Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, March 11, 2021

سیاست خدمت خلق پر مرکوز ہو نہ کہ اقتدار پر*...


*سیاسی رہنماؤں کے عوام مخالف رویے کو اس وقت تک کمزور نہیں بنایا جا سکتا جب تک کہ عوام خود اپنے مسائل اور مفاد کے متعلق بیدارنہ ہوں*
۔جمال احمد خان اعظمی
اعظم گڑھ،11/مارچ (پریس ریلیز)/ صدائے وقت۔
+++++++++++++++++++++++++++++++++++
سیاست کانصب العین بھٹکے ہوئے انسانوں کی ہدایت اور معاشرہ کی فلاح و بہبود کرناہوتا ہے، سماج میں جنم لینے والی ہر تنظیم لوگوں کے مشکلات کو رفع دفع یا کم ازکم بار گراں کو ہلکا کرنے کی غرض سے وجود میں آتی ہے۔ عام طور سے ماحول کی ابتری سے نجات دلانے کا نعرہ ہی ان کا بنیادی مقصد ہوا کرتاہے۔ ایسی پارٹیاں ہمیں مل جل کر زندگی بسر کرنے کی تدبیریں سمجھانے اور ایک دوسرے کے تئیں ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلانے میں ہمارے پہلو بہ پہلو کھڑی نظر آتی ہیں۔ ان کا اصلی ہدف لوگوں میں انسانیت کی تعمیر کرنا ہوتا ہے۔مگرگذشتہ چند برسوں میں سیاست ذاتی مفاد اور شخصی خواہشات کو پورا کرنے کا ذریعہ بن چکی ہے۔ جس میں آدمی جھوٹے وعدے کرنے، چال بازیاں کرنے، عہد شکنی کرنے،لوگوں کو محض سبز باغ دکھلانے، باہمی نزاع کو ہوا دینے، ذاتی مفادات کی خاطر جرم کا سہارا لینے سے بھی گریز نہیں کررہاہے۔ان خیالات کا اظہار پوروانچل کے معروف سماجی کارکن اور سعد فاؤنڈیشن کے جنرل سکریٹری جمال احمد خان اعظمی نے بمقام لال گنج اعظم گڑھ اتر پردیش میں ہونے والے پنچایت انتخابات کے تناظر میں متعدد پنچایتوں کے عہدیداروں وامیدواروں کے درمیان کیا۔انہوں نے حق رائے دہی کی اہمیت وافادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ سیاسی نظام کو صاف اور شفاف بنائے رکھنے میں عوام ایک اہم اور فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں لیکن جب ایسے سیاست دانوں کو عوام کے ایک طبقے کی حمایت حاصل ہو جاتی ہے تووہ اس حمایت کی بنیاد پر ایسے اقدامات کرنے سے بھی احتراز نہیں کرتے جو ملک کے آئینی اصولوں کے خلاف ہوں۔عوام اپنے قیمتی ووٹوں کے ذریعہ جن سیاست دانوں کو اقتدار تک پہنچاتے ہیں انھیں اپنے مسائل کے متعلق حساس بنائے رکھنے کی ذمہ داری بھی بڑی حد تک انہی عوام کی ہوتی ہے جو انتخابی عمل میں ایک ووٹر کے طور پر شریک ہوتے ہیں۔ ان جیسے لیڈروں کی سیاسی ہٹ دھرمی کو ختم کرنے کیلئے عوام کا اپنے مسائل اور مفاد کے متعلق حساس اور بیدار ہونا ضروری ہے۔ جب تک عوام کے اندر یہ بیداری اور حساسیت نہیں پیدا ہوگی تب تک اقتدار پرست لیڈروں کو ایسے اقدام کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔انہوں نے سیاست کو خدمت خلق کا ذریعہ بنانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اقتدار کی ہوس میں مبتلا سیاست دانوں نے حصول اقتدار کی اپنی خواہش کی تکمیل کی خاطر عوام کے درمیان جس رجحان کو بڑھاوا دیا ہے وہ سیاسی نظام سے عوامی مسائل اور مفاد کے پہلو کو روز بہ روز کمزور کرتا جارہا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس طرز کی سیاست کے دم پر اقتدار حاصل کرنے والے سیاست داں عوام کو ایسے معاملات میں الجھائے رکھنا چاہتے ہیں جو ان کے درمیان نفرت اور تشدد کو فروغ دیتے ہیں۔ انہوں نے ممکنہ امیدواروں کومخاطب کرتے ہوئے پنچایت انتخابات میں ان کی شمولیت کو بامقصد بنانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ یہ انتخابات بظاہر چھوٹے ضرور نظر آتے ہیں مگر یہ ملک کے جمہوریت کی وہ بنیاد ہے جہاں بھارت بستا ہے،امیدواروں کو چائیے کہ اس پنچایتی انتخابات میں ترقی وخوشحالی،مظلوم وکمزوروں کی زبوحالی کے خاتمہ کے عزم کے ساتھ رائے دہندگان سے رابطہ کریں اور نفرت کی سیاست پر بھائی چارہ وخیر سگالی کو ترجیح دیں۔