Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, March 16, 2021

* ذکی احمد:شخصیت اورشاعری__ایک مطالعہ*


از*مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ وجھارکھنڈ* صدائے وقت۔
+++++++++++++++++++++++++++++++++++
ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق مرحوم حاجی پوری کانام وکام علمی دنیا میں محتاج تعارف نہیں ہے، وہ مختلف موضوعات پرلکھتے رہتے تھے، سمیناراور ادبی پروگراموں میں ان کی شرکت ہوتی رہتی تھی۔ ایک بڑی خوبی ان میں یہ تھی کہ کسی بھی سمینار میں خالی ہاتھ نہ جاتے تھے اورنہ آتے تھے۔ خالی ہاتھ نہ جانے کا مطلب تو آپ سمجھتے ہیں کہ بغیر مقالہ کے شریک نہیں ہوتے تھے،رہ گئی خالی ہاتھ نہ آنے کی بات تو اس کامطلب نذرانہ،محنتانہ اوررخصتانہ نہیں ہے، یہ تومولیوں کو بھی اب لوگ نہیں دیتے جو ہمیشہ سے کارِ ثواب سمجھا جاتا رہا ہے، ڈاکٹر مشتاق احمد کوکون دیتا ، میری مراد معلومات سے دامن بھرکرلوٹنے سے ہے۔ان کا بس چلتا  تو سارے مقالے حاصل کرلیتے تھے، نہیں تو اتنی بارفون کرتے اور اتنا خط لکھتے کہ آپ کو دینا ہی ہوتا، جب مقالے حاصل ہوجاتے تو اب ان پر کتاب تیار کرتے ،نہیں ممکن ہوتاتو سارے مقالے کو کسی رسالہ کو بھیج دیتےتاکہ گوشہ ہی آجائے۔ اب جب کتاب چھپ کرآئی ، کسی پرچہ کا گوشہ آیا تو آپ دیکھ کر متحیر ہوتےکہ اچھا! اتنا شاندار کام ہوا، اتنا خوبصورت چھپا، اتنا قیمتی مجموعہ آگیا۔ مشتاق صاحب ہیں کہ سب سے داد وصول کررہے ہیں۔
 میں ان کے نام کے آخری مشتاق پر ہمیشہ غور کرتا رہاہوں کہ آخر اس کاکیا مصرف ہے؟ کبھی دوچار مصرعے توان سے سنے نہیں، کبھی ایسے ہی دیوان بغل میں دبائے آکھڑے ہوتےکہ یہ رہی عمربھر کی کمائی اوریہ رہا دوسرے مشتاق کا کمال، یعنی پہلا مشتاق احمد نثر کا اور دوسرا مشتاق شاعری کا،تو اوربات ہے۔ جب تک ایسا محیرالعقول معاملہ سامنے نہیں آتا،اور اب آبھی نہیں سکتا ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ لوگوں پر جو کچھ وہ لکھتے رہے تھے اور جس طرح کتابیں تیار کرتے تھے، اس کی داد وصول کرنے کے لیے ایک دوسر ا مشتاق بھی تخلص کی شکل میں ساتھ لگارکھا تھا۔
یہ تمہیداس لیے قائم کی گئی ہے تاکہ آپ کوبتائوں کہ ایسے ہی سمیناری مقالوں پر مشتمل ایک سوبار ہ صفحات کا ایک مجموعہ ذکی احمد کی شخصیت اور شاعری پرابھی جلوہ افروزہے،ٹائٹل ، سبحان اللہ، کاغذ وطباعت ماشاء اللہ اورمواد الحمدللہ، آنکھیں چمک اٹھتی ہیں ، دل میں دیکھ کر فرحت و سرور کی لہر اٹھتی ہے اور دماغ شاد کام ہوتاہے۔ 
