Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, February 10, 2021

خاتون ممبر پارلمینٹ کی حق گوئی ایوان بالا میں*



    .   .  .  .   تحریر۔/  محمد قمر الزماں ندوی  .  .  .  .  .   

 .  .   .  .  .  .  . صدائے وقت .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  

              گزشتہ کل یعنی ۹/فروری ۲۰۲۱ء کو ایوان بالا (راجیہ سبھا) میں ترنمول کانگریس سے تعلق رکھنے والی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  بے باک اور حق گو 
بنگال کی ایم پی مہوا میوترا کی جرات مندانہ پارلیمانی تقریر کا اردو خواں طبقہ کے لیے خلاصہ پیش ہے، پوری تقریر ہی زوردار ہے، مگر یہاں کچھ ملخص نکات پیش ہیں ،الفاظ کا انتخاب نہایت شاندار اور باڈی لینگویج نہایت طاقتور۔۔۔۔ یہ خلاصہ پڑھیں ہمارے دوست ڈاکٹر طارق ایوبی ندوی کے شاگرد عزیز حسن عمار سلمہ کے قلم سے ہے، جو مجھ سے بھی والہانہ اور جذباتی تعلق رکھتے ہیں، بلکہ میری تحریروں کو لوگوں تک پہنچانے میں میرے ممدد و معاون بھی ہیں۔۔  
       مسیز مہوا میوترا نے بھرے ایوان میں پوری جرات و ہمت کے ساتھ جو کچھ کہا اور جس طرح صداقت، حق گوئی اور بے باکی کا اظہار کیا اس میں ہمارے قائدین اور سیاسی رہنماؤں کے لیے پیغام ہے کہ حالات کس قدر مشکل اور دشوار ہو، لیکن انسان حق گوئی، سچائی اور راست گوئی کو نہ چھوڑے اور پوری ہمت کے ساتھ سچ کو سچ کہے اور جھوٹ کو جھوٹ بتائے، یہی ایک سچے اور مخلص قائد اور رہنما کی پہچان اور شناخت ہے۔۔۔ مسیز مہوا میوترا کی جرات مندانہ تقریر خلاصہ سنئے۔۔۔ 
           "آج میں اس ایوان میں اپنے ان ہم وطنوں کی طرف سے حکومت سے سوالات کرنا چاہتی   ہوں جو سوال کرنے یا مخالفت کرنے کی وجہ سے ناحق جیل  میں سزا کاٹ رہے ہیں۔  تاکہ گورنمنٹ کو یہ اندازہ ہو جاے کہ آوازیں دبائ نہیں جا سکتیں۔
امریکی صحافی کا ایک قول یہاں نقل کرنا میں مناسب سمجھتی ہوں:- " کہ یہ جہموریت طاقت سے وجود میں نہیں آئ ہے، اور نہ ڈرپوک اسکو بچا سکتے ہیں"،
  آج میں "ڈر" اور "طاقت" کے فرق کے بارے میں بات کرنا چاہتی ہوں اور ان لوگوں کے بارے میں جو نفرت ، عداوت ، جھوٹ اور تعصب کی سیاست کرتے ہیں اور اسکو "بہادری" قرار دیتے ہیں۔"
اس حکومت نے  نفرت ، عداوت اور تعصب کو اپنا نیریٹیو بنایا ہوا ہے ، جو کہ حقیقت میں ایک فاشسٹ حکومت کا طریقہ کار ہے۔"
موجودہ حکمرانوں نے پروپیگینڈا  اور "غلط خبروں" کو ایک "کاٹیج انڈسٹری" میں تبدیل کردیا ہے، جسکی سب سے بڑی کامیابی یہ یے کہ اس نے "بزدلی" کو "بہادری" کے طور پر پیش کیا ہے۔"
"آج ہندوستان کا المیہ یہ نہیں ہے کہ اسکی حکومت نے اسکو ناکام بنادیا ہے ہے بلکہ اسکے دیگر جمہوری ستون - میڈیا اور عدلیہ -  نے بھی اسکو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔"
