Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, February 5, 2021

عورت مرد سے زیادہ علمِ دین والی ہوسکتی ہے _ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

از/ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی/ صدائے وقت۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک خاتون ، جن کا نام سلمیٰ (رضی اللہ عنہا) تھا اور وہ حضرت ابو رافع (رضی اللہ عنہ) کی بیوی تھیں ، اللہ کے رسولﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور شکایت کی :
” اللہ کے رسول ! میرے شوہر نے مجھے مارا ہے _”
آپ نے ابو رافع کو بلا بھیجا اور دریافت کیا :
"ابو رافع ! کیا بات ہے؟ تم نے کیوں مارا؟ ”
انھوں نے جواب دیا :
” اے اللہ کے رسول ! یہ مجھے تکلیف پہنچاتی ہے _”
آپ خاتون سے مخاطب ہوئے :
” سلمیٰ ! تم نے اپنے شوہر کو کیا تکلیف پہنچائی ہے؟ ”
انھوں نے عرض کیا :
” میں نے کچھ تکلیف نہیں پہنچائی ہے _ بس نماز پڑھتے ہوئے ان کی ہوا نکل گئی تو میں نے کہا : ” اللہ کے رسول ﷺ نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ جب کسی شخص کی ہوا نکل جائے تو اس کا وضو ٹوٹ جاتا ہے ، اسے دوبارہ وضو کرلینا چاہیے _ اتنی سی بات پر وہ مجھے مارنے لگے _ ”
یہ سن کر رسول اللہ ﷺ ہنسنے لگے _ آپ نے فرمایا :
” ابو رافع ! اس نے تو تم سے اچھی بات کہی تھی _ ”

یہ حدیث ام المؤمنين حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی سے اور اس کی روایت امام أحمد (٢٦٣٣٩) بزّار (٨٥) ، طبراني (٧٦٥) اور دیگر محدثین نے کی ہے _ اس سے درج ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں _

(1) ایک فقہی مسئلہ اس سے یہ مستنبط ہوتا ہے کہ اگر کسی باوضو شخص کی ہوا خارج ہوجائے تو اس کا وضو ٹوٹ جاتا ہے _ اگر ایسا دورانِ نماز ہو تو وہ فوراً جاکر وضو کرے اور واپس آکر اپنی نماز پوری کرے _

(2) دوسری بات اس حدیث سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ اگر عورت پر کوئی زیادتی ہو تو وہ اپنے بڑوں سے اس کی شکایت کرسکتی ہے _ عائلی زندگی میں شوہر اور بیوی دونوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہنسی خوشی رہیں ، ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں اور دوسرے کو شکایت کا موقع نہ دیں _ لیکن ایسے مواقع آسکتے ہیں جب میاں بیوی میں کوئی تلخی پیدا ہوجائے _ شوہر کو بیوی سے کچھ شکایت ہوجائے یا بیوی کو شوہر کا کوئی رویّہ ناگوار گزرے _ انہیں ابتدا میں برداشت کرنے اور نظر انداز کرنے کا رویّہ اپنانا چاہیے ، لیکن اگر قوّتِ برداشت جواب دے جائے تو بڑوں تک بات پہنچانے میں کوئی حرج نہیں ہے _

(3) اس حدیث سے اس کا بھی استنباط ہوتا ہے کہ اگر زوجین میں سے کسی کی طرف سے کوئی شکایت خاندان کے کسی بڑے کے پاس پہنچے تو اسے اس پر توجّہ دینی چاہیے اور اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے _ نظر انداز کرنے کا ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ پھر شکایت کنندہ کے دل میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ اس کی کہیں سنوائی نہیں ، چنانچہ چھوٹی چھوٹی شکایتیں اس کے دل میں جمع ہونے لگتی ہیں ، یہاں تک کہ بعد میں کبھی موقع یا بے موقع نامناسب انداز میں دل کا غبار باہر نکلتا ہے تو صلح صفائی کی گنجائش باقی نہیں رہتی _ اس لیے ابتدا ہی میں شکایت پر توجہ دینے اور اسے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے _

(4) اس روایت سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ جس شخص کے پاس تنازع کا کوئی معاملہ پہنچے اسے چاہیے کہ ابتدائی مرحلے میں فریقین کو سمجھانے بجھانے کی کوشش کرے ، ان کے درمیان صلح صفائی کرائے اور منافرت کی خلیج کو کم کرنے کی کوشش کرے ، نہ کہ بڑھانے کی _ ہاں ، اگر دیکھے کہ تنازع آخری حد تک پہنچ گیا ہے اور موافقت کی کوئی صورت باقی نہیں بچی ہے تو پھر اسے عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کردینا چاہیے _

(5) میاں بیوی کے درمیان اختلافات اکثر بہت معمولی ہوتے ہیں _ اگر خوش سلیقگی کے ساتھ انہیں ڈیل کیا جائے تو بہت آسانی سے رفع ہوسکتے ہیں اور ان کے تعلقات میں دوبارہ خوش گواری پیدا ہوسکتی ہے _ اس کے لیے ان کی کونسلنگ کی ضرورت پڑتی ہے _ ‘کونسلنگ’ موجودہ دور کا ایک اہم فن بن گیا ہے _ اس کے کورسز ہوتے ہیں ، جن سے گزرنے کے بعد آدمی کو افہام و تفہیم ، ڈیلنگ اور رفعِ نزاع کی مہارت حاصل ہوجاتی ہے _ لوگ بھاری فیس ادا کرکے ایسے لوگوں تک اپنے معاملات لے جاتے ہیں اور تشفّی بخش حل پاتے ہیں _

(6) اس روایت سے سب سے اہم بات یہ نکلتی ہے کہ عورت کے پاس مرد سے زیادہ علمِ دین ہوسکتا ہے _ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے : "علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے _ (ابن ماجہ : 224) یہ فرضیت مسلمان مرد پر بھی ہے ، مسلمان عورت پر بھی _ تحصیلِ علم کی راہ میں جو جتنی کوشش اور جتنی محنت کرے گا اس کے بہ قدر حصہ پائے گا _ ایک حدیث میں عورتوں کو ‘ناقصات عقل و دین’ کہا گیا ہے _(بخاری :304 ، مسلم :79) یہ حدیث صحیح ہے ، لیکن اس کا پس منظر اور مفہوم دوسرا ہے _ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ہر عورت علم اور دین کے معاملے میں ہر مرد سے لازماً کم ہوگی _ اللہ کے رسولﷺ کے عہد میں بعض خواتین علم و فضل اور دین داری میں سیکڑوں نہیں ، ہزاروں مردوں سے فائق تھیں _ بعد کے ادوار میں بھی کتبِ سِیَر و سوانح میں متعدد ایسی خواتین کا تذکرہ ملتا ہے جن کا علمِ دین ہزاروں مردوں سے بڑھا ہوا تھا اور مرد ان کی مجلس میں آکر ان سے کسبِ فیض کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے _ ایسا آج بھی ہوسکتا ہے _ نظامِ خاندان میں مرد(شوہر) کو ‘قوّام'(نگراں اور محافظ) بنایا گیا ہے اور عورت (بیوی) کو اس کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے ، لیکن علم ، شعورِ دین ، فہمِ قرآن ، روحانیت ، تقرّبِ الٰہی ، عبادت ، انفاق اور دین کے تقاضوں پر عمل کرنے کے معاملے میں بیوی شوہر سے فائق ہوسکتی ہے _ ذلک فَضلُ اللہِ یُوتِیہِ مَن یَشَاءُ