Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, March 4, 2021

آل انڈیایونانی طبی کانگریس بہار کے زیر اہتمام شاعرمشرق علامہ اقبال کے یوم ولادت کے موقع پر ایک ‏پر ‏وقار ‏تقریب ‏کا ‏انعقاد۔

پھلواری شریف /صدائے وقت /  (پریس ریلیز).
+++++++++++++++++++++++++++++++++++
آل انڈیایونانی طبی کانگریس بہار کے زیر اہتمام شاعرمشرق علامہ اقبال کے یوم ولادت کے موقع پر ایک سادہ لیکن پروقار تقریب معروف صحافی جناب خورشید انوار عارفی کی صدارت میں ڈاکتر فضل اللہ قادری کے دولت خانہ پر منعقد ہوئی۔علامہ اقبال کا یوم ولادت پوری دنیا میں عالمی یوم اردو کے طور پر منایا جاتا ہے،چنانچہ اسی مناسبت سے اس تقریب کو بھی اردو کے مسائل اوراس کے حل کے عنوان سے معنون کیا گیا تھا۔اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مہمان خصوصی جناب مشتاق احمد نوری نے کہاکہ اردو کو درپیش مسائل کے ذمہ دار ہم اردو خواں خود ہیں،عام طور پر ہمارا یہ وطیرہ رہا ہے کہ ہم سارا الزام حکومت کے سر دھر دیتے ہیں،اورپھر اردو کی کسم پرسی کا رونا روتے ہیں۔حالانکہ غور کیا جائے تو اردو داں طبقہ ہی اردو کی ترقی کی راہ کا روڑہ ہے۔ہمارے بچے اردو کے حروف تہجی تک سے واقف نہیں ہیں،اگر ہم اپنے گھروں میں اردو کو رواج دیں اوراپنے بچوں کو لازمی طور پر اردو کی تعلیم دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اردو زبان مٹ جائے۔ہماری شناخت اور تہذیب وثقافت کی بنیاد اردو زبان پر ہے،جس دن یہ زبان مٹ گئی،ہم تباہ ہوجائیں گے۔جب کہ مشہور صحافی ڈاکٹر ریحان غنی نے شاعر مشرق علامہ اقبال کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاکہ اقبال تمام مکاتب فکر اورمذاہب کے شاعر تھے اورانہیں ہر طبقہ میں قبول عام حاصل ہوا۔
جناب ڈاکٹر فضل اللہ قادری نے اپنے خطاب میں کہاکہ اردو زبان وادب کی موجودہ صورت حال سے ہر شخص واقف ہے،اردو زبان کی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ اردو ایک لشکری زبان ہے اوراس نظریہ کو اردوداں حضرات اوراردوآباددی نے غیر شعوری طور پر قبول بھی کرلیا تھا،جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔لشکری کا تصورہی ایک غلط مفہوم کو جنم دیتا ہے۔جناب شمس الرحمن فاروقی تحریر کرتے ہیں کہ:”لوٹ مار،تاخت وتاراج وغیرہ،وہ تصورات اردو زبان کے ساتھ بھی کہیں نہ کہیں اورکسی نہ کسی طرح منسلک ہوگئی ہے،اردو زبان کے معنی لشکر ہیں اورلشکر کے ساتھ جو تصورات وابستہ ہیں“۔جن کا حقیقت سے کوئی لاحقہ نہیں ہے،اس تعریف نے متعصب حضرات کو ایک موقع فراہم کردیا کہ یہ زبان غیر ملکی ہے۔ایک اور وجہ یہ ہے کہ چوں کہ غیر ملکی لشکر زیادہ تر عربی فارسی بولنے والے مسلمان تھے،لہذا فسطائی ذہنوں نے اس سے یہ اخذ کرلیا کہ یہ زبان اصلاً مسلمانوں کی ہے،جوکہ غیر ملک سے ہندوستان آئے ہیں۔پرواز فکر وخیال کی داد دیجئے کہ ایک غیر منطقی اورغیر حقیقی بات کو بنیاد بناکر ایک زبان کو مسلمان بنادیا۔کیا زبانیں بھی مذہبی ہوگئیں؟اوراس فکر نے اس قدرجڑ پکڑلی،جو اب ایک تناور درخت کی شکل میں تبدیل ہوچکا ہے۔غضب بالائے غضب یہ ہے کہ یہ تعصب وتنگ نظری سرچڑھ کر بول رہی ہے۔۹۱/ویں صدی کے آخری دور میں یہ خیال زور وشور سے پھیلایابھی گیا،اس کے غیر ملکی ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی دیا جارہاہے کہ اس کا رسم الخط غیر ملکی ہے؛کیوں کہ یہاں کی تمام زبانیں بائیں جانب سے لکھی جاتی ہیں اوریہ داہنیں جانب سے،لہذا یہ زبان غیر ملکی ہے۔ان تعصبات اورکج فہمی نے زبان کو بہت نقصان پہنچایاہے۔
صدارتی خطاب میں جناب خورشید انوار عارفی نے کہاکہ اقبال میرا شاعر اورمیرا ہیرو ہے۔انہوں نے اردو کے مسائل پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ توقع تھی کہ ملک کی آزادی کے ساتھ اردو زبان بھی آزاد فضا میں ترقی کی راہیں طے کریں گی،لیکن افسوس کہ متعصب حکومتوں نے اردو کو ایک خاص طبقہ کی زبان بناکر اس کے ساتھ سوتیلا سلوک کیا۔انہوں نے مزید کہاکہ اردو خالص ہندوستانی زبان ہے۔اسے کسی مذہب کے ماننے والوں سے جوڑنا تاریخی حقائق کا انکار اورمنافرت پر مبنی ہے۔
تقریب کی نظامت کرتے ہوئے آل انڈیا ملی کونسل کے کارگزار جنرل سکریٹری مولانا محمد نافع عارفی نے اپنی تمہیدی گفتگو میں کہاکہ اقبال حقیقی معنوں مین عظیم اسلامی مفکر تھے۔ان کا نظریہ قرآن کریم کے مطاللعہ پر مبنی تھا،یہی وجہ ہے کہ جب اقبال نے اپنا رشتہ قرآن کریم سے استوار کیا تو ان کی فکر میں انقلاب برپا ہوا۔وہی اقبال جو اپنے وطنیت کے پرزور حامی تھے،انہوں نے بعد کو وطنیت کے صنم کدوں پر کاری ضرب لگائی۔اس تقریب کا آغاز مولانا ریاض الدین قاسمی کی تلاوت کلام سے ہوا،جب کہ نعتیہ اشعار جناب اثر فریدی نے پیش کیا۔اس تقریب میں شریک جناب شفیع واجدپوری،جناب میر سجاد،مولانا ریاض الدین قاسمی اوراثر فریدینے اپنی نظموں سے سامعین کو محظوظ کیا۔مشہور شاعر جناب قوس صدیقی بھی،مولانا رضاء اللہ قاسمی وغیرہ بھی رونق بزم تھے۔