Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, March 9, 2021

موجودہ دور میں جہیز کی لعنت ۔

                            تحریر
شمشیر عالم مظاہری۔دربھنگوی۔  امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی ۔ بہار۔۔
                            صدائے وقت۔
+++++++++++++++++++++++++++++++++++
انسانوں کے باہمی تعلقات میں ازدواجی تعلق کی جو خاص نوعیت اور اہمیت ہے اور اس سے جو عظیم مصالح اور منافع وابستہ ہیں وہ کسی وضاحت کے محتاج نہیں نیز زندگی کا سکون اور قلب کا اطمینان بڑی حد تک اسی کی خوشگواری اور باہمی الفت و اعتماد پر موقوف ہے پھر جیسا کہ ظاہر ہے اس کا خاص مقصد یہ ہے کہ فریقین کو پاکیزگی کے ساتھ زندگی کی وہ مسرتیں اور راحتیں نصیب ہوں جو اس تعلق ہی سے حاصل ہو سکتی ہیں اور آدمی آوارگی اور پراگندگی سے محفوظ رہ کر زندگی کے فرائض ووظائف ادا کرسکے اور نسل انسانی کا وہ تسلسل بھی انسانی عظمت اور شرف کے ساتھ جاری رہے جو اس دنیا کے خالق کی مشیت ہے اور ظاہر ہے کہ یہ مقصد بھی اسی صورت میں بہتر طریقے سے پورے ہو سکتے ہیں جب کہ فریقین میں زیادہ سے زیادہ محبت و یگانگت اور تعلق میں زیادہ سے زیادہ خوشگواری ہو ۔
رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے میاں بیوی کے باہمی حقوق اور ذمہ داریوں کے بارے میں جو ہدایات دی ہیں ان کا خاص مقصد یہی ہے کہ یہ تعلق فریقین کے لیے زیادہ سے زیادہ خوشگوار اور مسرت و راحت کا باعث ہو دل جڑے رہیں اور وہ مقاصد جن کے لیے یہ تعلق قائم کیا جاتا ہے بہتر طریقے سے پورے ہوں ۔اس باب میں نبی اکرم صلی اللہ وسلم کی تعلیم و ہدایت کا خلاصہ یہ ہے کہ بیوی کو چاہیے کہ وہ اپنے شوہر کو اپنے لئے سب سے بالاتر سمجھے  اس کی وفادار اور فرماں بردار رہے اس کی خیر خواہی اور رضا جوئی میں کمی نہ کرے اپنی  دنیا و آخرت کی بھلائی اس کی خوشی سے وابستہ سمجھے۔ اور شوہر کو چاہیے کہ وہ بیوی کو اللہ کی عطا کی ہوئی نعمت سمجھے اس کی قدر اور اس سے محبت کرے اگر اس سے غلطی ہو جائے تو چشم پوشی کرے صبروتحمل و دانش مندی سے اس کی اصلاح کی کوشش کرے اپنی استطاعت کی حد تک اس کی ضروریات اچھی طرح پوری کرے اس کی راحت رسانی اور دل جوئی کی کوشش کرے۔مرد عورت کے نکاح میں شرعی طور پر صرف ایک ہی چیز ضروری اور لازم ہے اور وہ مرد کی طرف سے عورت کا مہر اور شادی کے بعد اس کے ضروری مصارف اور اس کی رہائش کا انتظام اس کے علاوہ کوئی عوض کوئی نقد رقم یا سامان نہ لڑکے کی طرف سے ہے نہ لڑکی اور اس کے سرپرستوں کی طرف سے اگر دونوں میں سے کسی طرف سے اس کا مطالبہ ہو تو المعروف کالمشروط کے طور پر اس کا رواج پڑ جائے تو شرعاً یہ رشوت ہے جو ہر حال میں حرام اور ناجائز ہے ۔
