Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, January 18, 2021

آپ ‏پہلے ‏مسلمان ‏ہیں ‏یا ‏انڈین؟؟؟


از / یاسر ندیم الواجدی/ صداٸے وقت 
==============================
 اسلام اور وطن پسندی میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ یہ مسئلہ حب الوطنی کا ہے ہی نہیں، بلکہ یہ اعلی سطحی شناخت کا مسئلہ ہے، یعنی سوال یہ ہے کہ آپ کی اعلی ترین شناخت دین سے ہے یا وطن سے۔ ایک سیکیولرسٹ یا نیشنلسٹ کے نزدیک وطن سے ہے اور ہمارے نزدیک دین سے ہے۔ جب آپ سے یہ سوال ہوتا ہے کہ آپ پہلے انڈین ہیں یا مسلمان، تو سائل آپ کی اعلی ترین شناخت جاننا چاہتا ہے، اگر آپ یہ جواب دیں کہ مذہب اور وطن دونوں میرے لیے برابر ہیں، تو ایک عام ذہن شاید اس جواب سے لا جواب ہو جائے، لیکن آپ یا تو یہ تسلیم کریں کہ آپ نے توریہ سے کام لیا ہے اور حقیقت کو چھپالیا ہے، یا پھر یہ مانیں کہ آپ کے نزدیک اعلی ترین شناخت متعدد ہوسکتی ہیں، یعنی مذہب اور وطن دونوں ہی اعلی ترین شناخت ہوسکتی ہیں، ظاہر ہے کہ یہ خیال سوائے منطقی مغالطہ کے اور کچھ نہیں۔ اعلی ترین ایک ہی چیز ہوگی، دو چیزوں کو مطلقاً اعلی ترین ماننا ہی تو شرک ہے، جب کہ دین کے مقابلے میں کسی چیز کو ذکر کیا جارہا ہو۔ 
سیکیولرازم کے حقیقی معنی ہیں خدا کو سیاست ومعاشرت سے باہر رکھنا، یہ نظریہ بھارت میں ہلکے انداز میں نافذ رہا، جب کہ فرانس اور ماضی قریب کا ترکی وہ ممالک ہیں جہاں سیکیولرازم کا شدت پسند پہلو دیکھنے میں آتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں مذہب کو اگرچہ حکومتی معاملات سے بے دخل رکھا گیا، لیکن ساتھ ہی معاشرے میں اس کی بنیادی حیثیت بھی مسلّم رہی۔ (ملک کی تقسیم کے وقت مسلمانان ہند کے پاس سافٹ سیکیولرازم کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا، انھوں نے دیکھا کہ اگر مذہبی آزادی مل رہی ہو، تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے، اگرچہ اب پچھتر سال پرانی مسلم سیاست پر اپنے تمام تو انتسابات سے اوپر اٹھ کر سنجیدگی کے ساتھ بحث ہونی چاہیے، لیکن پھر بھی اُس عہد کے مسلمان سیکیولرزم کے سافٹ ورژن کو قبول کرنے کے لیے مجبور ومعذور اور ان شاء اللہ عند اللہ ماجور تھے)۔ اس لیے فرانس وغیرہ میں ملک اور ملک سے وفاداری کو مذہب کا درجہ دیدیا گیا، کیوں انسانی معاشرہ فطرتا مذہب پسند ہے، جب آسمانی مذہب کو دیس نکالا دیا گیا، تو انسانی مذہب کو اختیار کرلیا گیا۔ آج وہاں ہر اس مسجد اور مسلم ادارے کو بند کیا جارہا ہے، جس کے بارے میں انھیں محسوس ہوتا ہے کہ اس کے ارباب حل وعقد مذہب سے انتساب کو ملکی انتساب سے بڑھ کر تسلیم کرتے ہیں۔ اس کے بالمقابل امریکہ میں سافٹ سیکیولرازم  ہونے کی وجہ سے سرکاری طور پر اعلی ترین شناخت انسان کی نسل ہے۔ غیر رسمی طور پر انسان کا مذہب بھی اعلی ترین شناخت کے طور پر قبول کیا جاتا ہے، معاشرے میں خالص امریکن کوئی حیثیت نہیں رکھتا، بلکہ لوگ وائٹ امریکن، بلیک امریکن، انڈین امریکن، یا یہودی امریکن، عیسائی امریکن اور مسلم امریکن جیسی شناختوں سے جانے جاتے ہیں۔ 

