Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, February 8, 2021

نیک ماں کی گود سے ملک و ملت کے رہبر پیدا ہوتے ہیں۔‏

از / شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی/صدائے وقت
۔ُُُ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ُُُ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ُُُ۔۔۔۔۔۔۔۔ُُُ۔۔۔۔۔ُ۔۔۔۔
قارئینِ کرام ۔
ہر انسان کے اندر اللہ رب العزت نے ایک فطری خواہش رکھی ہے کہ جب وہ جوانی کی عمر کو پہنچے تو شادی کے بعد صاحب اولاد ہو جائے اولاد کا ہونا ایک خوشی ہوتی ہے اور اولاد کا نیک ہونا دوگنی خوشی ہوتی ہے اسی لیے جب بھی اللہ رب العزت سے اولاد کی دعائیں مانگیں تو ہمیشہ نیک اولاد کی دعائیں مانگیں بچوں کا نیک ہونا ماں باپ کا اپنی اولاد کی تربیت کرنا یہ اللہ رب العزت کو بہت پسند ہے حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو نصیحتیں کیں پیاری پیاری باتیں سنائیں اللہ تعالی کو اتنی اچھی لگیں کہ ان قرآن مجید میں نقل فرمایا اور سورہ کا نام بھی لقمان رکھ دیا ۔
اللہ تعالی نے انسان کو بے شمار نعمتیں عطا فرمائی ہیں اگر ہم اس کی نعمتیں شمار کرنا چاہیں تو شمار بھی نہیں کر سکتے یہ زندگی اس کی نعمت ہے سورج چاند اور ستارے اس کی نعمت ہیں نباتات اور جمادات اس کی نعمت ہیں گرمی اور سردی اس کی نعمت ہیں ہاتھ پاؤں اور تمام اعضاء اس کی نعمت ہیں گویائی  اس کی نعمت ہے ایمان اس کی نعمت ہے قرآن مجید اس کی نعمت ہے کعبہ اس کی نعمت ہے حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ مبارک اس کی نعمت ہے غرضیکہ ہم پر اس کے احسانات اور اس کی نعمتیں اس قدر ہیں کہ قرآن نے اعلان کردیا (وان تعدوا نعمت اللہ لا تحصوھا)  اس کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت اولاد بھی ہے اولاد کو نور چشم بھی کہتے ہیں لخت جگر بھی کہتے ہیں بوڑھاپے کی لاٹھی کا نام بھی دیا جاتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اولاد اگر واقعی اولاد ہو تو وہ آنکھوں کا نور بھی ہوتی ہے دل کا سرور بھی ہوتی ہے جگر کا ٹکڑا بھی ہوتی ہے اس کے وجود سے گھر کی ویرانیاں ختم ہو جاتی ہیں اس کی جوانی والدین کے بڑھاپے کی لاٹھی ہوتی ہے اولاد وہ نعمت ہے جس کی خواہش ہر شادی شدہ جوڑے کو ہوتی ہے ان کے بغیر ان کی ازدواجی زندگی ادھوری اور نا مکمل تصور کی جاتی ہےاور جب نومولود کی آمد ہوتی ہے تو خوشی میں مٹھائی تقسیم کی جاتی ہے ایک دوسرے کے گلے لگ کر مبارک باد دی جاتی ہے شرعی طریقے پر نومولود کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی جاتی ہے ساتویں دن اچھا سا نام رکھ کر عقیقہ کی سنت ادا کی جاتی ہے پھر جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا جاتا ہے ماں باپ کی ساری توجہ اسی کے ارد گرد گھومنے لگتی ہے کبھی اس کے کھانے کا خیال تو کبھی پہننے کا خیال تو کبھی اس کے کھلونوں کا خیال غرض راحت و آرام کے لئے  ساری تدبیر اختیار کی جاتی ہیں لیکن جس چیز کا خیال سب سے زیادہ ضروری ہے اس پر بہت کم ماں باپ توجہ دیتے ہیں وہ ہے اس کی دینی تعلیم اور اخلاقی تربیت ۔ جب وہ سنبھل سنبھل کر چلنے کی سعی کرتا ہے اور ابتدا میں زبان سے کچھ بولنے کی کوشش کرتا ہے تو دراصل یہیں سے ماں باپ کی اصل ذمہ داری شروع ہو جاتی ہے کہ اس کی صحیح رہنمائی کرے اس کی دینی تربیت پر خصوصی توجہ دیں ۔ اللہ کے سارے پیغمبروں نے اور ان سب کے آخر میں ان کے  خاتم سیدنا حضرت محمد صلی اللہ وسلم نے اس چند روزہ دنیا کی زندگی کے بارے میں یہی بتایا ہے کہ یہ دراصل آنے والی اس اخروی زندگی کی تمہید ہے اور اس کی تیاری کے لیے جو اصل اور حقیقی زندگی ہے اور جو کبھی ختم نہ ہوگی اس نقطہ نظر کا قدرتی اور لازمی تقاضا ہے کہ دنیا کے سارے مسلئوں سے زیادہ آخرت کو بنانے اور وہاں فوز و فلاح حاصل کرنے کی فکر کی جائے اس لیۓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر صاحبِ اولاد پر اس کی اولاد کا یہ حق بتایا ہے کہ وہ بالکل شروع ہی سے اس کی دینی تعلیم و تربیت کی فکر کرے اگر وہ اس میں کوتاہی کرے گا تو قصور وار ہوگا ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے بچوں کی زبان سے سب سے پہلے لا الہ الا اللہ کہلواؤ اور موت کے وقت ان کو اسی کلمہ یعنی لا الہ الا اللہ کی تلقین کرو (شعب الایمان للبیہقی)
انسانی ذہن کی صلاحیتوں کے بارے میں جدید تجربات اور تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے اور اب گویا تسلیم کرلی گئی ہے کہ پیدائش کے وقت ہی سے بچے کے ذہن میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ جو آوازیں وہ کان سے سنے اور آنکھوں سے جو کچھ دیکھے اس سے اثر لے اور وہ اثر لیتا ہے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدا ہونے کے بعد ہی  کان میں اذان و اقامت پڑھنے کی جو ہدایت فرمائی ہے اس سے بھی یہ اشارہ ملتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی اس حدیث میں ہدایت فرمائی گئی ہے کہ بچے کی زبان جب بولنے کے لئے کھلنے لگے تو سب سے پہلے اس کو (لا الہ الااللہ) کی تلقین کی جائے اور اسی سے زبانی تعلیم و تلقین کا افتتاح کی جائے۔  بڑا خوش نصیب ہے  اللہ کا وہ بندہ جس کی زبان سے دنیا میں آنے کے بعد سب سے پہلے یہی کلمہ نکلے اور دنیا سے جاتے وقت یہی اس کا آخری کلمہ ہو ( اللہ تعالی نصیب فرمائے) 
حضرت سعید بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا کہ کسی باپ نے اپنی اولاد کو کوئی عطیہ اور تحفہ حسن ادب اور اچھی سیرت سے بہتر نہیں دیا (جامع ترمذی)
یعنی باپ کی طرف سے اولاد کے لیے سب سے اعلی اور بیش بہا تحفہ یہی ہے کہ ان کی ایسی تربیت کرے کہ وہ شائستگی اور اچھے اخلاق و سیرت کے حامل ہوں ۔
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی اولاد کا اکرام کرو اور ( اچھی تربیت کے ذریعہ) ان کو حسن ادب سے آراستہ کرو (سنن ابن ماجہ)
ماں باپ کی ذمہ داری ہے اور سب سے بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ شروع ہی سے اولاد کی اچھی تعلیم اور ان کی صحیح تربیت کی طرف توجہ دیں اسلام نے بڑی اہمیت کے ساتھ اور بڑے خاص انداز سے ماں باپ کی توجہ اس جانب مبذول کروائی ہے ۔
حضرت عبداللہ بن عمر بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا تمہارے بچے جب سات سال کے ہو جائیں تو ان کو نماز کی تاکید کرو اور جب دس سال کے ہو جائیں تو نماز میں کوتاہی کرنے پر ان کو سزا دو اور ان کے بستر بھی الگ کر دو ۔ ( سنن ابی داؤد)