جہیز ، ان تحائف اور سامان کا نام ہے جو والدین اپنی بچی کو رخصت کرتے ہوئے دیتے ہیں یہ رحمت و محبت کی علامت تھی بشرطیکہ نمود و نمائش سے پاک ہو اور والدین کے لئے کسی پریشانی و اذیت کا باعث نہ بنتا ہو لیکن مسلمانوں کی شامت اعمال نے اس رحمت کو زحمت بنا دیا ہے اب لڑکے والے بڑی ڈھٹائی سے یہ دیکھتے ہی نہیں بلکہ پوچھے بھی ہیں کہ جہیز کتنا ملے گا؟  ورنہ ہم رشتہ نہیں لیں گے اسی معاشرتی بگاڑ کا نتیجہ ہے کہ غریب والدین کے لئے بچیوں کا عقد کرنا وبال جان بن گیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادیوں کو جہیز دیا تھا لیکن کسی سیرت کی کتاب میں یہ پڑھ لیجئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چہیتی بیٹی خاتونِ جنت حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کو کیا جہیز دیا تھا؟ دو چکیاں،  پانی کے لیے دو مشکیزے،  چمڑے کا گدا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی، ایک تکیہ جس میں اذخر گھاس بھری ہوئی تھی، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے حضور صلی علیہ وسلم نے ان چیزوں کا انتظام حضرت علی کے سرپرست ہونے کی حیثیت سے انہیں کی طرف سے اور انہیں کے پیسوں سے کیا تھا کیونکہ یہ ضروری چیزیں ہیں جو ان کے گھر میں نہیں تھی اور زرقانی شرح مواہب میں اس سے زیادہ وضاحت موجود ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو دیئے ہوئے سامان کے بارے میں حقیقت حال یہ ہے کہ یہ سامان علی رضی اللہ تعالی عنہ کی زرہ فروخت کر کے مہیا کیا گیا۔
جہیز میں جو سامان دیا جاتا ہے وہ ماں باپ اپنی بیٹی کو اپنی مرضی اور خوشی سے دیتے ہیں اس میں کسی کو کسی قسم کے دخل دینے کا کوئی حق نہیں اور وہ سارا سامان لڑکی کی حقیقی ملکیت ہوتا ہے اور اس کو یہ بھی پورا پورا حق ہے جسے چاہے استعمال کی اجازت دے اور جسے چاہے اجازت نہ دے۔ نیز یہ بات بھی دنیا جانتی ہے کہ کوئی بھی مرد اپنی بیوی کے مال سے مالدار نہیں ہوتا اور نہ ہی بیوی کے مال سے دولت کی عزت ملتی ہے اور نہ ہی مال والی بیوی کے پاس کسی شوہر کو شوہر جیسی فوقیت کی عزت ملتی ہے بلکہ ہر وقت بیوی کے سامنے سر نیچے رکھنا ہوتا ہے بالآخر شوہر کو بیوی کے سامنے ذلت و رسوائی کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے علاوہ اور کوئی چیز ہاتھ نہیں آتی۔جب حالات ایسے ہیں تو پھر لڑکی والوں کے مال کے لالچ میں ان پر دباؤ ڈالنے والا کس قدر گھٹیا شخص ہو گا ہر شخص خود اندازہ لگائے اس لیے جہیز کے سامان پر دباؤ ڈالنا گھٹیا پن اور بعد کی زندگی کے لیۓ باعثِ لعنت ہے۔ بعض لوگ بیوی کے مال کے لالچ میں اس قدر گھٹیا بن جاتے ہیں کہ جہیز میں شوہر کی خواہش کے مطابق سامان نہ لاسکنے پر شوہر بیوی پر شکوہ شکایت کا سلسلہ شروع کر دیتا ہے اسے ستانے لگتا ہے بالآخر شوہر کے یہاں اس کی زندگی تنگ ہو جاتی ہے اور مجبور ہو کر اپنے خاندان کے لوگوں کو شوہر کے مقابل لا کر کھڑا کر دیتی ہے پھر دونوں خاندان سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور دنیا کے سامنے دونوں طرف کے لوگوں کی عزت لٹ جاتی ہے پھر اصل موضوع اور اصل بات چھوڑ کر اپنی اپنی ناک بچانے کی باتوں میں پڑ جاتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سالہا سال تک دونوں طرف لڑائیوں کا سلسلہ جاری ہو جاتا ہے یا طلاق کے ذریعہ سے گھر کی بربادی ہوتی ہے یا لڑکی پھانسی لگا کر یا دریا میں چھلانگ لگا کر خودکشی کر لیتی ہے ۔ مسلمانوں میں ایک خطرناک بلاء اور مصیبت عام ہوتی جارہی ہے جس کی ابتداء پسماندہ علاقہ سے ہوئی تھی اب آہستہ آہستہ دیگر علاقوں میں بھی پھیلتی جا رہی ہے وہ مصیبت یہ ہے کہ لڑکے والے بے شرم اور بے غیرت بن کر لڑکی والوں پر مطالبہ رکھتے ہیں کہ اگر اتنا پیسہ یا اتنی جائیداد ہمارے لڑکے کو پیشگی دو گے تب تو ہم آپ کی لڑکی لے سکتے ہیں ورنہ ہم آپ کی لڑکی نہیں لے سکتے حالانکہ اس طرح کے مطالبہ کا حق لڑکی والوں کو لڑکی کے مہر کے متعلق ہونے کا ہوتا ہے اب معاملہ الٹا ہو کر بجائے لڑکی کے مہر کے لڑکے کے مہر کا مطالبہ کیا جانے لگا ہے ایسے حالات میں یہ امت فلاح یاب کیسے ہو سکتی ہے اور ایسے گھرانہ میں خیروبرکت کہاں سے آئے گی۔ ایک بات یاد رکھیں کہ دنیا میں مفت خور جس کی نگاہ دوسروں کی جیب پر ہوتی ہے وہ ہمیشہ ذلیل و خوار محتاج ہو کر ذلت کے عذاب میں مبتلا رہتا ہے حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص مال کے لالچ میں کسی عورت سے نکاح کرتا ہے اس کو محتاجی کی ذلت اٹھانی پڑتی ہے ۔
والدین کی طرف سے لڑکی کو جو تحفہ دیا جاتا ہے اسے عرف عام میں جہیز کہتے ہیں اپنی حیثیت کے مطابق والدین بیٹی کو کچھ نہ کچھ دیتے ہیں بس اگر نمود و نمائش کے بغیر والدین بیٹی کو اپنی حیثیت کے مطابق کچھ دیں تو یہ بلاشبہ سنت ہے لیکن ہمارے دور میں جس جہیز کا رواج ہے وہ سنت نہیں بلکہ بدعتِ سیئۃ ہے جو بہت سی برائیوں قباحتوں کا مجموعہ ہے ۔
(1) لڑکے والوں کی طرف سے جہیز کا مطالبہ ہوتا ہے۔ اور ان کا یہ مطالبہ شرعاً جبر و ظلم ہے ۔
(2) چونکہ لڑکی کے والدین کو معلوم ہے کہ اگر بھاری مقدار میں جہیز نہ دیا گیا تو بیٹی کو سسرال میں حقارت کی نظر سے دیکھا جائے گا اور اسے ساس نندوں کے طعنے سننے ہوں گے اس لیے خواہ ان میں جہیز دینے کی سکت ہو یا نہ ہو وہ اس کا انتظام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جہیز کے بارے میں یہ ذہنیت سراسر جاہلیت ہے ۔
(3) لڑکی والے جہیز کی وجہ سے لڑکی کو بٹھاۓ رکھتے ہیں۔ یہ بھی سراسر ظلم ہے ۔
(4) جہیز کے لئے بسا اوقات سودی قرضے لیئے جاتے ہیں۔ یہ بھی حرام ہے ۔
(5) اس جہیز کی باقاعدہ نمائش ہوتی ہے۔ یہ ریاکاری ہے ۔
(6) اس جہیز کے رواج کی وجہ سے بہت سے والدین اپنی بچیوں کا عقد نہیں کرسکتے اور نہ ان کا رشتہ آتا ہے ان وجوہ سے معلوم ہوا کہ موجودہ دور میں جہیز کے نام سے جو لعنت ہم پر مسلط ہے۔ یہ سنت نہیں ۔
کاش ہم سیرتِ نبوی کے آئینے میں اپنی سیرت کا چہرہ سنوارنے کی کوشش کریں ۔
لہذا۔ حساس، باشعور، غیرت مند، اور جس کے سینے میں بھی دل ہے ہر ایک کی ذمہ داری ہے کہ مسلم سوسائٹی کو اس لعنت (جہیز) سے پاک کرے ورنہ اگر کوئی لڑکی جہیز کے لالچیوں اور بھکاریوں سے تنگ آکر خودکشی کرتی ہے تو اللہ کی عدالت میں مسلم سماج کا ایک ایک فرد جواب دہ ہوگا اور اس سے اس کی ذمے داری کے بارے میں سوال کیا جاۓگا