بھارت میں وطن پرستی بڑھے ہوے سیکیولرزم کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ بڑھی ہوئی نیشنلزم کا نتیجہ ہے، جس کے ڈانڈے ہندو دھرم سے ملتے ہیں۔ سناتن دھرم جس کو اب عرف عام میں ہندو مذہب کہا جاتا ہے ایک علاقائی مذہب رہا ہے۔ اس مذہب میں بھارت کو ایک دیوی کے طور پر دیکھا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آر ایس ایس کو ہندوؤں میں ملک سے وفاداری کا جنون پیدا کرنے کے لیے مشکلات کا سامنا کرنا نہیں پڑا۔ اس نے نیشنلزم کو مذہبی رنگ دے کر فروغ دیا اور وطنی شناخت کو مذہبی شناخت کے برابر بلکہ اس سے اوپر قرار دیا۔ ایک ہندو سے اگر یہ سوال ہو کہ وہ پہلے ہندو ہے یا انڈین اور وہ جواب میں کہے کہ وہ پہلے انڈین ہے، تو بھی وہ ہندو ہی رہتا ہے، کیوں کہ شرکیہ مذہب میں شرک کرتے ہوے غیر مشرک بننے کا کوئی طریقہ موجود ہی نہیں ہے۔ 

لہذا اگر یہی سوال ایک مسلمان سے کیا جائے اور ان لوگوں کے ذریعے کیا جائے جن کا ورلڈ ویو شدت پسند سیکیولرزم یا شدت پسند نیشنلزم ہو، تو سوال کا مقصد وطن کو خدا کے مقابلے میں پیش کرنے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوسکتا۔ چناں چہ جواب بھی اسی ورلڈ ویو کو سامنے رکھ کر دیا جانا لازم ہوجاتا ہے کہ ہماری اعلی ترین شناخت اسلام سے ہے، اس کے بعد ہماری خاندانی یا قبائلی شناخت ہے، کیوں کہ اس نسبت کو احادیث کے مطابق تبدیل نہیں کیا جاسکتا، اس کے بعد ہماری وہ شناخت ہے جو اگرچہ منصوص نہیں ہے، لیکن اس کا تعلق بہرحال مذہب سے ہے، جیسے کسی مکتب فکر کی طرف انتساب۔ سب سے آخر میں وطنی شناخت ہے، کیوں کہ وطن کی طرف انتساب کو ہجرت کے عمل سے جب چاہے بدلا جاسکتا ہے۔ اعلی سے ادنی شناختوں کے اس سلسلے میں کوئی تضاد نہیں ہے، ایک انسان مسلمان بھی ہوسکتا ہے اور ساتھ میں سنی، غیر سنی، حنفی، شافعی، سید، شیخ، پٹھان، انصاری اور پھر بھارتی بھی ہوسکتا ہے۔ البتہ اگر کوئی ادنی ترین شناخت کو اعلی ترین شناخت کے مقابلے میں لاکر کھڑا کرے اور آپ سے اصرار کرے کہ دو میں سے ایک کا انتخاب کیجیے، تو ادنی شناخت کے انتخاب سے کفر کا اندیشہ ہے، جب کہ اعلی اور ادنی کو برابر قرار دینا سراسر غیر اسلامی رویہ ہے۔ 

برادران وطن کو واضح الفاظ میں یہ سمجھانا ضروری ہے کہ آپ کے عقیدے کے مطابق بھارت اگرچہ رام کا دیس ہے، لیکن رام کو نہ ماننے والا بھی اس ملک کا اتنا ہی شراکت دار ہے جتنا کہ رام کو ماننے والا، اسی طرح بھارت کو محض وطن تسلیم کرنے والا اور اس لحاظ سے فطری طور پر اس سے محبت کرنے والا بھی وطن پسند ہے اور اپنے اس حق میں وہ بھارت کی پوجا کرنے والے سے کسی طور کم نہیں ہے اور اسے وطن سے محبت کے لیے اپنی اعلی ترین شناخت کی قربانی دینے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ یہ بات جب تک دو ٹوک انداز میں نہیں کہی جائے گی، تب تک یہ نامعقول سوال آپ سے کیا جاتا رہے گا۔