ڈاکٹر مشتاق احمدنے اس کتاب میں ذکی احمدکی شخصیت اور شاعری پر ڈاکٹر ممتازا حمد خاں،مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی، انوارالحسن وسطوی،سید مصباح الدین احمد، مشتاق شمسی، عبدالرافع، ارشد ترابی، ڈاکٹر شکیل احمد خاں ، عارف حسن وسطوی، کے مقالے جمع کیے ہیں ، ناصرزیدی ، واحد نظیر، عبدالغفور شمس کا منظوم کلام بھی شامل کتاب ہے۔پروفیسر ثوبان فاروقی نے حسب روایت مختصر مگر جامع لکھا ہے۔ نذرالاسلام نے ’’اس کتاب کے بارے میں‘‘ جو کچھ لکھا ہے وہ وقیع بھی ہے اورقیمتی بھی، ان کوپڑھتے وقت مجھے بہت غصہ آتاہے، کہ انھوں نے لکھنا اور چھپنا کیوں بند کردیاہے؟ فکر معاش کے ساتھ وہ یہ کام بھی کرتے رہتے تو ہمارے ادبی سرمایہ میں قیمتی اضافہ ہوتا، ان کے اس سرمایہ پر ہم سب کا حق ہے اورانھیں چاہئے کہ ہمارا حق ہمیں دیں، ہم تو شریف مولوی ٹھہرے، بعض لوگ حق چھیننے پر بھی یقین رکھتے ہیں اورتحریریں جبرواکراہ کے ساتھ بھی وجود میںآتی رہتی ہیں، برضا ورغبت کی اس میں قید نہیں ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ نظمی کا قلم اس کتاب پرلکھتے وقت خوب چلا ہے، اندرکی بات مشتاق صاحب ہی بتاتےکہ یہ برضا ورغبت ہے یا بالجبر واکراہ۔
کتاب پرلکھتے وقت نظمی کی جو کیفیت رہی ہو، صحیح اور سچی بات یہ ہے کہ ذکی احمد ہم سب کی پسند ہیں،ان کی شخصیت میں جو سادگی اورجاذبیت ہے، ان کی شاعری میں جو خلوص اورسنجیدگی ہے وہ اہل قلم سے خراج تحسین وصول کرلیتی ہے، ذکی صاحب نے ہر طبقہ کے لیے لکھا ہے، ان کا اپنا مرثیہ ہو،یابچوں کی نظموں کا مجموعہ جھولا، سیل رواں ہو یامیٹھے گیت،ان کی غزلیں ہوں یانظمیں، ان میں ہیئت کی پاسداری ، روایت کا رکھ رکھاؤ ، رچا بسا ہوا ہے۔ پروفیسر ثوبان فاروقی نے بجالکھاہے:
’’ذکی احمد شاعری کے حوالے سے کسی نوع کی بے جا آزادی کے قائل نہیں، ان کی شاعری جدیدیت کے منفی اثرات سے بڑی حد تک گریزاں ہے، ان کی پابند نظمیں ان کے کلاسیکی رجحان کی غماز ہیں، مثنوی کی ہیئت میں ان کا مرثیہ جوان کے نجی حالات اور واقعات پر مشتمل ہے، اسے بجا طور پر جدید اردوشاعری کاایک شاہکار کہنا چاہئے‘‘۔ ان کی غزلیں ان کے لطیف احساسات وجذبات کی مدھم مگر مدھر سرگوشیاں ہیں‘‘۔(حرف اول صفحہ۴)
اس کتاب میں ڈاکٹر ممتاز احمد خاں کے تین مقالے’’ذکی احمد کی غزل گوئی‘‘ ذکی احمد کی تخلیق _ اپنا مرثیہ‘‘ ایک جائزہ ‘‘جھولا _ایک تبصرہ ایک تعارف ‘‘ شامل ہے۔ جس میں ڈاکٹر ممتازاحمد خاں نے ذکی احمد کی غزل گوئی ، اپنا مرثیہ اورجھولا پرتفصیلی بحث کی ہے۔ ان کی رائے  میں: 
