جانب خاص توجہ ہے اورمسلسل اس کی فکر فرمارہے ہیں، ظاہر ہے کہ امارت شرعیہ کے اوربھی دوسرے اہم شعبے ہیں جن کی جانب ادارے کو توجہ دینی ہوتی ہے،البتہ ملت کے اہل حیثیت اوراصحاب نظرکے سامنے تعلیم کے میدان میں ان چنداداروں کے ذریعہ نمونہ فراہم کرتی ہے تاکہ اس جانب باصلاحیت افراد توجہ دے کر ملت کی تعلیمی ضرورت کی تکمیل کے لئے آگے آئیں۔ہرآبادی میں اسلامی ماحول کےساتھ پرائمری درجہ کا اسکول تو بآسانی قائم کیاجاسکتاہے ،ضرورت اس بات کی ہے کہ پوری حوصلے اورمنصوبہ بندی کے ساتھ اس جانب پہل کیاجائے، اس تحریک کے ذریعہ امیدہے کہ ہرضلع میں تعلیمی اداروں کے قیام کی منظم کوشش کی جائے گی۔
اس تحریک کی تیسری قابل توجہ کڑی ہماری مادری زبان اردوکا تحفظ ہے،جو مسلسل اس ملک میں آزادی کے بعد سوتیلاپن کا شکار رہی ہے،تقسیم ملک کی بجلی نے اس کے خرمن کو بھی جھلسانے کا کام کیا،کون نہیں جانتاہے کہ اس زبان نے آزادی کے نغمے اورترانے گاکر سوئے ہوئے دلوں کو آزادی کی حرارت بخشی اوراس ملک عزیز کے جیالوں میں آزادی وطن کی روح پھونکی ہے، مگر افسوس کہ آج اسے صرف ایک مذہب سے جوڑ کر تعصب کی نگاہوں سے دیکھاجارہاہے اورریاستی سطح سے ملکی سطح تک اس کی حق تلفی کی جارہی ہے جو بالقصدقومی تعلیمی پالیسی میں سہ لسانی فارمولہ کی نذر کردی گئی،دوسری زبانوں کے تذکرہ کے ساتھ اس زبان کا تذکرہ نہیں کرنا دراصل اسے زندہ درگور کرنے کے برابر ہے،دوسری جانب ریاست بہار میں بھی نصاب سے اس کی لازمیت کو ختم کر دینا دراصل اس کی جڑکاٹ دینے کے مترادف ہے،ویسے بھی ہمارے بچے اس کی جانب کم توجہ دیتے تھے اب لازمیت کے ختم ہونے اوراختیاری درجے کی زبان ہونے کے بعد کتنی توجہ دیں گے وہ ظاہر ہے،دنیا کا اصول ہے کہ جو چیزیں ضروری ہوتی ہیں ضرورت تصور کی جاتی ہیں، ورنہ ناقابل توجہ بن کر اپنا وجود کھو بیٹھتی ہیں، آج ہمیں اپنی نسل کو یہ بتانا ہوگاکہ یہ فقط ایک زبان نہیں بلکہ اس ملک میں یہ ہمارے دین ومذہب کا حصہ ہے،ہم اسے جانے بغیر اپنا دین نہیں جان  سکتے اورنہ ہی اپنی تہذیب سمجھ سکتے ہیں، لہذا اس کے بول چال کےفروغ کے ساتھ اس کے لکھنے پڑھنے کوبھی اپنے گھروں میں رواج دینا ہمارا ملی فریضہ ہے،اس کے لئے ضروری ہے کہ گھروں میں اردو اخبارات لئے جائیں اوردینی کتابیں برائے مطالعہ رکھی جائیں،اردو میڈیم اسکول جواسی زبان کے عنوان پر قائم کئے گئے ہیں علاقہ کے بااثر حضرات اس کے اردو کردار کی جانب توجہ دیں،جن پرائیویٹ اسکولوں میں اس زبان کی تعلیم نہ ہو وہاں اپنے بچوں کے داخلے سے گریز کیاجائے،نیز سرکاری دفاتر میں اسی زبان میں درخواست دینے کی کوشش کی جائے۔
ریاست کے سرکاری محکموں میں اسی غرض سے باضابطہ اردو مترجمین کی بحالی کی گئی مگراردو میں درخواستیں نہیں آنے کی وجہ سے اس کا مصرف بدل دیاگیا، کم از کم اس کے تحفظ کے لئے ہم اپنے کرنے کے کام کریں توبہت حدتک اس کا فروغ ممکن ہے۔یہ ایک عظیم قومی وملی سرمایہ ہےاس کی حفاظت ہم سب پر فرض ہے ،انہیں فکروں کو لے کر امارت شرعیہ نے یہ تحریک چلانے کا فیصلہ کیا،ملت کے باشعورافراد سے توقع کی جاتی ہے کہ اس تحریک کے دست وبازو بن کران مقاصد کو زمین پر اتارنے میں اپنا مخلصانہ کردار پیش کریں گے۔ بقول شاعر مشرق علامہ اقبال:
ابھی سے فکرکرناداں مصیبت آنے والی ہے۔
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں۔