Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, February 11, 2021

*شہریت ترمیمی قانون کے نفاذ کی تیاری* بھارتی وزارت داخلہ کا آفیشل بیانیہ: ‏


از/ سمیع اللہ خان/صدائے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 شہریت ترمیمی قانون کےمتعلق راجیہ سبھا ہاؤس میں وضاحت کرتے ہوئے وزارت داخلہ نے بتایاہے کہ: شہریت ترمیمی ایکٹ ۲۰۱۹ CAA کے تحت قانون سازی جاری ہے، یہ ایکٹ ۱ اکتوبر ۲۰۲۰ سے ہندوستان میں مؤثر ہوچکاہے، اب اس کے تحت تیاریاں ہورہی ہیں، ہندوستانی پارلیمنٹ نے اس ایکٹ کو مرتب و عملی شکل دینے کےلیے ۹ اپریل / ۹ جولائی تک کا وقت دیا ہے، یہ قانون تو بن چکاہے اس کے نفاذ کی تیاریاں کی جارہی ہیں 
 راجیہ سبھا میں ہندوستانی وزارت داخلہ نے یہ وضاحت کانگریس ممبر پارلیمنٹ دگ وجے سنگھ کے سوال پر جاری کی ہے
 اب تک بھاجپا کے کچھ، سیاستدان عوامی ریلیوں میں CAA اور این۔آر۔سی کے حوالے سے بحث انگیز کرتے تھے جس پر یقینًا توجہ کی ضرورت نہیں تھی، لیکن پارلیمانی ہاؤس میں وزارت داخلہ کے اس اعلامیہ کےبعد ضروری ہیکہ، اس بابت اپنے اقدامات مضبوط کیے جائیں… اور اسے سنجیدگی سے لیا جائے_
 شہریت ترمیمی قانون کو دسمبر ۲۰۱۹ میں بھاجپائی اکثریت والی ہندوستان پارلیمنٹ نے منظور کرلیا تھا، اس ترمیمی ایکٹ کے ذریعے بھارت میں شہریتی ضابطے متعصبانہ اور مذہبي بنیادوں پر ہوجاتےہیں، یہ ایکٹ کہتاہے کہ، افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے سبھی انسانوں کو ہندوستانی شہریت  دی جائےگی سوائے مسلمانوں کے، یہ ترمیمی ایکٹ NRC قانون سے غیرمسلموں کو محفوظ کرنے اور مسلمانوں کو متعصبانہ متاثر کرنے کی ضمانت دیتاہے، یہ 
 *یہ قانون پاس ہونے کےبعد ہندوستان بھر میں بھاجپا۔آر، ایس، ایس کے نسل پرستانہ برہمنی عزائم کےخلاف احتجاج پھوٹ پڑا تھا، اس ظالمانہ قانون کو یونیورسٹیوں کے اسٹوڈنٹس اور شاہین باغات کی خواتین کی باہمت کوششوں نے چیلنج کیا تھا، جس کی وجہ سے ظالم ہندوتوا سرکار نے یونیورسٹیوں کے بچوں اور بچیوں پر بے تحاشا مظالم بھی ڈھائے، مسلمانوں کی صفِ اول کی قیادتیں احتجاجی تحریکات کی سربراہی میں ناکام رہیں، اس لیے کہ* بڑی حد تک موجودہ سیاسی و دیگر لیڈرشپ نے  غیرمنصوبہ بند روش اختیار کی ہوئی ہے، ان کی   پالیسیاں عارضی ہوتی ہیں، قومی کاز پر مفاد پرستی اور تنظیمی و جماعتی مفادات کو مقدم رکھاہے ، شخصی نزاعات اور گروہی عصبیت کو ترجیح دے رکھی ہے، یا پھر بزدلی ان میں گھر کر گئی ہے ظالم حکمرانوں سے وہ سمجھوتہ کرنا چاہتےہیں،  ان وجوہات سے مسلمانوں کی ہرسطح کی لیڈرشپ زمینی سطح پر اپنی کمیونٹی میں اپنا وقار مجروح اور اعتماد کھو چکی ہے، ان کے خلاف عدمِ اعتماد، اور ان سے نفرت و غصے کی لہر نئی نسل میں عام ہوچکی ہے، کیونکہ بابری کی شہادت سے لیکر مسلم۔مخالف شہریت ترمیمی قانون آنے تک وہ کسی جگہ بھی ظالمانہ ہندوتوا استعمار کیخلاف ٹک نہیں سکے 