’’ذکی احمد کی غزل میں دھیمے دھیمے پگھلنے کی ایک کیفیت بھی ملتی ہے، حزن کی ایک ہلکی سی رو، ان کی غزل کی رگوںمیں دوڑتی ہے، ان کا لہجہ مدھم اوران کی آواز شکستہ وخستہ معلوم ہوتی ہے‘‘۔
ڈاکٹر ممتاز احمد خاں کم لوگوں کومعلوم ہے کہ ہمدرد ہیں، یہ ہمدرد ،ہمدردی والا نہیں، تخلص والا ہے۔اس تخلص نے ان کی زندگی میں ہمدردی کوبھی داخل کردیا ہے،عموماً ادیبوں کے ساتھ ان کی ہمدردی ایک ہی بار ہوتی ہے، ایک ہی شخص پرباربار لکھنا وہ پسند نہیں کرتے، لیکن ذکی احمد کی موزونیت، قادرالکلامی اورسادگی ایسی بھائی کہ تین تین مقالہ لکھ دیا، ذکی احمد کی سادگی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یہ سادگی زبان کی بھی ہے اور فکر وخیال کی بھی، بحور،لفظیات ،پیرایہ ہائے اظہار ہر اعتبار سے ان کی غزلیں سادگی کی حامل ہیں، پیچیدہ بیانی،مشکل پسندی ان کی غزل میں کہیں نظر نہیں آتی ۔ذکی احمد لطیف اور مشکل مضمون کوبھی سادہ انداز میں سوچتے اور پیش کرتے ہیں، مگر ان کی سادگی، پھیکی، بے رس اور بے مزہ نہیں ہوتی، بلکہ تازہ شگفتہ، حسین و دلنشیں ہوتی ہے۔ ‘‘(ذکی احمد کی غزل گوئی صفحہ۱۱)
ذکی احمد کی شاہکار تخلیق ’’اپنا مرثیہ‘‘ پر اس مجموعہ میں چار مقالات شامل ہیں۔ ایک ڈاکٹر ممتاز احمدخاں کادوسرا محمد ثناء الہدیٰ قاسمی، تیسرا سید مصباح الدین احمد اور چوتھا ارشد ترابی کا، ڈاکٹرممتاز احمدخاں نے اس کی بڑی خوبصورتی اور خصوصیت کاذکرکرتے ہوئے لکھاہے کہ:
’’اس میں شاعر کی ذاتی زندگی کے واقعات کے ساتھ آج کے مسلم معاشرے کی اخلاقی،معاشرتی اورتمدنی زندگی کے بے شمار جلوے بڑی بے ساختگی سے جمالیاتی کیفیتوں اور شعری لطافتوں کے ساتھ محفوظ ہوگئے ہیں۔ عصری حسیت کاایسا سادہ اور نادروبدیع نمونہ، جدید ادب میں شاید بہت تلاش کے بعد بھی نہ ملے‘‘۔ 
(ذکی احمد کی تخلیق ’اپنامرثیہ‘ پر ایک جائزہ صفحہ۵)
حالاں کہ غزلوں کے حوالہ سے ڈاکٹر صاحب کی رائے ہے کہ:
’’ان کی غزل میں سیاسی موضوعات ومعنویت کی تلاش بے سود ہوگی اور ان میں عصری حسیت کا سراغ لگانا کوشش فضول ثابت ہوگا‘‘(ذکی احمد کی غزل گوئی صفحہ۱۰)
ثناء الہدیٰ قاسمی نے اپنے تفصیلی مقالہ میں’’اپنامرثیہ‘‘ کے فکر وفن، ندرت خیال اورٹائٹل کے دروبست اور مندرجات کا جائزہ لیاہے اور لکھا ہے کہ:
’’اپنا مرثیہ فنی طور پر مثنوی اورفکری طور پر مرثیہ ہے،اپنابھی اور قوم وملت کابھی‘‘۔
سید مصباح الدین احمد نے ’’اپنا مرثیہ‘‘ کو ایک قلب تپاں کی آواز قراردیاہے۔ لکھتے ہیں:
’’ذکی احمد کی یہ تخلیق وقتی جذبے یا شاعرانہ رنگ کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک بالغ نظر فنکار، ایک حساس اوردرد مند شاعر کے قلب تپاں کی آواز ہے‘‘۔ (صفحہ ۵۲)
ارشد ترابی نے’’ اپنا مرثیہ‘‘ کو ان کی بالغ نظری اورپختہ سیاسی شعور کا آئینہ دار قراردیا ہے۔لکھتے ہیں:
’’چھوٹی بحر میں یہ اشعار ان کی بالغ نظری اورپختہ سیاسی شعور کے آئینہ دار ہیں جن سے قنوطیت کے بدلے حرکت وعمل کا درس ملتاہے‘‘۔(صفحہ ۶۷)
’’جھولا‘‘ ایک تبصرہ ایک تعارف میں ڈاکٹر ممتازاحمدخاں نے ہمیںبتایاہے کہ:
’’ یہ نظمیں نرسری کے بچوں کے لیے نہیں بلکہ کچھ ہوش مند بچوں کے لیے ہیں۔ اس لیے اس میں شاعر سے اعلیٰ شعری تخلیق اورفلسفے کی توقع نہیں کی جانی چاہئے، یہاں علامتوں،اشاروں،کنایوں، ابہام ، استعاروں کی گنجائش نہیں ہوتی،اس کے باوجود یہ نظمیں، جس مقصد کے تحت لکھی گئی ہیں، اس میں یہ بے حد کامیاب ہیں، زبان کی چاشنی ،دل کی منظر نگاری، دلنشیں نصیحت یہ سب چیزیں اس طرح آپس میں شیر وشکر ہوگئی ہیں کہ ان کو الگ الگ کرکے دکھانا مشکل ہے‘‘۔(صفحہ ۸۲)
مجموعی طورپر ڈاکٹر صاحب کی رائے ہے کہ:
’’ذکی احمد کی شاعری لفظوں کی بازی گری ،اوزان وبحور اورہئیتوں کے نت نئے تجربوں کی شاعری نہیں ہے،وہ روایتی ہئیتوں اور سانچوں میںبڑی سادگی اورسہولت سے اپنے احساسات وتاثرات کی ترجمانی کرلیتے ہیں ، ہندی الفاظ کے برمحل استعمال سے ان کاکلام اور ہنس مکھ ہوجاتا ہے‘‘۔(صفحہ ۸۰)
ڈاکٹر صاحب کے مقالوں پر تبصرہ کچھ طویل ہوگیاہے، کیاکیجئے گا؟ بعض لوگوں پر لکھنے بیٹھئے تو ’’چل مرے خامے بسم اللہ‘‘ کہئے اورقلم جوچلتا ہے تورکتا ہی نہیں، میں نے بھی اسے آزاد چھوڑدیا، اس لیے بھی کہ ہم عصروں میں ڈاکٹر مشتاق کاامتیاز ،ممتاز کی بے پناہ توجہ کا رہین منت ہے۔ اس زاویہ سے سوچئے تو یہ حق تھاکہ ان کے مقالوں پر گفتگو طویل ہو۔
آگے بڑھئے، ایک اور مقالہ نگار کا ذکر کرتے ہیں اوروہ ہیں انوارالحسن وسطوی ’’آشیانہ‘‘ میں ’’گھر‘‘ بنارکھاہے۔انجمن ترقی اردو کے جنرل سکریٹری ہیں،لکھتے بھی ہیں اور چھپتے بھی ہیں، کسی مہینے میں تحریر نظر سے نہ گزرے تواندیشہ ہونے لگتاہے کہ مزاج دشمناں ناساز تونہیں، ممتاز ومشتاق کے ساتھ جب تک ان کا نام نہ لیاجائے ، مثلث بنتا ہی نہیں، اب مثلث کون سمجھتا ہے، چلئے تربھج سمجھئے، اردو آبادی میں بھی اب مثلث ، مربع، مساوی الاضلاع جیسی اصطلاحیں اجنبی ہوگئی ہیں۔ اسی لیے مثلث کو تربھج سمجھانا پڑتاہے۔ کس کوکہئے اورکس کاماتم کیجئے۔ 