عام طور سے بچے سات سال کی عمر میں سمجھ دار اور باشعور ہو جاتے ہیں اس وقت سے ان کو خدا پرستی کے راستے پر ڈالنا چاہیے اور اس کے لیے ان سے نماز کی پابندی کرانی چاہیے ۔ دس سال کی عمر میں ان کا شعور کافی ترقی کر جاتا ہے اور بلوغ کا زمانہ قریب آ جاتا ہے اس وقت نماز کے بارے میں ان پر سختی کرنی چاہیے اور اگر وہ کوتاہی کریں تو مناسب طور پر ان کی سرزنش بھی کرنی چاہیے نیز اس عمر کو پہنچ جانے پر ان کو الگ الگ سلانا چاہیے ( دس سال سے پہلے اس کی گنجائش ہے ) حدیث کا مدعا یہ ہے کہ ماں باپ پر یہ سب اولاد کے حقوق ہیں لڑکوں کے بھی اور لڑکیوں کی بھی اور قیامت کے دن ان سب کے بارے میں باز پرس ہوگی ۔
آپ کی اولاد کا آپ پر پہلا حق یہ ہے کہ ان کے لیے اچھی ماں تلاش کریں اور ماں پر لازم ہے کہ ایسے شوہر سے نکاح کرے جو اس کے بچوں کا اچھا باپ ثابت ہو سکے  کتنے ہی ایسے مرد ہیں جو محض حسن پرستی میں مبتلا ہوکر آوارہ عورتوں سے شادی کر لیتے ہیں اور کتنی ہی شریف گھرانوں کی عورتیں ہوتی ہیں جو محض جذبات میں آکر بدکردار مردوں سے شادی رچا لیتی ہیں ایسے مردوں اور عورتوں کو اپنی غلطی کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب جذبات کا طوفان تھم جاتا ہے اور عملی زندگی سے سابقہ پیش آتا ہے ۔
اولاد کا حق ماں باپ پر ۔
حدیث پاک میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے سامنے ایک باپ اپنے بیٹے کو لایا بیٹا جوانی کی عمر میں تھا مگر وہ ماں باپ کا نافرمان بیٹا تھا اس نے آکر حضرت عمر فاروق کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کیا کہ یہ میرا بیٹا ہے مگر میری کوئی بات نہیں مانتا نا فرمان بن گیا ہے آپ اسے سزا دیں یا سمجھائیں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے جب باپ کی یہ بات سنی تو بیٹے کو بلاکر پوچھا کہ بیٹے بتاؤ کہ تم اپنے باپ کی نافرمانی کیوں کرتے ہو تو اس نے آگے سے پوچھا کہ امیرالمومنین کیا والدین کے ہی اولاد پر حق ہوتے ہیں یا کوئی اولاد کا بھی  ماں باپ پر حق ہوتا ہے اولاد کے حق بھی ماں باپ پر ہوتے ہیں۔ اس نے کہا کہ میرے باپ نے میرا کوئی حق ادا نہیں کیا سب سے پہلے اس نے جو ماں چنی وہ ایک باندی تھی جس کے پاس کوئی علم نہیں تھا نہ اس کے اخلاق ایسے نہ علم ایسا اس نے اس کو اپنایا اور اس کے ذریعے میری ولادت ہوگئی تو میرے باپ نے میرا نام ( جعل ) رکھا (جعل ) کے لفظی مطلب  گندگی کا کیڑا ہوتا ہے یہ بھی کوئی رکھنے والا نام تھا جو میرے ماں باپ نے رکھا پھر ماں کے پاس چونکہ دین کا علم نہیں تھا اس نے مجھے کوئی دین کی بات نہیں سکھائی اور میں بڑا ہو کر جوان ہوگیا اب میں نافرمانی نہیں کروں گا تو اور کیا کروں گا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے جب یہ سنا تو فرمایا کہ بیٹے سے زیادہ تو ماں باپ نے اس کے حقوق کو پامال کیا اس لیے اب یہ بیٹے سے کوئی مطالبہ نہیں کر سکتے آپ نے مقدمے کو خارج کر دیا ۔
پہلی درسگاہ ۔
