Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, March 4, 2021

حضرت فاطمہؓ کے جہیز کی حقیقت...


مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ/ صدائے وقت۔
++++++++++++++++++++++++++++++++++
آقاصلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ رب العز ت نے چار صاحبزادیاں عطا فرمائی تھیں، ان میں سب سے بڑی صاحبزادی حضرت زینبؓ ہیں، جن کی شادی مکہ میں حضرت خدیحہؓ کے خالہ کے لڑکے ابوالعاص بن ربیع کے ساتھ ہوئی،دوسری صاحبزادی حضرت رقیہؓ اور تیسری صاحبزادی حضرت ام کلثوم ؓ کا نکاح یکے بعددیگرے حضرت عثمان غنی ؓ سے ہوا، ان شادیوں کے جوتذکرے کتابوںمیںملتے ہیں، اس سے پتہ چلتاہے کہ ان صاحبزادیوں کونکا ح کے بعد ان کے شوہروں کے گھر پہنچادیاگیا، کسی بھی حدیث اور سیر وتاریخ کی کتاب سے یہ پتہ نہیںچلتا کہ آپؐ نے ان صاحبزادیوں کوکچھ جہیز کے طور پردیا۔
حضرت فاطمہؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں، جب آپ کچھ بڑی ہوئیں تو حضرت ابوبکرؓ وحضرت عمرؓ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا، آپ فداہ ابی وامی نے کم عمری کا عذر کیا اوربات ختم ہوگئی۔ کچھ دنوں کے بعدحضرت علیؓ شرماتے ہوئے دراقدس پر حاضر ہوئے اور جھجکتے ہوئے اپنا پیغام دیا۔
حضرت علیؓ  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب کے لڑکا تھے، عمرمیںکم وبیش حضرت فاطمہؓ سے چھ سال بڑے تھے، رہنے سہنے کاانتظام بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت علیؓ کے چچیرے بھائی اور سرپرست تھے۔
حضرت علیؓ کے اس پیغام کا تذکرہ پہلے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہؓ سے کیا، جب وہ شرم کی وجہ سے خاموش رہ گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کے حکم سے اس رشتہ کوقبول کرلیااورحضرت علیؓ سے دریافت کیا کہ تمہارے پاس فاطمہؓ کو دینے کے لیے کچھ ہے؟ حضرت علیؓ نے جوا ب دیا: جنگ بدر میں جوزرہ ہاتھ آئی تھی، وہ ہے، اور ایک گھوڑا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گھوڑا تمہارے کام کا ہے،البتہ زرہ بیچ دو، چنانچہ یہ زرہ چار سو اسّی درہم میں حضرت عثمان غنیؓ نے خریدلیا، حضرت علیؓ وہ رقم لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی میں سے کچھ رقم حضرت بلالؓ کو دیا کہ وہ خوشبو خرید کرلائیں۔اور بقیہ رقم حضرت انس کی والدہ ام سلیمؓ کودیاکہ وہ حضرت سیدہؓ کی رخصتی کا انتظام کریں۔خادم خاص حضرت انسؓ کوحکم ہوا کہ جاکر حضرت ابوبکرؓ،حضرت عمرؓ، عثمانؓ،طلحہؓ،زبیرؓ اور انصاری صحابہ کی ایک جماعت کوبلالائو ،یہ سب لوگ حاضر ہوگئے تو آپ نے مختصر سا خطبہ پڑھ کر نکاح کردیا، اور چھوارے تقسیم کرادیئے۔پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی ام ایمنؓ کے ہمراہ حضرت فاطمہؓ کو حضرت علیؓ کے گھر بھیج دیا جوپہلے سے کرایہ پر حاصل کرلیاگیاتھا، بعد میں حضرت حارثہؓ بن نعمان نے اپنا مکان دے دیا توحضرت فاطمہؓ مسجد نبوی کے قریب اس مکان میں منتقل ہوگئیں۔
حضرت ام سلیمؓ نے حضرت علیؓ کی زرہ والی رقم سے حضرت فاطمہؓ کی رخصتی کا جوسامان لیاتھا، وہ بھی حضرت فاطمہؓ کے ساتھ ان کے گھر بھیجودایا ، تذکروں میں ملتا ہے کہ یہ معمولی قسم کے گھریلو سامان تھے،جس میں دوچادریں، کچھ اوڑھنے بچھانے کامختصر سامان، دوبازو بند، ایک کملی، ایک تکیہ، ایک پیالہ، ایک چکی، ایک مشکیزہ ،ایک گھڑا اوربعض روایتوں میں ایک پلنگ کا تذکرہ بھی ملتاہے۔
یہ ہے حضرت فاطمہؓ کے نکاح کی پوری تفصیل جو کتب احادیث سیر وتاریخ میں عام طور پردیکھاجاسکتاہے، اسے ایک بار پھر پڑھ لیں اورغورکریں تو تین باتیں بہت صاف طور پر آپ کے سمجھ میں آئیں گی:
۱۔ حضرت علیؓ بچپن سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے ،ان کی علیحدہ کوئی مستقل سکونت نہیں تھی،اورنہ ہی الگ سے کوئی گھریلو سامان تھا، اس طرح آ پ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سرپرست تھے،مربی اور ولی تھے۔