میں یہ بات بلادلیل یا قرآئن کی بنیاد پر نہیں کہہ رہا ہوں، یہ اب ایسی حقیقت ہوچکی ہے جسے ایک اندھا شخص بھی دیکھ رہاہے 
شہریت ترمیمی قانون جیسے بدترین ظالمانہ قانون کےخلاف ڈھال کون بنے؟ اس کو مزید  سمجھنا ہےتو یہ دیکھیے کہ، این آر سی اور شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی تحریک چھیڑنے کے جرم میں سرکاری ایجنسیوں اور امیت شاہ کی منسٹری نے پارلیمنٹ سے لیکر جیلوں تک میں کن نوجوانوں کو ماخوذ کیا اور کن کو قید کیا ہے؟ آپ کو شرجیل امام، خالد سیفی، عمر خالد، اکھل گوگوئی، آصف اقبال، اطہر خان، نتاشا، صفورا زرگر اور گُل فشاں جیسے کی صورتیں ہی نظر آئیں گی، ناکہ آنریبل، عزت مآب، شریمان، مسٹر و جناب، حضرت و پیر، قائداعظم یا قائد ملت،  نظر نہیں آسکتے… ہر وہ مؤمن جس نے قرآن کے نور اور ایمان کی فراست سے زندگی کو تازہ رکھا ہوگا اسے یہ آشکار حقیقت چبھتے محسوس ہوجائے گی، 
 بہرحال یہی وجہ تھی کہ، شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی تحریک میں لیڈرشپ کا انتشار و بحران صاف محسوس کیاگیا، اور سابقه تحریک کووڈ لاک ڈاؤن کی وجہ سے بلا دائمی نتیجہ ختم ہوئی.
 لیکن اب یہ وقت ہیکہ جب کسان۔آندولن اپنے عروج پر ہے جو مودی سرکار اور آر۔ایس۔ایس کے استعمار کو ٹکر دے چکاہے، ناکوں چنے چبوا چکاہے، اس آندولن کو دیکھ کر اس سے سیکھ کر اپنی آئینی منصوبہ بندی کو زمینی شکل دی جائے، ہوسکتا ہے بعض لوگ یہ سمجھیں کہ ظالم اور سازشی سرکار کسان آندولن سے رخ موڑنے کے لیے پھر سے CAA کا راگ الاپ رہی ہے، برہمنی دماغ سے یہ بعیداز قیاس بھی نہیں، لیکن ۹ اپریل اور جولائی کی تاریخ بہت پہلے سے طےشدہ ہے، اور ویسے بھی یہ ایک سنگین مسئلہ ہمارے سروں پر یقینًا موجود ہے، اس کا مستقل حل ایک نہ ایک دن یا تو نکالنا ہوگا یا اسے جھیلنا ہوگا، میری عرض یہ ہیکہ، *جب مرکزی وزارت داخلہ اس ظالمانہ قانون کے لیے تیاری کررہی ہے تو ہم کیا پھر سے اچانک بغیر کسی منصوبہ اور تیاری کے منتشر منتشر کودنے کے انتظار میں بیٹھے ہیں؟ اتنا کافی وقت ہمیں ملا ہم نے اس پر اب تک کتنی دفعه کوششیں کی اس دورانیے میں؟ اور اسی سے آپ اندازہ لگا سکتےہیں کہ قیادتیں مقصد اور منصوبوں پر کس قدر سنجیدہ ہیں؟ جن ارباب حل و عقد نے پہلے غلطیاں کی تھیں کیا وہ پھر سے اسی بےسمت ہنگامے کے لیے منتظر ہیں؟* 
اب جبکہ، سابقہ احتجاج کے ہمارے نوجوان چہرے جیلوں میں بند ہیں تو، ہونا یہ چاہیے کہ ملکی سطح پر ایک آئینی اور جراتمندانہ ایکشن پلان سب کو مل کر اس ظالمانہ قانون کےخلاف طے کرنا چاہیے، متحدہ اور منظم منصوبہ، جس پر سبھی ذمہ داران ایمانداری سے عملدرآمد کریں_

✍🏻: *سمیــع اللّٰہ خان*
۱۰ فروری ۲۰۲۱ 
ksamikhann@gmail.com