ماں کی گود بچے کے لیے پہلی درسگاہ ہے بچے کی ابتدائی تربیت کی ذمہ داری ماں پر عائد ہوتی ہے ماں کو چاہیے کہ وہ بچے کے حافظے میں حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے الفاظ راسخ کرے اور اس کا ذہنی رابطہ اسلامی تاریخ کے ساتھ جوڑدے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے بچوں کو تین باتیں سکھاؤ (1) اپنے نبی کو صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت (2) ان کے اہل بیت کی محبت (3) قرآن کریم کی تلاوت۔ماں کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو دیوی بھوت پری  جنات  اور کتے بلیوں کی کہانیوں کے بجائے انبیاء کرام علیہم السلام صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین اولیاء کرام  اور اسلامی تاریخ کے مجاہدین غازیوں اور شہیدوں کے متعلق بتایئے حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کا واقعہ سنائیے بلال رضی اللہ تعالی عنہ کی مظلومیت کا احوال بیان کیجیے علی رضی اللہ تعالی عنہ کی شجاعت اور فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی عدالت کا تذکرہ کیجئے سمیہ رضی اللہ عنہا کی قربانی کے متعلق بتایئے ان کے سامنے فتح مکہ کا نظارہ پیش کیجئے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات اور جنگیں اسی طرح یاد کراتے تھے جس طرح انہیں قرآن کریم کی سورتیں یاد کراتے تھے ۔
ہمارے لئے انتہائی غیرت کا مقام ہے کہ مسلمان گھرانوں میں پرورش پانے والے بچوں کو فلمی ہیرو اور ہیروئین اور گلوکاروں کے نام تو یاد ہیں لیکن انہیں صحابہ اور صحابیات حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اسلامی تاریخ کے مجاہدوں جانثاروں اور ہمارے حقیقی محسنوں کے نام یاد نہیں چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو فلموں کے ڈائیلاگ ڈراموں کے مکالمے اور پوری پوری کہانیاں ازبر ہیں لیکن اسلامی تاریخ کے اہم ترین واقعات سے انہیں دور کی آشنائی بھی نہیں ہے ۔
بہترین ماں کی صفت یہ ہے کہ اس کے اندر اعلیٰ اخلاقی جوہر ہو وہ سچائی امانتداری ایثار اور وفاداری کا پیکر ہو اسی طرح اس کا اسلامی احکام کا پابند ہونا ہے اسلام سے اس کی محبت جس قدر ہوگی اسی قدر اس کی نسلیں اسلام سے محبت کریں گی پھر قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ ماں نے اپنی اولاد کی پرورش کس مال سے کی ہے نا جائز اور حرام مال سے بننے والے دودھ میں وہ طاقت نہیں ہوتی جس سے باطل کا مقابلہ کیا جاسکے رشوت سود اور دھوکے کی کمائی سے بزدل انسان جنم لیتے ہیں اسی لیے تاریخ میں ایسی ماؤں کی مثالیں ملتی ہیں کہ ان کے شوہر کی آمدنی اگر حلال نہیں ہوتی تھی تو انہوں نے اپنی اولاد کو اپنا دودھ نہیں پلایا علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے والد کی آمدنی مشکوک تھی اسی لیے ان کی والدہ نے اپنا دودھ نہیں پلایا بلکہ اپنے مائیکے کے ملے ہوئے زیور بیچ کر بکری خریدی اور  اس کے دودھ سے علامہ اقبال کی پرورش کی جس کے نتیجہ میں محمد اقبال علامہ اقبال بن گئے جب ماں تہجدگزار ہوتی ہے اور وضو کر کے دودھ پلاتی ہے تو فریدالدین گنج شکر نظام الدین اولیاء اور خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمہم اللّٰہ پیدا ہوتے ہیں ۔
ام امام غزالی رحمہ اللہ کا علم معرفت ۔
امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ دو بھائی تھے ایک کا نام محمد اور دوسرے کا نام احمد تھا محمد غزالی اور حمد غزالی دونوں بھائی بڑے نیک تھے مگر ایک کا رجحان علم کی طرف زیادہ تھا اور دوسرے کا رجحان ذکر کی طرف زیادہ تھا جس کو ہم امام غزالی کہتے ہیں یہ عالم تھے اپنے وقت کے بہت بڑے واعظ اور خطیب تھے اپنے وقت کے قاضی تھے ایک بڑی مسجد کے امام بھی تھے ان کے چھوٹے بھائی احمد غزالی ذکر و اذکار میں لگے رہتے اور ان کی عادت تھی کہ مسجد میں جاکر نماز پڑھنے کی بجائے  اپنی نماز خلوت میں پڑھ لیا کرتے تھے ایک دن امام غزالی نے اپنی والدہ سے عرض کیا کہ اماں لوگ مجھ پر اعتراض کرتے ہیں کہ تیرا سگا بھائی تیرے پیچھے نماز نہیں پڑھتا اپنی علیحدہ نماز پڑھ لیتا ہے آخر کیا بات ہے تو آپ بھائی سے کہیں الگ پڑھنے کی بجائے میرے پیچھے جماعت سے نماز پڑھ لیا کریں ماں نے چھوٹے بیٹے کو بلایا بیٹے تم بڑے بھائی کے پیچھے نماز پڑھ لیا کرو کہنے لگے امی میں پڑھوں گا چنانچہ اگلی نماز میں امام غزالی نے  امامت کی اور احمد غزالی نے ان کے پیچھے  نیت باندھ لی ۔ جب دوسری رکعت میں کھڑے ہوئے تو احمد غزالی نے نماز کی نیت توڑ دی اور جماعت میں سے نکل کر علیحدہ نماز پڑھی گھر آگئے اب نماز کے بعد لوگوں نے امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ پر اور اعتراضات کئے کہ تیرے بھائی نے تو ایک رکعت پڑھی اور دوسری رکعت میں نماز توڑ کر چلے گئے امام غزالی بڑے مغموم ہوئے پریشان ہوئے پھر آکر والدہ کی خدمت میں عرض کیا ا ماں بھائی نے تو ایک رکعت پڑھی پھر نماز توڑ کر آگیا میری بے عزتی اور زیادہ کروا دی ماں نے بلا کر پوچھا بیٹے تم نے یہ کیا کام کر دکھایا بیٹے نے کہا امی  جب تک یہ اللہ کی نماز پڑھ رہے تھے میں ان کے پیچھے کھڑا تھا جب اللہ کی نماز پڑھنے کی بجائے  اور چیزوں میں مشغول ہوگئے تو میں نے نماز توڑدی ۔ امی انہیں سے پوچھو ماں نے پوچھا محمد غزالی معاملہ کیا ہے  امام غزالی کی آنکھوں سے آنسو آگئے امی بھائی کہتا تو ٹھیک ہے میں نے جب نماز کی نیت باندھی تو میری توجہ اللہ رب العزت کی طرف تھی میں نماز کی پہلی رکعت توجہ کے ساتھ پڑھتا رہا جب دوسری رکعت میں کھڑا ہوا تو نماز سے پہلے عورتوں کے حیض و نفاس کے مسائل کا مطالعہ کر رہا تھا انہی مسائل کی طرف میرا دھیان چلا گیا تھوڑی دیر کے لئے پھر میں نے توجہ ٹھیک کر لی تو جب یہ بات انہوں نے کی تو ماں نے ٹھنڈی سانس لی دونوں بیٹے حیران ہوئے اماں آپ ٹھنڈی  سانس کیوں لے رہی ہیں کہنے لگی میرے دو بیٹے اور دونوں میرے کسی کام کے نہ ہوئے بڑی حیرانی ہوئی ان کو سن کر امام محمد غزالی نے کہا امی میں بھی کسی کام کا نہیں امام احمد غزالی نے پوچھا امی بھی کسی کام کا نہیں ماں نے کہا ہاں تم دونوں تو میرے کسی کام کے بیٹے نہ بنے تو انہوں نے پوچھا وجہ کیا ہے ماں نے کہا ایک آگے نماز پڑھانے کھڑا ہوا تو وہ عورتوں حیض و نفاس کے بارے میں سوچ رہا تھااور دوسرا اس کے پیچھے کھڑا ہوا وہ بھی خدا کی طرف متوجہ ہونے کی بجائے بھائی کے قلب میں کھڑا جھانک  رہا تھا دونوں میں سے کسی کی توجہ اللہ کی طرف نہیں تھی تو میرے بیٹوں میں سے دونوں میں سے کوئی بھی کام کا نہ بنا سوچنے کی بات ہے جب عورت معرفت کا علم حاصل کرتی ہے تو اتنی بلندیوں کو پا لیتی ہے کہ بڑے بڑے اولیاء کی تربیت کرتی ہے اور ان کو معرفت کے نکات سمجھا دیتی ہے ۔
خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ کی والدہ کی تربیت ۔
خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ قطب مینار کے پاس ہی ان کی قبر ہے جہاں یہ لیٹے ہوئے آرام فرما رہے ہیں ان کے بارے میں آتا ہے ان کا نام تو تھا قطب الدین لیکن ان کے ساتھ کاکی کا لفظ استعمال کرتے ہیں کا کی ہندی کا لفظ ہے کا کی ہندی میں روٹی کو کہتے ہیں تو یہ لفظ ان کے نام کے ساتھ کیسے لگا یہ بھی دلچسپ واقعہ ہے کہ جب ان کی پیدائش ہوئی ذرا سمجھ بوجھ والے ہو گئے ماں باپ بیٹھ کر سوچنے لگے کہ ہم بچے کی کس طرح اچھی تربیت کریں تاکہ ہمارا بچہ اللہ رب العزت سے محبت کرنے والا بن جائے دونوں آپس میں میں مشورہ کرتے رہے لیکن وہ جو  بات کرتے تھے اسے اسی وقت عمل میں لے آیا کرتے تھے آج کی عورتوں کا یہ حال ہے کہ جب ان کی شادی نہیں ہوتی تو بچوں کی تربیت کے بارے میں ان کے پلان ہوا کرتے ہیں اور ان  کی شادی ہوتی ہے اور ان کے پانچ بچے ہوتے ہیں تو ایک پلان بھی بچوں کی تربیت کا ان کے پاس نہیں ہوتا ان کا دماغ ایسا ماؤف ہو چکا ہوتا ہے تو وہ ایسی نہیں تھی وہ تو بچے کی اچھی تربیت کرنے والی تھیں لہٰذا ماں باپ بیٹھے سوچ رہے تھےبیوی کہنے لگی کہ میرے ذہن میں ایک بات ہے میں کل سے اس پر عمل کروں گی جس کی وجہ سے میرا بیٹا اللہ سے محبت کرنے والا بن جائے گا خاوند نے کہا بہت اچھا چنانچہ اگلے دن جب بیٹا مدرسہ میں گیا تو پیچھے ماں نے اس کی روٹی بنادی اور اندر کہیں پر چھپا دی جب بچہ آیا کہنے لگا امی مجھے بھوک لگی ہے مجھے روٹی دیں تو ماں نے کہا کہ بیٹا روٹی ہمیں بھی اللہ تعالی دیتے ہیں آپ کو بھی اللہ تعالی ہی دیں گے آپ اللہ تعالی سے مانگ لیجئے بیٹے نے پوچھا امی میں کیسے مانگوں فرمایا کہ بیٹے مصلیٰ بچھا دو اس پر بیٹھ کر اپنے دونوں ہاتھ اٹھاؤ اور اپنے اللہ سے دعا مانگو چنانچہ بچے نے مصلیٰ بچھا یا دونوں ہاتھ اٹھا لیے اور دعا مانگنے لگا اے اللہ میں ا بھی مدرسہ سے آیا ہوں تھکا ہوا ہوں اور مجھے بھوک لگی ہوئی ہے اور مجھے پیاس بھی لگی ہوئی اللہ مجھے روٹی بھی دے دیجئے پانی بھی دے دیجئے یہ دعا مانگنے کے بعد بیٹے نے پوچھا کہ امی اب میں کیا کروں تو ماں نے کہا کہ بیٹے اللہ نے تیرا رزق بھیج دیا ہوگا تو کمرے کے اندر تلاش کر تجھے مل جائے گا چنانچہ بچہ مصلیٰ سے اٹھ کر کمرے میں آیا ادھر ادھر دیکھا گرم گرم کھانا پکا ہوا ملا وہ بڑا خوش ہواپھر کھانا کھاتے ہوئے پوچھنے لگا امی روز اللہ تعالی دیتے ہیں ماں نے کہا ہاں بیٹے روز اللہ تعالی ہی دیتے ہیں اب یہ روز کی عادت بن گئی بچہ مدرسہ سے آتا اور آکر مصلیٰ پر بیٹھ کر دعا مانگتا ماں  کھانا تیار کر کے چھپا دیتی  اور وہ کھانا بچے کو مل جاتا بچہ کھانا کھا لیتا جب کئی دن گزر گئے ماں نے محسوس کرنا شروع کر دیا کہ بچہ اللہ تعالی کے متعلق زیادہ سوال پوچھنے لگا امی ساری مخلوق کو اللہ تعالی کھانا دیتے ہیں امی اللہ تعالی کتنے اچھے ہیں امی اللہ تعالی ہر روز کھانا دیتے ہیں اللہ رب