"عدلیہ جو کہ ایک "مقدس گائے" تھی ، افسوس یہ ہے کہ اسکا تقدس بھی اب باقی نہیں رہا ہے۔ اسکا تقدس اسی دن ختم ہوگیا تھا جب ملک کے ایک سیٹنگ چیف جسٹس پر جنسی ہراسانی کا الزام عائد کیا گیا ، اپنے مقدمے کی صدارت  بھی جناب نے خود ہی فرمائ ، اپنی برأت کا اعلان بھی محترم نے خود ہی کیا ، اور پھر ریٹائرمنٹ کے تین ماہ کے اندر اندر زیڈ پلس سیکورٹی کے ساتھ ایوان بالا کی نامزدگی بھی قبول فرمائ۔"
"جب عدلیہ آئین کے بنیادی اصول و قواعد کی حفاظت نہیں کرسکتا تو وہ اب مقدس بھی نہیں رہ سکتا ۔عدالت ملک میں ہورہے جمہوری تماشے کو خاموش تماشائی بنکر دیکھ رہی ہے  ادیب اور صحافی  جیل کی سزا کاٹ رہے ہیں اور ایک نوجوان ایک "چٹکلہ " کہ دیتا ہے تو عدالت کمال بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوے اسکا نوٹس لیتی ہے۔ جمہوری طاقتوں کا سب سے زیادہ استحصال جوڈیشری نے ہی کیا ہے"۔ 
"90 دن سے بیٹھے کسانوں کی کوئ خیر خبر نہیں لی گئ ، تینوں کسان بل اس حال میں  لائے گئے کہ اپوزیشن سمیت تمام ہی لوگ اسکے مخالف تھے ، بغیر اتفاق راے اور مشاورت کے انکو پاس کیا گیا اور پھر پوری قوم پر انکو زبردستی منڈھ دیا گیا، یہ بات ظاہر ثبوت ہے کہ گورنمنٹ افہام و تفہیم کے بجاے زبردستی اور طاقت کی بنیاد پر حکومت کرنا چاہتی ہے۔ "
گورنمنٹ نے کسانوں کا حال پوچھنے میں تو کوئ بہادری نہیں دکھائی بلکہ ایک 18 سالہ لڑکی، اور امریکن پاپ اسٹار کے خلاف پوری منسٹری نے اپنی جھوٹی جرآت کا مظاہرہ کیا اور اسکو جواب دینے میں بہت بہادری دکھائ۔کیا موجودہ حکومت یہ چاہتی ہے کہ اسکو اسلئے یاد رکھا جاے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا انتظام اس نے سنبھالا تھا یا اسکو اسلئے یاد رکھا جاے کہ اسنے ہندوستان میں  "ون پارٹی رول" کو نافذ کیا تھا ؟
اپنے آپ سے یہ سوال کیجیے۔
موجودہ حکومت نے ہندوستانی جمہوریت کو ایک پولیس ریاست میں تبدیل کردیا یے، جہاں ایک مشکوک شکایت کی بنیاد پر اس ایوان کے ممتاز ممبر اور تجربہ کار صحافی پر ملک سے بغاوت کا الزام لگایا گیا ہے۔
آپکی بہادری کی ایک اور مثال 4 گھنٹوں کی مہلت دے کر پورے ہندوستان کو لاک ڈاون میں جھونک دینا بھی شامل ہے ، جسکی وجہ سے سینکڑوں جانیں چلی گئیں، لاکھوں مذدوروں کو بھوک پیاسے پیدل سفر کرنے کی مشقت اٹھانی پڑی ۔ معیشت کی میدان میں بھی سال 2020 میں ہندوستان کی رفتار  ترقی یافتہ ممالک میں سب سے پیچھے رہی بلکہ سب سے خراب رہی۔
 پی ایم فنڈ پر بھی سوال اٹھاتے ہوے کہا کہ اس فنڈ کو ان کمپنیوں سے پیسہ ملا ہے جس پر ہندوستانی حکومت نے پابندی عائد کر رکھی ہے، تو حکومت نے وہ چندہ واپس کیوں نہیں کیا ؟ انہوں کہا کہ وزیر اعظم آئینگے اور جائینگے تو اس فنڈ کا نام کسی ایک شخص کے نام پر کیسے رکھا جا سکتا ہے؟
میڈیا  بھی تمام صحافی اخلاق کو بالائے طاق رکھتے ہوے ہر دن نیچے گررہا ہے۔ حالیہ "واٹسآپ چیٹ لیکس" سے حکومت اور سرمایہ داروں کا ایسا گھٹھبندھن سامنے آیا ہے ، جس سے بچانے کی جھوٹی امید  خود یہ حکومت ہمیں دلاتی رہی ہے۔