۲۔ بحیثیت ولی اورسرپرست آپ کی اخلاقی ذمہ داری تھی کہ شادی کے بعد حضرت علیؓ کے گھردر کاانتظام کرتے، تاکہ حضرت علیؓ کی سکونت ورہائش جب آپ سے الگ ہوتو کسی قسم کی دقت روزمرہ کی زندگی میں پیش نہ آئے، اسی خیال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ ضروری سامان حضرت علیؓ کے لیے مہیا کرایا،گویا ان چیزوں کی فراہمی آپؐ نے حضرت علیؓ کے لیے بحیثیت سسر نہیں، بلکہ سرپرست ہونے کے ناطے کیا۔
۳۔ یہ سامان کی فراہمی بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رقم سے نہیں،بلکہ حضرت علیؓ کی زرہ بیچ کر جو رقم حاصل ہوئی تھی اس رقم سے کیا۔
یہی وہ حقائق ہیں جن کی بنیاد پرعلماء امت نے بہت واضح اور صاف طور پرلکھا ہے کہ حضرت فاطمہؓ کو دیے گئے سامان سے جہیز کے سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کا استدلال صحیح نہیں ہے۔چنانچہ استاذ حدیث دارالعلوم ندوۃ العلماء حضرت مولانا برہان الدین سنبھلی لکھتے ہیں:
’’جہیز کے موجودہ طریقہ کے سنت نہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ وہ گھریلو سامان جو حضرت فاطمہؓ کو آپؐ نے بوقت رخصتی(یا اس کے بعد) دیاتھا، جسے عوام جہیز دینا کہتے ہیں ،وہ خود حضرت علیؓ کی طرف سے فراہم کردہ رقم سے خریدکردیاتھا، جس کی صراحت اہل سیر نے کی ہے‘‘۔
حافظ محمد سعد اللہ صاحب لاہوری نے تو صاف لفظوں میں اسے خلاف شرع اور خلاف قرآن وسنت قرار دیاہے، لکھتے ہیں:
’’اس کو حضرت فاطمہ زہرہؓ کی پاک ذات کی طرف منسوب کرکے جو ایک مذہبی تقدس دیاجاتاہے، اور اس مذہبی تقدس کی آڑمیں جونمود ونمائش اور اظہار دولت کیا جاتاہے ، اورایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور برتری حاصل کرنے کی جو سعی نامشکور کی جاتی ہے وہ بہر کیف غلط ، ممنوع خلاف شرع اور قرآن وسنت ہے‘‘۔
حضر ت مفتی شفیع صاحبؒ لکھتے ہیں:
’’ہمارے زمانہ میںجہیز کوجس طرح نکاح کالازمی جزو قرار دیا گیاہے، جس طرح اس کے بغیر لڑکی کی شادی کو ناک کٹوانے کامرادف سمجھ لیاگیا ہے،اورجس طرح اس کی مقدار میں نام ونمود اور دکھلاوے کی خاطر روز بروز اضافہ کیاجارہا ہے کہ غریب سے غریب انسان قرض لے کر رشوت اور مال حرام استعمال کرکے اس مقدار کوپورا کرنا ضروری سمجھتا ہے اور جب تک اس پر قدرت نہ ہولڑکیاں بغیر نکاح کے بیٹھی رہتی ہیں، یہ پورا طرز عمل سنت کے قطعی خلاف ہے‘‘۔
مولانا عبیداللہ رحمانی مبارکپوری لکھتے ہیں:
’’حضرت فاطمہؓ کی شادی کے موقع پر آپؐ کی طرف سے دونوں کو جو کچھ دیاگیااس کوجہیز کی مروجہ ملعون رسم کے ثبوت میں پیش کرنا بالکل غلط اور نادرست ہے‘‘۔
ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’لینے اور دینے کی یہ رسم چاہے اس کا جو بھی نام رکھ دیاجائے، شرعاً ناجائز اور واجب الترک ہے‘‘۔
حافظ محمد سعد اللہ جونپوری ریسرچ آفیسر مرکز تحقیق دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری لاہور نے جہیز سے متعلق اپنے تفصیلی مقالہ’’ جہیز کی شرعی حیثیت‘‘ میں تمام روایات کاجائزہ لینے کے بعد بالکل صحیح لکھاہے:
’’قرآن مجید میں، کتب احادیث میں، متقدمین فقہاء کی کتابوں میں مروجہ جہیزکاوجود ہی نہیں،صحاح ستہ، معروف کتب احادیث اورچاروں ائمہ فقہاء کی امہات الکتب میں ’’باب الجہیز‘‘ کے عنوان سے کوئی باب نہیں، اگر یہ کوئی شرعی حکم ہوتا توکوئی وجہ نہ تھی کہ جہاں نکاح سے متعلق دیگراحکامات مثلاً نان نفقہ، مہر، بہتر معاشرت ، طلاق، عدت، وغیرہ تفصیلاً بیان ہوتے ، وہاںجہیز کابیان نہ ہوتا‘‘۔
خلاصہ کلام یہ کہ جہیز کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے، اورجہیز فاطمی سے استدلال کرکے اس کو مذہبی رنگ دینا یا تو کم علمی ہے یا ڈھٹائی ،اس لیے اس سے احتراز ہی بہترہے، رہ گئی بات گھریلو ساز وسامان کی تیاری کی تو علماء نے اس سلسلہ میں صراحت کی ہے کہ اس کا ذمہ دار خاوند ہے اور شریعت میںکوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس کی بنیاد پرعورت کو مجبور کیاجائے کہ وہ اپنے ساتھ اسباب خانہ بھی لائے۔