Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, March 18, 2021

خود غر ضی - سماج کے ما تھے کا کلنک....*

                                                                                  تحریر  *مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ وجھارکھنڈ*  صدائے  وقت۔
-----------------------------------------------------------------            خود غرضی: مفاد پر ستی ،مطلب پر ستی اور دو سر وں کے مفاد کو نظر انداز کر کے اپنا الّو سید ھا کرنے کا نام ہے،یہ ایسی خبیث صفت ہے جو انسان کی انفر ادی اور اجتما عی زند گی میںدبے پاؤں دا خل ہوجاتی ہے اور سماجی نظام کو دیمک کی طر ح چاٹ چاٹ کر کھو کھلا کر دیتی ہے ، اس سے انسا نیت تباہ ہو تی ہے ،امن عالم میں دراڑیں پڑتی ہیں،سماجی نظام درہم برہم ہو جاتا ہے اور بسا اوقا ت ملکی وملی مفاد کو بھی زک پہو نچتی ہے ،چند ٹکوں کے حصو ل کے لئے ملک کے اہم دستاویز کا سو دا کر لینا، کا رو بار کو چمکا نے کے لئے ذخیرہ اندو زی ،منا فع خوری ،سودی لیں دین ،بد دیا نتی، فریب دہی، یہ سب خو د غرضی کی ہی مختلف قسمیں ہیں، جن کی طرف ہماری توجہ نہیں جاتی اورہم ان میں گر دن تک ڈو بتے چلے جا تے ہیں ۔
آج مسئلہ یہ نہیں ہے کہ انسان کی بنیا دی ضرو ر تیں کیسے پو ری ہو ں، بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ خو د غرضی کے جر اثیم نے جو ہم میں{ھل من مزید}’’کچھ اور ‘‘کی وبا پھیلا ئی ہے ،اس کو کیسے دور کیا جائے ،مر ض جتنا پر انا ہو تا ہے، اتنا ہی اس کو دو ر کرنا مشکل ہو تا ہے ،یہ مر ض بھی کا فی پر انا ہے، رسولو ں ،ریفار مر وں نے اپنے اپنے طور پر اسے دور کرنے کی کو ششیں کیں،جس کی وجہ سے خو د غرضی اور دو سری بر ائیوں کے خلا ف انسانی ذہن بیدار ہوا،ایثار و قر بانی کے ایسے ایسے واقعات سننے اور دیکھنے کو ملے کہ عقل حیران رہ گئی ،لیکن جیسے جیسے ذہن ان تعلیما ت سے دور ہوتا گیا ،خود غرضی کے جر ا ثیم دل و دماغ میں پھر سے آبسے اورزندگی کا ہر شعبہ اورہر میدان اس کی گرفت میں آگیا،گھر سے لیکر بازاروں تک ،کھیت کھلیان سے لیکر میدان جنگ تک ،خاند ن سے لیکر بین الا قوامی انجمنوں اورتنظیموں تک ،اسکا دائرہ وسیع ہو گیا،وہ ایر ان وعراق جنگ ہویا تامل سنہا لیوں کی لڑا ئی ،دو عظیم جنگوں کا سانحہ ہویا خالصتان کی دم تو ڑ تی تحر یک، ہند وپاک کی تقسیم کاسا نحہ ہو یا مصر و شام کا تنا زعہ، دینی اداروں میں ہنگامہ وسو رش ہویاکارخانوں میں  ہڑتالوں کا سلسلہ ،سب کی جڑ وں میں خود غر ضی کی کا رفر ما ئی ہے ،فر ق اگر ہے تو صر ف یہ کہ کچھ لوگ چھو ٹے پیما نے پر ،انفر ادی طور پر اس کا شکار ہیں اور کچھ اجتما عی طور پر قومی پیمانے پر اس کا م کو کررہے ہیں ،جس کے نتیجے میں آج ساری دنیا تجا رت کی منڈی یا لو ہا ر کی بھٹی بن کر ر ہ گئی ہے ، ساری زمین میدان جنگ ہے ،اور امن و شانتی کے بڑے بڑے دعووںکے باوجودچھو ٹی اورکمزور قو موں کے لاکھو ں بے گنا ہ انسان اس اجتماعی خود غر ضی کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں ۔