بہر کیف! بات چل پڑی ہے انوار الحسن وسطوی کی ،ان کے دومقالے ’’ذکی احمد__ ایک تعارف ایک تاثر‘‘ اور’’بچوں کا شاعر__ذکی احمد‘‘ اس مجموعے میں شامل ہیں۔ دیگر مقالہ نگاروں نے شاعری پربہت کچھ لکھ ڈالا تھا شخصیت پر گفتگو کم ہوئی تھی، اس لیے یہ مقالہ اگر شامل کتاب نہ ہوتا توذکی احمد کی حیاتی تقویم کی کمی کھٹکتی اورشخصیت کاگوشہ تشنہ رہ جاتا، انوار الحسن وسطوی نے اس مقالہ میںان کی خاندانی وجاہت ، علمی پس منظر اور دیگر مشغولیات کا تفصیل سے ذکر کیاہے ۔اوربجا لکھا ہے کہ:
’’ان بزرگوں کی صحبت نے ذکی احمد کی شخصیت کوجلابخشی،دینی، علمی اور ادبی ماحول میں پرورش پانے کی وجہ سے وہ شریف النفس سنجیدہ اور مثالی انسان بن سکے‘‘۔ (صفحہ ۳۷)
بچوں کا شاعر ذکی احمدمیں انوارالحسن نے ان کی شاعری کے مختلف ادوار پر روشنی ڈالی ہے اوربچوں کے لیے ان کی جو شاعری ہے اس کابھرپور جائزہ لیاہے ، انھوں نے عبدالقوی دسنوی کے حوالہ سے ہمیں یہ بتایاہے کہ بچوں پرلکھناکتنا دشوار ہے۔ موضوعات کے تنوع کے باوجود بچوںکے لیے جو شاعری ذکی احمد نے کی ہے اس کاامتیاز انوارالحسن وسطوی صاحب کی نظرمیں یہ ہے کہ:
’’تمام نظموں میں بچوں کو پند ونصیحت کی ہے،کہیں اخلاقی در س ہے تو کہیں عمل کی ترغیب، کہیں حصول علم کی تلقین ہے تو کہیں علم حاصل نہ کرنے کے نقصانات کابیان‘‘۔ (صفحہ ۴۳)
انوارالحسن صاحب نے انھیں اسمٰعیل میرٹھی اور شفیع الدین نیر کی طرح بچوں کا شاعر تو نہیں ماناہے ،البتہ انھیں دوسرے بڑے شاعروں کے ساتھ ادب اطفال میںجگہ دی ہے۔ لکھتے ہیں:
’’ادب اطفال میںان کی جو تخلیقات ہیں ان کی بناء پر نظیرؔاکبرآبادی، محمد حسین آزادؔ، الطاف حسین حالیؔ ،افسرؔ میرٹھی،حفیظؔ جالندھری،علامہ اقبالؔ، احمد ندیمؔقاسمی، اسلمؔ جیراجپوری ، جگن ناتھ آزادؔ، سراج انور اورعلقمہ شبلی جیسے شاعروں کی صف میںضرور شامل کیاجاسکتاہے‘‘۔(صفحہ ۴۷)
لیکن جناب عبدالرافع صاحب کی رائے ہے :
’’بچوں کے شاعر کی حیثیت سے اسماعیل میرٹھی اورشفیع الدین نیر کے بعد اگر اعتماد کے ساتھ کسی شاعر کانام لیاجاسکتاہے تو وہ ذکی صاحب ہی ہوسکتے ہیں۔ بچوں کی نظموں کے لیے موضوع کاانتخاب اورپھر ان کاانداز بیان، اپنی مثال آپ ہے۔ ان کی نظموں میںطنز بھی ہے۔ مزاح بھی ہے، پندونصائح بھی ہیں، اخلاق وکردار سازی بھی ہے‘‘۔( سیل رواں ۔ایک مطالعہ ،صفحہ ۵۶)
عبدالرافع صاحب نے ذکی احمدکی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھاہے:
