Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, February 17, 2021

جہاد قانون کے خلاف جمعیت علماء ہندکی مداخلت کار کی عرضی سپریم کورٹ میں منظور. ‏


سپریم کورٹ نے لوجہاد قانون کو چیلنج کرنے والی عرضی میں جمعیۃ علماء ہند کو بطور مداخلت کار تسلیم کرلیا ہے۔ قبل ازیں کی سماعت پر عدالت نے مرکزی اور ریاستی حکومت کو نوٹس جاری کیا تھا۔
نئی دہلی /صدائے وقت /ذرائع /17 فروری 2021 
++++++++++++++++++++++++++++
کورٹ  نے لوجہاد قانون کو چیلنج کرنے والی عرضی میں جمعیۃ علماء ہند کو بطور مداخلت کار تسلیم کرلیا ہے۔ قبل ازیں کی سماعت پر عدالت نے مرکزی اور ریاستی حکومت کو نوٹس جاری کیا تھا۔ سٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس نامی آرگنائزیشن و دیگر کی جانب سے داخل کردہ اپیلوں پرآج سماعت عمل میں آئی جس کے دوران عدالت نے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول سے پوچھا کہ اس معاملے میں جمعیت علماء ہند کا مفاد کیا ہے؟اور وہ کیوں مداخلت کار بننا چاہتے ہیں جس پر اعجاز مقبول نے انہیں بتایا کہ جمعیت علماء ہند ہندوستانی مسلمانوں کی ایک قدیم تنظیم ہے اور ہندوستانی مسلمانوں کا تحفظ اس کے بنیاد ی مقاصد میں شامل ہے اور ہم اس معاملے میں عدالت کا تعاون کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے چیف جسٹس اے ایس بوبڈیے کو بتایا کہ لو جہاد قانون کے ذریعہ ایک بڑی تعداد میں مسلمانوں کو گرفتار کیاجاچکا ہے ا ور یہ سلسلہ جاری ہے لہذا مسلمانوں کے خلاف بنائے گئے اس غیر آئینی قانو ن کو ختم کرنے کے لیئے داخل پٹیشن میں وہ بطور مداخلت کار بننا چاہتے ہیں تاکہ عدالت میں اس تعلق سے اپنا موقف پیش کرسکے۔ایڈوکیٹ اعجاز مقبول نے عدالت کو بتایا کہ سیتا پور لو جہاد معاملے میں پولس نے تین خواتین سمیت دس لوگوں کو گرفتار کیا ہے جن کے مقدمہ کی پیروی جمعیت علماء ہند کررہی ہے۔ایڈوکیٹ اعجاز مقبول کے دلائل کی سماعت کے بعد چیف جسٹس نے جمعیت علماء ہند کو بطور مداخلت کار تسلیم کرلیا۔
اسی درمیان چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی والی تین رکنی بینچ جس میں جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس وی راما سبرامنیم نے سٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس نامی آرگنائزیشن کو ان کی پٹیشن میں ترمیم کرنے کی اجازت دیتے ہوئے معاملے کی سماعت دو ہفتوں کے لیئے ملتوی کردی۔ متذکرہ تنظیم نے پہلے اتر پردیش اور اتر اکھنڈ ریاستوں کی جانب سے بنائے گئے لو جہاد قانون کو چیلنج کیا تھا لیکن آج انہوں نے عدالت کو بتایا کہ مدھیہ پردیش اور ہماچل پردیش ریاستوں نے بھی اسی طرز پر قانون بنایا ہے لہذا وہ ان چاروں ریاستوں کی جانب سے بنائے گئے لو جہاد قانون کو چیلنج کرنا چاہتے ہیں جس کی عدالت نے انہیں اجازت دے دی۔
واضح رہے کہ ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول نے صدر جمعیۃ علماء ہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر جمعیت علماء قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی کی جانب سے مداخلت کار کی پٹیشن داخل کی تھی جس میں  لکھا ہے کہ ”غیر قانونی تبدیلی مذہب مانع آرڈیننس 2020 کو اتر پردیش حکومت نے منظور ی دے دی ہے جبکہ اتر کھنڈ حکومت نے فریڈم آف ریلجن نامی قانون کو منظوری دی ہے ان قوانین کو بنانے کا مقصد ہندو اور مسلمان کے درمیان ہونے والی شادیوں کو روکنا ہے جو آئین ہند میں دی گئی مذہبی آزادی کے خلاف ہے۔
عرض میں مزید لکھا گیاہے کہ ان قوانین کی وجہ سے مذہبی اور ذاتی آزادی پر روک لگانے کی کوشش کی گئی ہے جو غیر آئینی ہے لہذا سپریم کورٹ کو مداخلت کرکے ریاستوں کو ایسے قوانین بنانے سے روکنا چاہئے نیز جن ریاستوں نے ایسے قوانین بنائے ہیں انہیں ختم کردیناچاہئے۔عرضی میں لکھا گیا ہے کہ اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی ادیتیہ ناتھ نے خودا علان کیا ہے کہ وہ لو جہاد کو روکنے کے لیئے غیر قانونی تبدیلی مذہب مانع آرڈیننس 2020 بنایا گیاہے۔