یہاں ایک بات یہ بھی ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اپنے مفاد کا تحفظ اور بات ہے اور خود غرضی اور چیز،اپنے مفاد کا تحفظ اور ضرورت پر نظر رکھنا فطری ہے اور شر یعت بھی اسے مذموم اور لائق ملامت نہیں سمجھتی،ہاں خاندان،سماج اورمعاشرہ کے تئیں اگر کو ئی اپنے فرائض کو اس مفادکے پیش نظر بھو ل جا ئے ،اور ملک وملت کی جو ذمہ داریاں اس پر عائد ہو تی ہیں وہ پس پشت چلی جائیں تویہ لائق ملا مت بھی ہے اور مذموم بھی، بالفاظ دیگر یہ کہہ لیجئے کہ اپنے مفاد کے تحفظ اور خود غر ضی میں ایک ایسافاصلہ ہے ،جس کی سر حد ی تقسیم شاید ممکن نہیں ،اس کی تعیین کا م کرنے کے انداز اورطور طریقوں سے ہو سکتی ہے کہ یہ اپنے مفاد کا تحفظ ہے یا محض خود غر ضی ،شریعت مطہر ہ نے شاید؛ اسی لئے اپنے مفادکے تحفظ کا حق دینے کے باوجو د اسے دوسروں کی ضرورتوں پر قربان کر دینے کو ایک اچھا عمل قراردیا ہے اور اسے کا میابی کے اسباب میں شمار کرایاہے ۔
اسی طرح خود غرضی اوربے غرضی کو سمجھنا بھی بہت ضروری ہے ،غرض کے معنی مقصد کے آتے ہیں اور اس معنی میں انسان کا ہر کا م کو ئی نہ کوئی غر ض لئے ہو تاہے،بے غر ض کا م بے مقصد اورمہمل کہلاتا ہے ،خو د غر ضی کا م کو اپنے تک محدو د کر دیتی ہے اور بے غر ضی اسے مہمل بنا دیتی ہے انسان کو نہ تو بے مقصد کا م کر نا چا ہئے اور نہ ہی صر ف اپنے مفاد کے چکر میں پڑنا چاہئے ۔
یہا ں پر اب فطری طورپر یہ سو ال پیداہو تاہے کہ آخر اس کے اسباب کیا ہیں ؟یہ مرض انسان میں کیو ں پیدا ہو تا ہے ؟ اور اسے کس طرح دور کیا جا سکتا ہے ؟میر اخیال ہے کہ ایک مسلما ن اور ابدی دین کے حامل ہو نے کی حیثیت سے اس کا جو اب ہمیں اسلامی تعلیمات میں تلاش کر نا چاہئے ،جہا ں تک میر ی تلا ش ،جستجو اور میر ے فہم کی با ت ہے تو میر ے نزدیک اس کے چا ر بڑے اسباب ہیں :
حُب نفس :
یعنی اپنی محبت ،یہ اپنا پن ،اپنی ذا ت ،اپنے خاند ان اعز و اقر با اور ملک وملت تک محیط ہے ،خود غر ضی کے اکثر واقعات اسی کے بطن سے پیداہوتے ہیں ،اللہ رب العزت نے اسی لئے باربار اعلان کیا کہ تمہا ر اپنا کچھ بھی نہیں ہے ،یہ آسمان اور زمین اور اس کے در میان کی تما م چیز یں صر ف اور صر ف اللہ کے لئے ہیں ،اور اگر تم پوشیدہ یا ظاہر طور پر اپنا الو سیدھا کر نا چا ہتے ہو تو اللہ کے پا س اس کا ریکا رڈ مو جو د ہے (بقرہ :۲۸۴) پھر اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ اعلان بھی کروایا کہ میر ی نمازیں ،عبادتیں اورزندگی ،موت سب سارے جہا ں کے پالنہار کے لئے ہیں (الانعام:۱۶۲)جب معاملہ یہ ہے تو اتنی گنجا ئش کہا ں ہے کہ انسان اپنی ذات اور اپنے مفاد کے لئے کچھ سو چے ۔
حُب مال :