’’وہ ایک اچھے استاذ بھی ہیں، ایک قادر الکلام شاعر بھی ہیں اور سب سے بڑھ کریہ کہ ایک نہایت ہی اچھے انسان ہیں، مخلص، ملنسار، بااخلاق ، نرم خو اور نرم گو، بے حد پاک طینت ‘‘۔ (صفحہ۵۳)
دوسرے مقالہ نگاروں کی طرح عبدالرافع صاحب نے بھی سادگی، بے ساختگی ، پرکاری، شدت جذبات کااظہار اورموضوع کے انتخاب کوان کی شاعری کی خصوصیات قراردیاہے اورلکھا ہے :
’’ذکی صاحب کی شاعری میں مطالعہ بھی ہے،مشاہدہ بھی ہے، فکر بھی ہے اور تدبر بھی ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ انفرادیت بھی ہے‘‘۔(صفحہ ۵۶)
مشتاق شمسی نے ذکی احمد کوبے نیاز شاعر قرار دیاہے،جنھیں نہ صلے کی تمنا ہے اور نہ ستائش کی خواہش، وہ ان چیزوں سے بے نیاز ہیں، ان کے اشعار کی شگفتگی اصل ہے، حالاں کہ وہ پوری زندگی غم دوران اور غم جاناں کے شکا ررہے ہیں،مشتاق شمسی نے دوسرے کئی مقالہ نگارں کی طرح ان کی نثر نگاری پربھی اپنی رائے دی ہے اورخوب دی ہے۔لکھتے ہیں:
’’ذکی احمد صرف شاعر ہی نہیں بلکہ منفرد انداز کے نثرنگار بھی ہیں اگرچہ اردومیں انھوں نے کم لکھاہے؛ لیکن جوکچھ لکھا ہے وہ جامع ہے اور چند صفحات کی تحریر طولانی تحریروں پربھاری ہے، اس میں خلوص ، سچائی ،شگفتگی اورروانی ایسی ہے کہ پڑھتے وقت قاری اپنا سب کچھ بھول جاتا ہے، مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی، مشتاق احمد نوری ، شفیع جاوید،پروفیسر نجم الہدیٰ وغیرہ ذکی احمد کی نثر کے بے حد معترف ہیں‘‘۔
پیش لفظ کوبھی مضمون مان لیجئے توڈاکٹرمشتاق احمد مشتاق کے دومضامین اس مجموعہ کی زینت ہیں، پیش لفظ میں انھوںنے عرض حال کیاہے،تاکہ ہم پرشش احوال سے بچ جائیں، اور ذکی احمد شخصیت کے چند گوشے میں انھوں نے ذکی صاحب کی شخصیت کے بعض اہم گوشوں پرروشنی ڈالی ہے اوران کی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کتابوں سے بھی روشناس کرایاہے، انھوںنے ہمیں برمحل یہ مشورہ بھی دیاہے :
’’ہم لوگوں کو اپنے ادباء وشعراء کااحترام کرناچاہئے اورانھیں صحیح مقام دینا چاہئے‘‘ (صفحہ ۷۸)
مشتاق صاحب نے یہ مشورہ ہی نہیں دیاہے بلکہ اس ڈگر پر چل کر سمت سفر کی تعین بھی کی ہے۔ اس بناپر کہاجاسکتاہے کہ وہ قول وعمل کے تضاد کے نہ قائل ہیںاورنہ شکار۔آج کے اس دور میں یہ بڑی بات ہے۔