العزت کی محبت خوب بیٹھنے لگ گئی ماں بھی بڑی خوش تھی کہ بچے کی تربیت اچھی ہو رہی ہے اور یہ سلسلہ کئی مہینے ایسے چلتا رہا بلا آخر ایک دن ایسا آیا ماں کو کسی تقریب میں رشتہ داروں کے گھر جانا پڑا بیچاری وقت کا خیال نہ  رکھ سکی جب اسے یاد آیا کہ وقت تو بچے کے واپس آنے کا ہو چکا تھا اور ماں گھبرائی میرا بیٹا مدرسہ سے واپس گھر آیا ہو گا اگر اس کو کھانا نہ ملا تو میری تو ساری محنت ضائع ہوجائے گی اب آنکھوں سے آنسو آگئے اللہ سے فریاد کرتی جارہی ہے میرے مولا میں نے ایک چھوٹی سی ترکیب بنائی تھی میرے بیٹے کے دل میں تیری محبت بیٹھ جائے اللہ مجھ سے غلطی ہوئی میں وقت کا خیال نہ رکھ سکی کھانا پکا کر نہیں رکھ آئی  اللہ میرے بیٹے کا یقین نہ ٹوٹےاللہ میری محنت ضائع نہ کر دینا روتی ہوئی ماں بلا آخر جب گھر پہنچی تو کیا دیکھتی ہے بچہ بستر کے اوپر آ رام کی نیند سویا ہوا ہے ماں نے غنیمت سمجھا اور جلدی سے کچن میں جا کر کھانا بنا دیا اور پھر اسے کمرے میں چھپا دیا پھر اپنے بیٹے کے پاس آئی آکر اس کے رخسار کا بوسہ لیا بچہ جاگ گیا ماں نے سینے سے لگا لیا میرے بیٹے تمہیں آئے ہوئے دیر ہوگئی ہے تمہیں بہت بھوک لگی ہوگی بہت پیاس لگی ہوگی بیٹا اٹھو اللہ سے رزق مانگ لو بیٹا ہشاش بشاس اٹھ کر بیٹھ گیا امی مجھے بھوک نہیں لگی پیاس نہیں لگی ماں نے پوچھا بیٹا کیوں بیٹا کہنے لگا امی جب میں مدرسے سے گھر آیا تھا میں نے مصلیٰ بچھا یا اور میں نے ہاتھ اٹھا کر اللہ سے دعا مانگی اللہ بھوکا پیاسا ہوں مجھے کھانا دے دیجئے اللہ آج تو امی گھر  پر نہیں ہیں میں نے یہ دعا مانگ کر  کمرے میں جاکر دیکھا  مجھے کمرے میں ایک روٹی پڑی ہوئی میں نے اسے کھا لیا لیکن امی آج جو مزہ مجھے اس روٹی میں آیا وہ مجھے کبھی بھی نہیں آیا ماں نے بچے کو سینے سے لگا لیا اللہ کا شکر ادا کیا کہ اللہ تونے میری لاج رکھ لی اس لئے اس کا نام کاکی پڑھ گیا  خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ۔ آپ نے دیکھا جن لوگوں نے اولاد کی صحیح تربیت کی ان کی اولاد علم و عمل کے اعتبار سے عظمت و رفعت کے اعتبار سے اور سیرت و کردار کے اعتبار سے ایسی بلندیوں تک پہنچ گئی کہ آج ان کو دنیا رشک کے ساتھ دیکھتی ہے ماں اگر اچھی ہو گی تو اس کی گود میں پلنے والا بچہ بھی اچھا انسان بنے گا ماں اگر بری ہوگی تو اس کی گود میں پرورش پانے والا بچہ بھی برا انسان بنے گا یہ تو ممکن ہے کہ ایک اچھی ماں کی اولاد بھی برے ماحول سے متاثر ہو کر بری ہوجائے لیکن بری آغوش میں پل کر کوئی نیک بن جائے ایسا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے نماز سے غافل اور رات کو فلم دیکھ کر سو نے والی ماں کی آغوش سے فلمستان کے ہیرو تو جنم لے سکتے ہیں ملک و ملت کے لئے سپاہی نہیں پیدا ہوسکتے اس دور میں اصلاح و تربیت والدین کے لئے اتنی ہی ضروری ہے جتنا کہ بچے کے کھانے پینے کا انتظام کرتے ہیں دواؤں کا انتظام کرتے ہیں اصلاح و تربیت کا معاملہ ایسا ہے کہ آج اپنے بچے کی اصلاح کر لیجئے کل یہ آپ کے لئے دنیاوی اعتبار سے نہیں آخرت کے اعتبار سے باقیات الصالحات بنے گا ۔
شمشیر عالم مظاہری۔ دربھنگوی۔
امام جامع مسجد
شاہ میاں روہوا
 ویشالی بہار ے