 خو د غر ضی کا دوسرا سبب حُبِّ مال ہے ،اسے وسیع معنوں میں ہم دنیا کی محبت بھی کہہ سکتے ہیں جب انسان اپنے سے زیاد ہ ما ل والے کو دیکھتا ہے ،اچھے مکا ن ،دیدہ زیب لباس ،لذیذ اورشہو ت انگیز کھانے ،شاند ار اور پر شو کت سوا ریوںپر اس کی نظر پڑتی ہے ،تو وہ دنیا کی نا پا ئیدا ری کو بھو ل کر اس کی آب و تاب کے پیچھے بے تحاشہ دوڑ نے لگتا ہے اور جا ئز و نا جا ئز کی پر واہ کئے بغیر اس کے حصو ل کے لئے کو شاں ہوجاتا ہے ،اس کی اس ریس سے کتنے کے مفاد کو زک پہو نچتی ہے اور کتنو ں کا نقصان ہوتا ہے ،اسکا احساس اسے نہیں ہو تا ،اسے اپنے حلوے مانڈ ے سے کام ہو تا ہے اور بس، قر آن کر یم نے مال و دولت کے سینت سینت کر رکھنے کو اخر وی نقصانات کا سبب بتایا ،(التوبہ) اوریہ واضح کیا کہ مال کی محبت کو ئی اچھی چیز نہیں؛بلکہ وہ فتنہ میں مبتلا کرنے والی چیز ہے اور صحیح یہ ہے کہ مال ودولت کا حصو ل کسی کو مالدار نہیں بنا تا، تم سب کے سب محتاج ہو اورغنی تو صر ف خدائے بزرگ و بر تر کی ذات ہے ،حضور اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے دولت والوں کو زیادہ غریب اورمحتاج قرار دیا ،اور فرما یا کہ مسکینوں پر مہر با نی کر و ،ان کی صحبت اختیا ر کرو اورہمیشہ اپنے سے ابتر حا ل لو گو ں دیکھو، (مسند احمد)اس سے دنیا کی رونق اور تب وتاب ،نگا ہوں میں کم ہو گی اور خود غرضی کے بجا ئے ایثار و قر بانی کا جذبہ پید اہو گا ۔
عز وجاہ کی ہوس :
خو د غرضی کا تیسرا سبب عز وجا ہ کی ہو س ہے ،جو دوسرے تمام اسباب سے زیادہ خطرناک اورنظام عالم کے فسادکا سبب ہے ،دراصل ہو تا یہ ہے کہ انسان جب عزہ وجاہ کی ہوس میں مبتلا ہو تا ہے تووہ حرص وہو اکا غلام بن جا تاہے ،وہ بہرحال اس عہد ے اور منصب کے حصو ل کی کو شش کرتاہے، جس سے اسے اپنی عزت میں اضا فہ کی امید ہو تی ہے، آج کی سیاست اور الکشنی نظام اس کی بدترین مثالیں ہیں ،اسلام نے انسانوں کی اس فطرت کے پیش نظر ان تما م لو گو ں کو عہدے دینے سے منع کیا جو خو د اس کو حا صل کر نا چا ہتے ہیں ،اس طرح ا س نے اس بڑے دروازے کو بند کردیا،جس سے خو د غر ضی کی جڑ وںکو و افر مقدار میںپانی پہنچتا تھا ۔
بگڑا معاشرہ :ہم جس معاشرہ میں رہتے ہیں اسکا آوا کا آوا بگڑ اہوا ہے ،اور مثل مشہور سے کہ خر بوزے کو دیکھ کر خربو زہ رنگ پکڑ تا ہے ،اس لئے خود غرضی کی وبامتعد ی ہو کرپھیلتی جا رہی ہے ،گو ہما رے رہنماؤں اورمصلحین کو اس کا حد در جہ احساس ہے ،لیکن وہ اس کا علا ج اسلامی تعلیما ت سے الگ ہو کر ڈھو نڈتے ہیں؛اس لئے کو ئی تد بیر کا رگر نہیں ہوتی ،ضر ورت اس بات کی ہے کہ قر آن وحد یث کی روشنی میں اس کاعلاج کیا جائے ورنہ فتنہ فساد ،قتل و غارت گری کا وہ بازار گر م ہوگا کہ ساری زمین خون سے لالہ زار ہو جا ئے گی (جس کی مثا لیں اب بھی نایاب نہیں ہیں ) اس وقت بند باندھنا اورسد باب کی کو شش کرنا فضول اوربیکا ر ہوگا ۔
آخر میں دعا ء ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں ان امر اض سے نجا ت دے؛ تاکہ یہ دنیا پھر سے رہنے کے لائق  بن جائے ۔