آپ کانگریس کو ایمرجنسی کا طعنہ دیتے رہتے ہیں ، لیکن آج ہندوستان ایک "غیر اعلانیہ " ایمرجنسی کے دور میں داخل ہو چکا ہے۔ شاید اس حکومت نے اندازہ غلط لگا لیا ہے۔ بزدلی اور جرآت کے درمیان ایک فرق یے۔ بزدل صرف اس وقت بہادر ہوتا ہے جبکہ اسکے پاس طاقت اور اختیار ہو، جبکہ حقیقی بہادر ہتھیاروں کے بغیر بھی مقابلہ کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جب آپ پولیس اور بیوروکریسی کو غازی آباد خالی کرانے کا حکم نامہ جاری کرتے ہیں، انٹرنیٹ بند کردیتے ہیں ، تو یاد رکھیے کہ یہ آپکی بہادری نہیں ، بلکہ آپکی "بزدلی " اور "نکمہ پن" کا ثبوت ہے۔ یہ مت بھولیے کہ ہریانہ کے جوان پولیس اور فوج میں خاصی تعداد میں ہیں اور اپنی جان کی بازی لگا کر اس ملک کی حفاظت کرتے ہیں اسلئے نہ انکو "دیش دروہی" کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی انکو "غداری" کا سرٹیفکیٹ دیا جاسکتا ہے۔  
آپ کی تمام حالیہ کاروائیاں یہ بتاتی ہیں کہ آپ بہادر نہیں بلکہ طاقت اور اختیار سے لیس "ڈرپوک" ہیں۔ 
نیتاجی سبھاش چندر بوس نے کہا تھا کہ ہمیں ہندوستان کی قسمت پر یقین رکھنا چاھیے۔ لیکن میں کہتی ہوں کہ ہندوستان چند  ڈرپوکوں کا غلام بن کر نہیں رہےگا ، اب وقت آگیا ہے کہ ہم سب سچی "بہادری" اور "جرآت" کا مظاہرہ کریں۔
               یقیناً اس پارلیمانی خطاب میں مسیز مہوا میوترا نے سرکار کو حقیقی آئینہ دکھایا ہے، چاپلوسوں، غلط بیانیوں اور حکومت کی طرفداریوں کے دوران حق کا کڑوا گھونٹ پلایا ہے۔۔۔ صحیح دشا دکھایا ہے۔۔۔۔ 
                      ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کی بہادری بھرا انداز، عمدہ لہجہ و انداز بیان ، حوصلہ افزا تیور اور بہترین منطقی اور الزامی استدلال اور تاریخی معلومات نے سب کو مسحور کر دیا، بلکہ سکتہ میں ڈال دیا۔ اس سے پہلے بھی وہ اس طرح کی جرات اور حق گوئی سے پر تقریر سے، ایوان اقتدار میں کرچکی ہیں اور سرکار کو کھری کھری سنا چکی ہیں اور اس کی غلط پالیسیوں پر بھر پور نقد کرچکی ہیں۔۔ ہمارے ایک دوست نے بالکل صحیح تجزیہ کیا ہے کہ۔۔۔ 
"سچ کہا جائے تو یہ کہنا بجا ہوگا کہ ایسی بے عزتی اور ذلت پر کوئی خود دار شرم سے  پانی پانی ہوجائے، چلو بھر پانی میں ڈوب مرے، ایوان چھوڑ دے، یا کم از کم اسے ترکی بترکی جواب دے کر اپنی صفائی یوں پیش کرے کہ کچھ تو داغ کم ہو۔۔ لیکن وہ جانتے ہیں کہ مہوا میوترا کا حرف بحرف درست ہے۔ لیکن بے حسی کی جو دبیز چادر تنی ہوئی ہے وہ حق سننے اور سمجھنے اور غلطی کو ماننے اور تسلیم کرنے میں مانع ہے"۔۔۔        کاش حکومت کے اقتدار پر براجمان لوگ سچائی اور حقیقت کا اعتراف کر لیتے اور صحیح کو صحیح مان کر اپنی شرافت اور دانشمندی کا ثبوت دیتے اور مسیز مہوا میوترا کی طرح ہر ممبر اسی طرح حق گوئی کو اپنا شعار بنا لیتے۔۔