ڈاکٹر شکیل احمد خاں لکچرر شعبہ اردو سبھاش چندر بوس میٹنری کالج لال باغ مرشد آباد نے ذکی احمد کی نظم نگاری کو اپنا موضوع سخن بنایاہے۔ انھوںنے ان کی شاعری کوچار ادوار میں تقسیم کیاہے۔انھوں نے پہلے دور میں جو ۱۹۰۹ء سے شروع ہوتاہے غزلوں کی کثرت اورچند نظموں کا تذکرہ کیاہے ، دوسرا دور ۱۹۶۱ء سے ۱۹۶۵ء تک ہے جس میں مناظر قدرت اورذاتی تجربات کوانھوں نے اشعار میں ڈھالا ہے ۔تیسرا دور ۱۹۶۶ء سے ۱۹۷۵ء کا ہے جب بچوں کے لیے نت نئی ہندی اردو میں انھوں نے نظمیں لکھیں۔ چوتھادور ۱۹۷۶ء سے تاحال ہے، جس میں مختلف موضوعات پر انھوں نے نظمیں لکھی ہیں، جن میں ذہنی بالیدگی اور فنی پختگی ہے۔ شکیل احمد خاں نے نظم کے حوالہ سے جذبات نگاری، منظرنگاری وغیرہ پربھی بحث کی ہے۔
اس مجموعہ کاآخر ی مضمون ’’ذکی احمد ادبیوں کی نظرمیں‘‘ ہے،ا ن میں نادم بلخی، پروفیسر نجم الہدیٰ، حسن امام درد، ڈاکٹررئیس انور، عبدالمنان طرزی، عفت موہانی، مشتاق احمد نوری، کلدیپ گوہر، ڈاکٹر نجیب اختر، ڈاکٹرریحان غنی اور واحدنظیر کے آراء شامل کیے گئے ہیں۔ مجموعہ میں جن حضرات کے مقالے ہیں، ان کی آراء شاید تکرار کے نقطۂ نظر سے شامل نہیں کی گئی ہیں۔ اگر ا ن کوبھی شامل کرلیاجاتا تو یہ جامع مقالہ ہوجاتاکیوںکہ ہر مقالہ غزل کے شعر کی طرح ایک اکائی ہوتاہے، اور اس اکائی کوجامع ہونا چاہئے۔ اس مجموعہ سے نکال کر اس مقالہ کودیکھیں تو تشنگی کااحساس ہوگا۔
مجموعہ میں ناصر زیدی کا منظوم خط بہ نام ذکی احمدشامل ہے۔ جواصلاً ’’اپنا مرثیہ‘‘ ملنے کی رسید ہے۔ جس میںاپنا مرثیہ بھیجنے اوریادآوری کا شکریہ اداکیا گیاہے۔ واحد نظیر نے ۲۳؍اپریل ۱۹۹۵ء کوالوداعیہ کے موقع سے عقیدت کے جو پھول کھلائے تھے، اس کوبھی شامل کتاب کرلیاگیاہے۔ واحد نظیر نے ذکی احمد کومیل کا وہ پتھر قراردیاہے جس سے منزل کا نشان ملتاہے۔
جس سے منزل کا نشاں ہم پائیں گے
اے ذکی وہ میل کا پتھر ہے تو
پروفیسر عبدالغفور شمس کے ندرانۂ خلوص پریہ کتاب ختم ہوتی ہے۔ یہ نذرانہ خلوص ۱۶؍اپریل ۱۹۹۵ء کو مدرسہ فردوس العلوم لعل گنج ویشالی کے الوداعیہ میں پیش کیا گیاتھا۔ عبدالغفور شمس بقامت کہتر اوربہ قیمت بہتر کے صحیح مصداق ہیں اردو ،فارسی، عربی زبان وادب پر ان کی گہری نظر ہے اور اچھی شاعری کرتے ہیں، نذرانۂ خلوص کے یہ چند اشعار دیکھئے اورمجھے اجازت دیجئے۔
یہ علاقہ تیرے خونِ دل سے لالہ زار ہے
اب کہاں آئے گا کوئی تجھ سا دیوانہ ذکی
علم و فن کا یہ چمن تھا تیرے دم سے پُربہار
تو تھا اک روشن دیا اور ہم تھے پروانہ ذکی
ہم نہ بھولے ہیں نہ بھولیں گے کبھی صحبت تری
یاد آئیں گے ہمیں بے اختیارانہ ذکی
مدرسہ، اسکول، یہ غربت کدے اور یہ ڈگر
دم بخود ہیں آج کھوکر تجھ سا مستانہ ذکی
ہادیٔ دیں، مرثیہ ، جھولا وہ تصویرِ بتاں
نغمات خواند شبان عندلیبانہ ذکی
تو رہے چاہے جہاں بھی شادکام زندگی
گرددت ہر روز افزوں شان جانانہ ذکی